• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جب تُرک سارجنٹ نے فوجی انقلاب ناکام بنا دیا۔۔زعیم فارانی

جب تُرک سارجنٹ نے فوجی انقلاب ناکام بنا دیا۔۔زعیم فارانی

16 جولائی 2016 کی فوجی بغاوت ناکام ہونے کا آنکھوں دیکھا حال

میں نے 15 جولائی 2016 کی شب رات 10 بجے معمول کے مطابق اپنی ایوننگ کلاس ختم کی، طلبہ کے حاضری والے رجسٹر پر دستخط کیے اور 10:12 منٹ تک اگلے دن کی لیسن پلانگ کر کے اپنا لیپ ٹاپ کندھے پر لٹکائے قیام گاہ کی راہ لی۔ لینگوئج سکول سے باہر نکلا تو چقماق کوئے (Çekmeköy) کے گردونواح میں معمول کی ٹریفک رواں دواں تھی۔ بس سٹاپ سے ایشیائی استنبول کے میٹرو سٹیشن کی طرف جانے والی بس پر سوار ہوا تو معمول کے برعکس تُرکوں کو کوئی کتاب پڑھنے یا ہینڈ فری پر اپنا پسندیدہ میوزک سننے کی بجائے اپنے موبائلوں پر پریشانی کی حالت میں کسی نہ کسی سے بات کرتے پایا۔ ترکی زبان سے تھوڑی بہت واقفیت ہو چکی تھی پر سب لوگ افراتفری میں کیا گفتگو کر رہے تھے میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا۔

دس بج کر چھبیس منٹ کے قریب بس جب آلتون زادہِ (Altunizade) میٹرو سٹیشن کے قریب پہنچی تو وہاں بدترین ٹریفک جام تھا۔ استنبول میں ٹریفک کا گھنٹوں پھنسے رہنا معمول کی بات ہے مگر شام کے اس پہر ایسا ٹریفک جام معمول کے برعکس تھا اور زیادہ تعجب کی بات یہ تھی کہ ٹریفک رینگنے سے بھی قاصر تھی۔ لوگ اپنی گاڑیوں سے نکل کر باہر گرین بیلٹس پر اور کچھ اپنی گاڑیوں کی چھتوں پر بیٹھ کر تُرکی زبان میں نعرہ بازی کر رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی چیز کے خلاف احتجاج کر رہے ہوں۔ میں بھی تذبذب کا شکار ہو کر بس سے نیچے اُترا اور میٹرو سٹیشن کی طرف چلنا شروع کر دیا۔

سٹیشن پر پہنچا تو عملے کے اہلکاروں کو افراتفری میں ادھر اُدھر دوڑتے پایا۔ میں بس میں داخلے کے لیے لگی مشین پر اپنا ٹریولنگ کارڈ ٹیپ کرنے ہی والا تھا کہ پاس کھڑے ایک تُرک بزرگ چلائے “رُک جاؤ! میٹرو بند کر دی گئی ہے”۔ سٹیشن پر لوگوں کا جم غفیر موجود تھا اور میٹرو بسیں بالکل خالی بغیر رُکے گزرتی جا رہیں تھیں۔ اتنے میں میرے امریکی کولیگ رچرڈ کا میسج موصول ہوا جس میں لکھا تھا:
“Military coup imposed! Don’t go out. Stay safe.”
(فوجی انقلاب آ گیا! باہر مت نکلنا۔ اپنا خیال رکھنا۔)
اس میسج کے ملنے کے بعد کچھ دوست احباب اور سٹوڈنٹس کے پیغامات کا تانتا بندھ گیا اورپھر کچھ دیر بعد انٹرنیٹ ڈاؤن ہو گیا۔ موصول ہونے والے پیغامات دیکھ کر دماغ چکرا سا گیا اور آنکھوں کے آگے 12 اکتوبر 1999 کے پرویزی مارشل لاء کی دھندلی یادیں ناچنے لگیں۔

میں ترکی کے انٹرنیشنل لینگویج سکول “انگلش ٹائم” کی چقماق کوئے (Çekmeköy) برانچ میں ایلیمنٹری اور پری انٹرمیڈیٹ لیول کے طلبہ کو انگریزی پڑھاتا تھا۔ دو کلاسز میری صبح اور ایک کلاس ایوننگ ہوتی تھی۔ میری رہائش یورپی استنبول کے علاقے ایوب سلطان (Eyüp Sultan) میں تھی لیکن انگریزی پڑھانے میں روزانہ آبنائے باسفورس پار کر کےایشیائی استنبول کے علاقے چقماق کوئے جاتا تھا۔ یورپی استنبول سے ایشیائی اور ایشیائی استنبول سے واپس یورپی استنبول آنے جانے میں روزانہ تقریباً ۳ گھنٹے کی مسافت تھی مگر باسفورس برج کے اوپر سے گزرتے ہوئے دو سمندروں اور دو براعظموں کے سنگم کا جو حسین نظارہ ہوتا وہ بالکل تھکن کا احساس نہیں ہونے دیتا تھا۔

میٹرو کے بند ہو جانے کے بعد آبنائے (Bosphorus strait) کو پار کر کے شہر کے یورپی حصے میں داخل ہونے کے اب میرے پاس دو ہی طریقے تھے۔ ایک سب وے ٹرین جو کہ زیرزمین سمندر کو چیرتے ہوئے یورپی استنبول میں جا نکلتی ہے اور دوسرا فیری بوٹس جو ایشیائی تُرکی اور یورپی تُرکی کے درمیان چلتی ہیں۔ یورپی اور ایشیائی استنبول کو آپس میں جوڑنے والا زمینی راستہ باسفورس کا پُل (Bridge) تھا جس کو باغی فوجیوں نے فوجی ٹرکوں اور ٹینکوں کی مدد سے بلاک کر دیا تھا۔ باسفورس برج کا ٹرکش نام بوآز ایچی کوپرسو (Boğaziçi köprüsü) تھا جسے بعدزاں تبدیل کر کے شہیدوں کی یاد میں اون بیش شہیتلر کوپرسو (Onbeş Temmuz şehitler köprüsü) یعنی “شہدائے پندرہ جولائی پُل” رکھ دیا گیا۔ اب باسفورس سٹریٹ پر ایشیائی اور یورپی استنبول کو ملانے والے تین پُل ہیں جن کی لمبائ ایک سے دو کلومیٹر تک کی ہے۔

میں پہلے آپشن کا انتخاب کرکے قریبی سب وے سٹیشن کی تلاش میں نکل پڑا مگر چلتے چلتے بھٹک گیا اور بالآخر اُسکودار (Üsküdar) کے ساحل پر جا نکلا جہاں سے یورپی استنبول کی طرف فیری بوٹس چلتی تھیں۔ فیری سٹیشن پر لنگرانداز آخری بوٹ کو دیکھ کر تھوڑی جان میں جان آئی۔ فیری سٹیشن پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر پھر دل بیٹھنے لگا، تاہم اللہ کا نام لے کر میں دھکے کھاتے ہوئے فیری پر چڑھنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ اس دن زندگی میں پہلی بار اپنا دُبلا پتلا ہونا ایک نعمت لگا۔ فیری تیرنا شروع ہوئی اور تقریباً دس پندرہ منٹ بعد وہ یورپی استنبول میں خلیج یا شاخ زریں (Golden Horn) کے اندر داخل ہو کر ایمی نونو (Eminönü) فیری سٹیشن پر جا رکی جو کہ قدیم استنبول میں واقع ہے۔

ایمی نونو سٹیشن پر اتر کر میں نےگھڑی پر نظر دوڑائی تو رات کے تقریباً 12   بج چکے تھے۔ یورپی استنبول کے حالات زیادہ خوفناک تھے۔ ٹریفک ایشیائی حصے سے بھی زیادہ بُری طرح پھنسی ہوئی تھی، بسیں سڑکوں کے کنارے خالی کھڑی تھیں اور ٹریفک میں پھنسی ٹیکسیوں کے ڈرائیور میٹر بند کر کے منہ مانگا کرایہ مانگ رہے تھے۔ ایک کُرد ٹیکسی والے سے ایوب سلطان تک کا کرایہ پوچھا تو موصوف نے بلا جھجک ڈیڑھ سو ٹرکش لیرا مانگ لیا۔ معمول کے دنوں میں اتنی مسافت کا بل ٹیکسی کے میٹر پر ۲۰-۳۰ لیرا سے زیادہ کبھی نہیں بنا تھا۔ میں نے ٹیکسی میں بیٹھنے کا خیال یہ سوچ کر تَرک کر دیا کہ ڈیڑھ سو لیرا دے کر بھی اگر صبح فجر کے وقت ہی پہنچنا ہے تو اس بہتر ہے پیدل ہی چل لیا جائے۔ چنانچہ میں نے گولڈن ہارن (حلیج) کے کنارے کے ساتھ ساتھ پیدل ہی چلنا شروع کر دیا۔

رستے میں جگہ جگہ صدر اردوان کی وفادار پولیس اور باغی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں دیکھنے میں آئیں اور کئی جگہ مجھے راستہ بدلنا پڑا یا چھپ کر انتظار کرنا پڑا۔ گولیوں کی آوازیں آ رہی تھیں اور فضا میں سوپرسانک جنگی جہازوں کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا۔ رات 12:26 منٹ پر اردوان نے تُرک CNN کی ایک خاتون صحافی کو فیس ٹائم پر وڈیو کال کے ذریعے عوام کو سڑکوں پر نکل کر بغاوت کی مزاحمت کرنے کی اپیل کی۔ اس ولولہ خیز اپیل کے بعد مسجدوں میں اعلانات اور اذانوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں استنبول اور انقرہ کا چپہ چپہ ترک عوام کے ہجوم سے بھر گیا۔ نوجوان، بوڑھے، بچے اور عورتیں اپنے سروں اور سینوں پر تُرکی کا سُرخ پرچم سجائے جوق در جوق باہر سڑکوں پر نکل آئے۔ حدِ نگاہ تک تُرکی کے سُرخ پرچم جھلملا رہے تھے۔ مسجدوں کے سپیکروں سے گونجنے والی اذانوں اور عوام کے جذبے، جوش، ولولے اور بہادری نے میری ہمت بڑھائی اور میں چلتے چلتے بالآخر صبح ۳ بجے کے قریب اپنی رہائش گاہ پر پہنچ ہی گیا۔

ٹھیک رات کے ایک بجے ایف-16 طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے انقرہ میں واقع پولیس ہیڈ کواٹرز کو 6 مرتبہ نشانہ بنایا جس کی بعد پولیس کی سپیشل یونٹ برانچ اور تُرکی کے سیٹلائٹ آپریٹر تُرک سات (Turksat) پر بھی فضائی بمباری کی گئی۔ 2:32 پر ایف-16 طیاروں میں باغی پائلٹوں نے پارلیمنٹ پر 11 بار فضائی بمباری کی اور پارلیمنٹ کے ایمرجنسی اجلاس کے لیے اکٹھے ہونے والے ارکان پارلیمان کو پارلیمنٹ ہاؤس کے تہہ خانے میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ سات سے آٹھ گھنٹے تک جاری رہنے والی ان باغیانہ کارروائیوں میں 250 کے قریب سولین اور سیکیوٹی اہلکار شہید ہوئے اور تقریباً 2100 افراد زخمی ہوئے۔ رات ایک بجے باغی فوجی جنرل سمیح طرزی (Semih Terzi) اپنی فورس کے ہمراہ سپیشل فورسز کمانڈ ہیڈکواٹر کو ٹیک اوور کرنے کے لیے عمارت میں داخل ہوئے جہاں اُن کا سامنا نان کمشنڈ آفیسر عمر خالص دمیر (Ömer Halisdemir) سے ہوا۔ خالص دمیر نے فون پر اپنے کمانڈنگ جنرل کو مطلع کیا تو اس نے حکم دیا کہ جنرل طرزی کو فوراً شوٹ کر دو چنانچہ خالص دمیر نے جنرل سمیح طرزی کو موقع پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا جس سے باغی فوج کی چین آف کمانڈ ٹوٹ گئی۔ جنرل سمیع کی موت کے فوراً بعد باغی فوجیوں نے عمر خالص دمیر کو شہید کر دیا۔ جنرل سمیح طرزی کی ہلاکت نےسپیشل فورسز کمانڈ ہیڈ کوارٹر پر قبضے کی کوشش ناکام بنا دی جس کے نتیجے میں فوجی انقلاب نے دم توڑ دیا۔

اس طرح خالص دمیر 15 جولائی 2016 کے فوجی انقلاب کو ناکام بنا کر تُرک قوم کے ہیرو ٹھہرے ہیں۔ تُرکی کے شہر نِگدہ (Nigde) میں عمر خالص دمیر کی یاد میں اُن کا مجسمہ بنایا گیا ہے جہاں دور دراز سے لوگ فاتحہ پڑھنے اور تصویریں بنانے آتے ہیں۔ عمر خالص دمیر کی قربانی نے تُرک جمہوریت کو ایک نئے فوجی انقلاب کی نظر ہونے سے بچا لیا۔

صُبح پانچ بجے وزیراعظم بن علی یلدرم نے پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام کے بھرپور تعاون سے فوجی بغاوت ناکام بنا دی گئی ہے اور ملک میں جمہوریت محفوظ رہی ہے۔ علاوہ ازیں تُرکی کی چار بڑی سیاسی جماعتوں نے پارلیمانی اجلاس میں شرکت کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں جمہوریت کے خلاف سازش کی مذمت کرتے ہوئے فوجی بغاوت کی ناکامی کو خوش آیند قرار دیا اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے عظم کو دہرایا۔ آمدہ خبروں کے مطابق صبح 6:43 کے قریب باسفورس برج پر موجود تقریباً 130 باغی فوجیوں کو تُرک عوام اور پولیس کی مزاحمت کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ صدر اردوان بحیرہ روم کے ساحل پر واقع تفریح گاہ مارمرس کے ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ عوام کے نام اپیل جاری کرنے کے بعد وہ نصف شب مارمرس سےاستبول کی طرف پرواز کر گئے تھےاور اُن کی خوش قسمتی تھی کہ تھوڑی دیر بعد اُن کے ہوٹل پر ہونے والی فضائی بمباری کی زد میں آنے سے بال بال بچ گئے۔

تُرک عوام نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر جو جرأت و شجاعت کا مظاہرہ کیا اور ٹینکوں کے اوپر چڑھ کر باغی فوجیوں کی جو درگت بنائی وہ ساری دنیا نے دیکھی۔ ترک عوام نے پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر جس طرح یہ بغاوت کچلی اور ووٹ کی عزت کو پامال ہونے سے بچایا یہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اگلے روز 16 جولائی 2016 کو طلوع ہونے والے سورج نے ایک مضبوط جمہوریت کی نوید سنائی اور ایک جمہوری ملک کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت اور سازش کا ہمیشہ کے لیے گلا گھونٹ دیا۔

یہاں ایک ذاتی مشاہدے کا ذکر کرتا چلوں کہ بغاوت کو ناکام بنانے میں اردوان کے حامیوں کے ساتھ ساتھ مخالف پارٹیوں کے جمہوریت پسند حامیوں کا بھی بہت بڑا کردار تھا۔ پاکستان میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ سڑکوں پر نکلنے والے تمام تُرک اردوان کے حامی اور سپورٹر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس رات بہت بڑی تعداد میں اردوان مخالف عوام بھی سڑکوں پر نکلے تھے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں کہ تُرکی کے بڑے شہر استنبول، ازمیر اور انقرہ لبرلز اور سیکولر عناصر کا گڑھ ہیں جن کی بڑی تعداد اردوان سے شدید نفرت کرتی ہے۔ یہ تمام اردوان مخالف لوگ اپنے سیاسی نظریات کو پسِ پُشت ڈال کر صرف اور صرف ووٹ کے تقدس کو پامال ہونے سے بچانے کے لیے اردوان کی حمایت میں نکلےتھے۔

حالات کے معمول پر آنے کے بعد میں جب سکول پڑھانے گیا تو چائے کے وقفے پر طلبہ سے بغاوت کے مطلق رائے مانگی جس پر ایک سولہ سالہ بچی نے کہا کہ “میں نے اپنی فیملی سمیت باسفورس پر ساری رات گزاری اور مجھے خوشی ہے کہ تُرکی ایک بڑی تباہی سے بچ گیا پر کیا ہی اچھا ہوتا اگر اردوان بمباری میں مارا جاتا”

Advertisements
julia rana solicitors

تُرکی کے برعکس پاکستان کی سیاسی صورتحال مختلف ہے، اگر پاکستان میں فوج نواز شریف کی تیسری حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کرتی تو مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی عناصر فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے ہر گز اکٹھے نہ ہوتے جیساکہ اکتوبر 1999 میں پی ٹی آئی، پی پی پی اور طاہر القادری نے جنرل پرویز مشرف کے فوجی انقلاب کو خوش آمدیدکہا تھا۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے پاکستانی عوام اور تُرک عوام کی سیاسی و جمہوری بلوغت میں۔ تُرک اپنے ملک میں برپا ہونے والے بار بار کے مارشل لاؤں کی خرابیوں سے سبق سیکھ چکے ہیں جبکہ پاکستان میں آج بھی سدھائے ہوئے میڈیا، جذباتی نغموں،فلموں اور آئٹم سانگز کے ذریعے جمہوریت کے بخیے اُدھیڑے جاتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply