غریب وسادہ ورنگیں ہے داستان حرم۔۔سلیم جاوید

حضرت ابراہیم نے مکہ کے لق ودق صحرا میں اپنی بیوی حاجرہ اور نومولود بیٹے، اسماعیل کو بے یارومددگارچھوڑدیا اور خود فلسطین واپس چلے گئے- کئی تکالیف سے گذر کرجب وہ بیٹا بڑا ہوا توحضرت ابراہیم، واپس ایک بار مکہ گئے اور اسی بیٹے اسماعیل کو اللہ کے حکم سےذبح کرناچاہا – بیٹے کو منی میں لے گئے اور اپنی اور اسکی آنکھوں پرپٹی باندھ لی تو خدا نے نیچے سے بیٹے کو نکال کر، اسکی جگہ مینڈھا رکھ دیا- حضرت ابراہیم نے اس مینڈھے کو بیٹا سمجھ کرذبح کردیا- حضرت ابراہیم کی اس سنت کی اتباع میں ہم مسلمانوں پرقربانی کرنا واجب کردیا گیا ہے- اس لئے اسکو “سنت ابراہیمی” کہتے ہیں- بعد میں حضرت اسماعیل اورحضرت ابراہیم نے مل کرخانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی-

عرصہ قبل سلمان رشدی ملعون کی کتاب “شیطانی آیات” کو جستہ جستہ دیکھا تھا-( میں ہراس شخص کو ملعون قراردیتا ہوں جو کسی کے مقدسات کو گالی دیتا ہو)-حضرت ابراہیم کوگالی دیتے ہوئے اس ملعون نے لکھا تھا کہ “ابراہیم نبی کتنا ظالم تھا کہ شیرخوار بچے کوصحرامیں ، بغیرپانی وخوراک کے مرنے کیلئے چھوڑ گیا تھا”- بعد میں معلوم ہوا کہ رشدی نے بھی اپنا بیانیہ، مولوی صاحبان کے بنائے افسانوں پرترتیب دیا تھا-
خود قرآن پاک سے جب میں نے واقعہ پوچھا تو جو کہانی سمجھ میں آئی  ، وہ عرض کردیتا ہوں-

حضرات ابراہیم ، ارض فلسطین کی سرسبز وشاداب وادی میں اپنی دوبیویوں (حاجرہ وسارہ) کے ساتھ رہتے تھے- بڑی بیوی سے حضرت اسماعیل نامی بیٹا تھا- مگر چھوٹی بیوی لاولد تھی- بعد میں حضرت سارہ سے بھی اولاد ہوئی  مگراسماعیل ہی انکا بڑا بیٹا تھا( البقرہ 136- ترتیب اولاد)-

حضرت ابراہیم کو احساس تھا کہ مکہ نامی جگہ میں خدا کا پہلا گھر، اس لئے ویران ہوتا جارہا کہ نگرانی کرنے کوکوئ مجاور موجود نہیں ہے مگرمسئلہ یہ تھا کہ ابراہیم اکیلے تھے- فلسطین ومکہ کو ایک ساتھ نہیں سنبھال سکتے تھے-

پس جب حضرت اسماعیل بڑے ہوگئے توپھر حضرت ابراہیم اپنی اس پہلی فیملی کومکہ لے کرچلے تاکہ وہاں خدا کے گھرکے نگہبان میسر ہوں، اسکی دیکھ بھال کریں، آنے والوں کا استقبال کریں تو خلق خدا وہاں کے فیوض وبرکات حاصل کرے- جب حضرت ابراہیم مکہ پہنچے تووہاں خانہ کعبہ پہلے سے موجود تھا اوراسی گھر کے جوار میں اپنے کنبہ کو ٹھہرایا( عند بیتک المحرم ۔۔ سورہ ابراہیم 37)-یہاں حضرت ابراہیم نے اپنے کنبہ کیلئے پہلے مسکن تعمیرکیا نہ کہ کھلے آسمان تلے چھوڑا- (انی اسکنت- سورہ ابراہیم 37)-

حضرت ابراہیم، جب اپنے گھرانے کو لیکرمکہ کی وادی میں پہنچے تو ارض فلسطین کے مقابلے میں اسکو ایک خشک وادی پایا- اس لئے اسکو”وادی غیرذی زرع” بولا-مگریہ ایسی وادی بہرحال نہ تھی کہ زندگی کا سامان ہی نہ ہوتا- عربی لغت میں وادی “غیرذی زرع ” اس وادی کو بولا جاتا ہے جہاں صرف تربوز اوربینگن کی فصل ہو(یعنی پانی بھی وہاں مہیا تھا)- وہاں حضرت ابراہیم نے یہ دعا مانگی کہ یہاں دیگرپھل فروٹ بھی عطا کر( یہ “مزیدرزق” کی خواہش بتاتی ہے کہ وہاں بنیادی خوراک موجودتھی- سلمان رشدی ملعون کو غلط اطلاع ملی ہوئی  ہے)- اصل میں حضرت ابراہیم اسکا تقابل ارض فلسطین سے کررہے تھے ورنہ زندگی کے اسباب میسر تھے- “وادی غیرذی زرع” کے الفاظ، حضرت ابراہیم کے ہی الفاظ ہیں-

مکہ میں ” زم زم” کا چشمہ عطا ہونا، الگ سے خدا کی نعمت تھی جوخاندان ابراہیم کیلئے عطا ہوئی-مگرکیا یہ چشمہ کسی بچے کی ایڑی رگڑنے سے نکلاہے؟ تو قرآن میں اسکی صراحت نہیں ہے- جو چیز قرآن میں واضح نہ ہو توہم کیا عرض کریں- قرآن میں خدا نے حاجی کو صفاو مروہ کے درمیان دوڑنے کا حکم دیا ہوا ہے- کیوں ؟ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ مذہبی حکم ہے- مگر ہم نے اس پربھی ایک افسانہ بنا رکھا ہے کہ حضرت حاجرہ، اپنے شیرخوار بچے کو اس وادی میں زمین پرسلا کر، دونوں پہاڑیوں پر دوڑ کر جایا کرتیں ( تاکہ کوئی  قافلہ گذرے تو دیکھ لیں )- پہاڑی کے اوپرجاکر، بچے کا خیال آتا کہ کوئی  درندہ نہ کھالے تو واپس بھاگ کرآتی تھیں اور پھر دوسری پہاڑی پردوڑ جاتیں- اس طرح سات چکر لگائے- بندہ پوچھے کہ اس دوران اگر شیرآجاتا تووہ کیا وہ شیر سے زیادہ تیزرفتارتھیں کہ اپنے بچے کو بچانے واپس آجاتیں؟- پھر دو پہاڑوں پرسات بار دوڑ کرچڑھنے والی عورت کی طاقت کا تقاضا تھا کہ شیرخوار بچے کو ساتھ اٹھا کرجاتیں، اسے وادی میں چھوڑ جانے کا فائدہ؟-

خیر، وہاں حضرت ابراہیم نے اپنے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کے ساتھ مل کرپرانے کعبہ کی مرمت کی تھی نہ کہ پہلی باراسے بنایا تھا( یرفع القواعد۔۔البقرہ 127)- جب بنالیا تو حج کا طریقہ عطاکرنے کی دعا مانگی(البقرہ 128)- چنانچہ یہ مشہور روایت بھی محل نظر ہے کہ پہلے ہرنبی نے اس جگہ آکرحج کیا تھا –ایسا ہوتا توحضرت ابراہیم کو اسکا علم ہوتا-
چونکہ انکی اس فیملی کے ساتھ جوان لڑکا موجود تھا توانکو یہاں چھوڑ کرحضرت ابراہیم نے واپس اپنی دوسری فیملی یعنی بیوی سارہ کے پاس جانا تھا – اس لئے کہ حضرت سارہ ، نہ صرف لاولد تھیں بلکہ بالکل بانجھ تھیں تو انکا خاوند کے علاوہ کوئ دوسراسہارا نہیں تھا- یہ احساس حضرت ابراہیم کو بھی تھا اور حسرت رہتی تھی کہ کوئی  اور بیٹا، اس بیوی سے پیدا ہوتا تو وہاں کی خبرگیری کرتا- پس تعمیرکعبہ کے وقت دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا ، مجھےکوئی  صالح بیٹا عطا فرما-( جب واپس گئے تو فرشتہ نے اسحاق نبی کی بشارت دی)-

جب حضرت اسحاق بڑے ہوئے توحضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کے ذبح کرنے والا خواب دیکھا اور پھرمینڈھا والا واقعہ ہوا( یہ تفصیل سورہ صافات میں آیت 99 تا 112 موجود ہے)- یہاں پرخاکسار کا خیال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کا عشق خداوندی، اسکو گوارا نہ کرسکا کہ اپنے خواب بارے خدا سے پوچھ لیں اور اپنے فہم میں جوآیا وہ کرگذرے( نبی کا فہم غلط ہوسکتا ہے- داؤد وسلمان کے قصہ میں ایک نبی کا فہم کمزوربتایا گیاہے)- خدا نے مگرنہ صرف انکے بیٹے کو بچایا بلکہ “عشق ابراہیم” کی قدر کرتے ہوئے ، جزا کے طور پرانکا قصہ اور انکا نام، تاقیامت اعزازکے ساتھ باقی رکھا ہے)-

بہرحال، “ذبح عظیم ” والا واقعہ، مسلمان اور یہودی، دونوں فریق مانتے ہیں- فرق یہ ہے کہ یہودی کہتے ہیں یہ حضرت اسحق کے بارے میں ہے اور مسلمان کہتے ہیں حضرت اسماعیل کے بارے میں ہے-

ہمارے بعض علما بھی انہی آیات کی بنا پراقرار کرتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت اسحاق کے بارے میں ہے- انکی دلیل یہ ہے کہ سورہ صافات کی ایت 100 میں حضرت ابراہیم نے دعا مانگی ” مجھے صالح اولاد عطا فرما”-اور پھراگے ایت 112 میں ہے” ہم نے اسحاق عطا کیا جو صالحین میں سے تھا”- پس معلوم ہوا کہ قربانی کیلئے پیش کردہ لڑکا حضرت اسحاق تھا-

خاکسارمگر اس سے متفق نہیں ہے- کیونکہ انہی آیات کی رو سے، قربانی کا واقعہ کے ہونے کے بعد ہی حضرت اسحاق کی بشارت دی گئی ہے توقربانی والا بیٹا، حضرت اسحاق کیسے ہوسکتا ہے؟- دوسری بات یہ حضرت اسحاق کی پیدائش کے ساتھ ہی انکی نسل سے حضرت یعقوب کی بشارت بھی دی گئی تو کیسے ممکن تھا کہ حضرت ابراہیم، بچپن میں ہی حضرت اسحاق کو ذبح کردیتے کیونکہ خدا نے خود انکی اگلی نسل کا نام لیکرخبردی ہوئی  تھی – حضرت ابراہیم ، خدائی  خبرکوبائی  پاس کرکے، انکی نسل کیوںکرختم کردیتے؟- ( سورہ ہود آیت 71)-

بہرحال، یہ کوئی  خاص ایشو نہیں کہ حضرت ابراہیم کے دونوں میں سے کونسا بیٹا “ذبیح اللہ” تھا؟ – قرآن یہ بتاتا ہے کہ جب یہ لڑکا( جو بھی تھا) ، اپنے باپ کے ساتھ بھاگنے دوڑنے کے قابل ہوا تو حضرات ابراہیم نے بمطابق خواب ، اسکو ذبح کرنے کی ٹھانی اور ذبح کرنے کیلئے لے گئے- ذبح عظیم کا یہ واقعہ کس جگہ ہواتھا؟- قرآن میں تو “مکان” مذکور نہیں ہے پھراسکو مناسک حج میں، منی کی جگہ پر اورعرفہ کے دن پرکس نے فٹ کردیا ہے؟-

آگے چلئے- قربانی کس کی ہوئی  اور کہاں ہوئی  کو بھی چھوڑیئے- اصل بات پہ آیئے کہ عید پر جانور قربان کرنا “سنت ابراہیمی” کیونکرہوئی ؟- آپ اسکو” سنت الہی” کہیے یا” سنت محمدی” مگر”سنت ابراہیمی” نہیں کہہ سکتے-اگر یہ ” سنت ابراہیمی” ہوتی تو دیگر مذاہب ابراہیمی میں بھی اسکا کوئی  سراغ ملتا- یہود کا ایک فرقہ، ایک خاص دن بیل ذبح کیا کرتے تھے مگروہ ملک مصر کی واپسی کی خوشی پرنہ کہ اس قربانی کی بنا پر(کچھ لوگ اس قربانی کی گائے والے واقعہ کے تشکرپرمحمول کرتے ہیں جہاں یہود کو بہانے بنانے باوجود معاف کردیا گیا- سورہ بقرہ میں اسی تفصیل موجود ہے مگریہودی، یہاں گائے کی بجائے بیل کا ذکرکرتےہیں)-

دیکھئے خدا نے نے یہ اعلان کیا کہ اے ابراہیم، آپ نے خواب کوسچا کردکھایا اور اب ہم آپکی جگہ اس بیٹے کا فدیہ دیتے ہیں- سوال یہ ہے بیٹے کے بدلے جو مینڈھا لایا گیا، وہ “سنت ابراہیمی کیسے ہوئی “-اسکوآپ “سنت الہی” کہہ سکتے ہیں- حضرت ابراہیم کا تو پروگرام ہی نہیں تھا کہ مینڈھا ذبح کریں- انکی سنت اگر ہے تو یہ ہے کہ اپنا بیٹاذبح کیا جائے نہ کہ کوئی  مینڈھا وغیرہ-

اگلا سوال یہ ہے کہ ایک چیز کا ابراہیم نبی کو خصوصی طورپرحکم دیا گیا اور انہوں نے اپنے سارے تحفظات باوجودپورا کرنے کی کوشش کی مگراللہ نے اپنا معجزہ دکھادیا – اب اس واقعہ کو فالو کرنا ہم سب امتیوں کیلئے کیوں ضروری ہے؟- یوں تو حضرت موسی کو خصوصی طور بولا گیا تھا کہ اپنی لکڑی کو سمندرپرمارو اور پھر اس پانی پرچل پڑو- انہوں نے نہ جانتے ہوئے بھی حکم خدا کی تعمیل کی جسکے عوض، خدا نے پانی پر راستہ دے دیا تو کیا اب ہم سب مسلمان، اس “سنت موسوی” کو ادا کرنے، لکڑی مارنے دریاؤں پرجایا کریں؟- ایک خاص بندے کے ساتھ خاص معاملہ خدا نے کیا اور اس واقعہ کو بطور عبرت ونصیحت محفوظ کردیا(وَتَرَكْنا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ)-

لہذا، اس رسم کو “سنت ابراہیمی “قراردینا سمجھ میں نہیں آیا- البتہ اسکو”سنت محمدی” قراردے سکتے ہیں کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ حج کے موقع پرحضور نے 63 اونٹ ذبح کئے تھے- کیا حج کے علاوہ بھی حضور نے کبھی مدینہ میں اس عید کے دن پرقربانیاں کی تھیں؟ اگرہاں تو ہم کو بھی کرنا چاہیئے- اگر نہیں تو پھر صرف حاجی پر قربانی کرنا ہی “سنت نبوی” ہوئ- اس پہ اہل علم سوچتے رہیں – ہمارا مقصود، حضرت ابراہیم کی داستان ” بزبان قرآن” سنانا تھا –

Advertisements
julia rana solicitors london

پاک سیکولرویب سائٹ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply