کتاب ” موت کا منظر ” شائع ہوتی ہے۔۔حافظ طاہر محمود

چند سال قبل روحانی ٹیکسٹ بک بورڈ بنا ہے، تاکہ نونہالانِ  وطن کے لیے معیاری کتب شائع ہو سکیں اور نصابی کتب ایسے مواد پہ مشتمل ہوں جس سے بچوں کی اخروی زندگی بہتر ہو سکے۔ یہ دنیا تو عارضی ہے ۔ ہمیں آخرت بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

بورڈ کی تشکیل جمہوری انداز سے کی گئی ہے۔ اس میں ایسے مایہ ناز سائنسدان بھی شامل کیے گئے ہیں جو جنوں بھوتوں کی مدد سے بجلی بنانے اور پانی سے گاڑی چلانے کے منصوبے پیش کر چکے ہیں۔ایسے علما  بھی شامل کیے گئے ہیں جن کے نزدیک تمام ایجادات چودہ سو سال قبل دریافت ہو چکی تھیں۔ بس پتہ کافروں کو ہے ۔ کچھ ایسے لوگ، جنہوں نے ساری عمر کتاب نہیں پڑھی۔ ان کی نمائندگی بھی ضروری تھی۔ چنانچہ چند دانشوروں کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ ایسے رجال کار کی بھی ضرورت تھی جو مستقبل بیں ہوں۔ چنانچہ چند عامل حضرات کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ ایک جانب حوالدار صاحب بندوق تھامے بیٹھے ہیں۔ کچھ سیاسی نمائندے بھی موجود۔ ۔

بائیو لوجی کی کتاب پیش ہوتی ہے۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی روشنی میں ۔۔ ۔۔ لاحول ولا قوۃ۔ کیا شیطانی خرافات ہیں یہ ۔ ایک طرف سے آواز آتی ہے۔ یہ مولانا الف دین خیراتی صاحب ہیں۔ کیا ہم بوزنے کو جد اعلیٰ  قرار دیں ۔ کیا ہماری دم یا کم از کم نشانِ  دم بھی ہے بھلا ! یہ کہتے ہوئے وہ پشت سے دھوتی اٹھانے لگتے ہیں کہ ایک خاتون انہیں روک دیتی ہیں۔ مؤلف یہ یونٹ نکالنے کا وعدہ کرتا ہے۔

زمین تین سو پینسٹھ دن میں سورج کے گرد اپنا چکر مکمل کرتی۔ ۔۔ ٹھہرو ذرا ۔ تم ملحد ہو کیا ! بھلا زمین بھی گھومتی ہے ؟ یہ پروفیسر ڈاکٹر ل م خان ہیں ۔ سائنسی خدمات کے اعتراف میں تمغہ دیا جا چکا ہے۔ رائٹر کچھ کہنے لگتا ہے تو اسے یہ کہہ کر خاموش کر دیا جاتا ہے کہ ہمارے اک عالم نے چار سو بیس دلائل دےکر ثابت کیا ہے کہ زمین ساکن ہے۔ تمہیں چکر تو نہیں آ رہے! جی نہیں ۔
پس ثابت ہوا کہ زمین ساکن ہے۔ گھومتی تو چکر آتے۔

اگلی کتاب پیش ہوتی ہے۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے استغفراللہ ۔ کیا ہماری بہو بیٹیاں یہ عشقیہ پڑھیں گی اب ! ایک طرف سے نسوانی آواز آئی۔ ایسے ہی اشعار کی وجہ سے عورتیں مائل بہ عشق ہوتیں اور اپنے بیٹے پوتے روتے دھوتے چھوڑ کے خوابوں کے شہزادے کے پاس چلی جاتیں۔ رائٹر وعدہ کرتا ہے کہ اس کی جگہ نظم ” گائے اور بکری ” شامل کر دے گا۔
اک کونے میں غلام عباس کی ننگ دھڑنگ روح ” اووَر کوٹ ” کے ختنے ہوتے دیکھ رہی ہوتی اور احمد ندیم قاسمی “الحمد للہ ۔۔۔(مولوی ابل ) کو دیکھ کر استغفراللہ پڑھ رہے ہوتے۔

مطالعہ پاکستان کی کتاب آتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں سیاسی محرومی بڑھ چکی تھی۔ لیڈر شپ جیل میں۔ جنرل یحیٰی خان کی نا اہلی اور آپریشن ۔۔ ۔ ہینڈز اَپ ! حوالدار صاحب رائفل سیدھی کرتے ہوئے گرجے۔ کچھ دیر بعد عبارت یوں بنی۔ مکتی باہنی کی سازشوں، انڈیا کی در اندازی اور مجیب کی غداری کی وجہ سے ہمارا مشرقی بازو الگ ہوا ۔

ایک صفحے پہ ملالہ ، ایدھی ، روتھ فاؤ اور عبدالسلام کی تصاویر ہیں۔ یک بیک میٹنگ میں بھونچال آ گیا۔ سینکڑوں آوازوں کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہے تھی۔ ملالہ ملک دشمن۔ یہود کی ایجنٹ ۔ عافیہ قوم کی بیٹی ۔ ایدھی ناجائز بچے پالتا ۔ نکالو جہنمی کو۔ قادیانیت مردہ باد ۔ جب تک شور تھمتا ، بقیہ اراکین کتب خانے سے کتابیں اٹھانے پہنچ چکے تھے۔

بک بورڈ کا اجلاس ختم ہونے کو ہے۔ ڈائریکٹر کے ہاتھ میں مسودہ ہے۔ حضرات ! ہم نے تمام کتب سے عورتوں کی تصاویر ختم کر دی ہیں۔ فحاشی کے خاتمے کے لیے مینڈک اور جانوروں کی تصاویر کو پردہ کروا دیا ہے۔ ملک دشمن عناصر کی بطور مشاہیر تصاویر پہ کالک پھیر دی ہے۔ صرف وہی سائنس پڑھائی جائے گی جس کا آخرت میں نفع ہو۔ میر و غالب کے لغویات اور منٹو کی خرافات کی جگہ آستانوں کے شجرے اور کرامات شامل کی گئیں ۔ مطالعہ پاکستان کا اپ ڈیٹ ورژن شائع ہو چکا ہے۔ اب یہ کتاب بنام موت کا منظر، جس کا مقدس مسودہ میرے ہاتھوں میں ہے۔ یہ تمام اداروں میں پڑھائی جائے گی۔ اس میں قبر کے امتحان کے تمام جوابات ، قیامت کا سوالنامہ بھی شامل ہے۔ روحانی بزرگوں کے تمام کارنامے بھی شامل کیے گئے ہیں  تاکہ لوگ مغرب کی چکاچوند اور کارناموں سے مرعوب نہ ہوں۔ ملالہ اور عبدالسلام کی تصویر اب نہیں لگائی جائے گی۔

آخر ہم نے یہ ملک اس لیے تو نہیں بنایا کہ یہاں یہود و نصارٰی کے ایجنٹ ہیرو بنائے جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

( کالم کا مرکزی خیال ابن انشاء کے مضمون ” فلم مائی کا لال سنسر ہوتی ہے ” سے لیا گیا ہے۔ )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply