چوری کی دانشوری اور کاپی پیسٹ۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

میں ایک عام سا طالب علم ہوں،معمولی سا لکھاری ہوں، کبھی کبھار فرصت ملے، یا دماغ کچھ نیا سوچے تو کچھ لکھ لیتا ہوں، میڈیکل کالج میں کالج پروگرامز کے لیے لکھ لیتا تھا،   دوست پڑھ لیتے تھے، پسند کرتے، داد دیتے اور مزید لکھنے کا کہتے۔ایسے ہی ایک دن تحریر لکھی،  ایک ویب سائٹ کو  ای میل کر دی، تھرڈ ائیر میں تھا، سوچا نہیں تھا کہ شائع ہو گی، ای میل کرنے کے بعد میں تو بھول گیا، تحریر شائع ہو گئی، لیکن مجھے پتا نہ لگا ۔دو سال بعد، فائنل ائیر میں بلاگ لکھا جو اگلے ہی دن شائع ہو گیا، جب میں نے آتھر پروفائل دیکھا تو دو سال پہلے لکھا گیا کالم موجود تھا، خوشی کی انتہا تھی، وہاں سے ویب سائٹس پر لکھنا شروع کیا ۔

جب لکھنا شروع کر دیا، تو پتا چلا کہ لکھنے اور اچھا لکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے، کچھ کتابیں کھنگالیں کہ منفرد کیسے لکھا جائے؟؟ میڈیکل کی مشکل تعلیم ساتھ رواں تھی تو لکھنے پڑھنے کا ٹائم ہی نہیں مل پاتا تھا ۔
میں نے اپنے روزمرہ معمولات  کو فیسبک پر لکھنا شروع کر دیا ۔ ایک دن میں نے اپنی میڈیکل فیلڈ  سے متعلقہ  ایک پوسٹ لکھی اور اپنے کام میں مشغول ہو گیا، کچھ دیر میں نے فیسبک سکرول کرتے دیکھا تو کچھ پیجز نے میری تحریر تو  حرف بہ حرف  کاپی پیسٹ کیا ہوا تھا، کچھ نے معمولی ترامیم کے ساتھ وہی پوسٹ لگائی ہوئی تھی،مجھے سخت حیرانی ہوئی۔

اسکا حل میں نے یہ نکالا کہ پوسٹ کے آخر میں اپنا نام لکھنا شروع کر دیا کہ ،اب ان پیجز کے ایڈمنز نے میرا نام حذف کر کے، میری پوسٹوں کو کاپی پیسٹ کرنا شروع کر دیا، میں نے فیس بک کی سٹینگ میں جا کر اس معاملے کو سلجھانا چاہا لیکن ناکام رہا۔
پھر میں نے غور کیا، یہاں ہر دوسرا آدمی یہی حرکت کر رہا ہے، کسی دوسرے کی وال سے، کسی اور پیج سے کوئی اچھی تحریر دیکھی اور اپنی وال پر کاپی پیسٹ کر دی، اب اوریجنل پوسٹ کا مالک کہیں لاپتہ ہو کر رہ جاتا ہے۔

میری حیرت میں اس دن مزید اضافہ ہوا کہ جب میں نے دیکھا کہ لوگ صرف پوسٹیں ہی بنا اجازت کے کاپی پیسٹ نہیں کرتے، بلکہ پورے کا پورا آرٹیکل ہی چوری کر کے اپنے نام سے شائع کر دیتے ہیں۔
میں نے اپنے طور پر تحقیق کی، تو پتا چلا کہ کم از کم 95% پاکستانی ” انٹیلکیچیول پراپرٹی ” ٹرم سے نا آشنا ہیں، انٹیلکیچیول پراپرٹی سے مراد ہر وہ منفرد سوچ ہے جو ایک انسان سوچتا ہے، اور اسے کسی بھی پلیٹ فارم پر شائع کرتا ہے، یہ منفرد سوچ اب اس شخص کی ملکیت ہے، اور کوئی بھی شخص اس کی اجازت کے بغیر اسے دوبارہ شائع نہیں کر سکتا، نہ  ہی اسے اپنے نام کے ساتھ لکھ سکتا ہے، لیکن وطن عزیز میں گنگا الٹی ہی بہتی ہے، یہاں ہر کوئی کریڈٹ لینے کے چکروں میں دھڑا دھڑ مواد کو چوری کر کے اپنے نام سے شائع کر رہا ہے، اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔

ابھی کل ہی میں نے ایک پوسٹ  لکھی ، میری اجازت کے بعد، مختلف لوگوں / پیجز نے   وہ پوسٹ معمولی ترامیم کیساتھ دوبارہ لگائی، وہ تو شکر ہو کچھ مہربانوں کا، جنہوں نے انہیں کہا یہ تو آپ نے لکھی ہی نہیں، اور یقین مانیے وہ اسے غلطی ماننے کو تیار ہی نہیں تھے !

ابھی میں اپنے معاملے ہی  مگن تھا کہ یہی معاملہ ایک معاصر ویب سائٹ  کے ایڈیٹر  کیساتھ بھی پیش آیا ، ان کے 2017 کے لکھے گئے ایک کالم کو ایک اور صاحب نے معمولی ترامیم کے ساتھ  فیس بک پر پھیلا  دیا اور ساتھ الزام بھی لگا دیا کہ صاحبِ تحریر  نے انکا کالم چوری کیا ہے، وہ تو شکر ہے کہ  ایڈیٹر صاحب نے سند کے ساتھ انکو ایک اور کالم میں جواب دیا۔

سوال آسان سا ہے کہ ہم انٹلیکچیول پراپرٹی کو ماننے سے کیوں قاصر ہیں؟ دوسروں کے خیالات، تخیلات ہم سے کیوں نہیں برداشت؟؟ بھائی اگر خود نہیں سوچ سکتے تو دوسروں کے خیالات کو اپنے تو مت بناؤ!

سوشل میڈیا پر تو لوگ صحیح بدلہ لیتے ہیں، کہیں سے بھی کوئی اچھی تحریر دیکھی، اسے کاپی پیسٹ کیا، تھوڑی سی ترامیم کی، آخر میں اپنا نام لکھا اور چل سو چل ۔ کم از کم اتنی ہمت تو ہونی چاہیے کہ آخر میں یہ لکھ دیا جائے ” بشکریہ فلاں”.پر نہیں ۔ اپنے آپ کو اونچا دکھانے کے چکر  میں اب اس چوری پر کوئی کچھ بولنے کو تیار نہیں ۔

اب اس انٹلیکچیول پراپرٹی کو کیسے محفوظ بنایا جائے اس کے لیے چند تجاویز ہیں!
1.تمام ویب سائٹس ایسا سافٹ وئیر بنائیں، جس سے پتا چل سکے کہ فلاں مضمون پہلے ایک لکھاری لکھ چکا اور اب دوسرا اسے چوری کر رہا۔
2. مضمون کا مرکزی خیال چوری کرنے والوں کے خلاف کاپی رائٹس کا مقدمہ ہونا چاہیے ۔
3.سوشل میڈیا پر بالخصوص فیسبک اور ٹوئیٹر پر بنا اجازت کے کاپی پیسٹ پر پابندی ہونی چاہیے ۔
4. جیسے ہی کوئی دوسرا شخص کوئی ایسی حرکت کرے، یا سکرین شاٹ لے تو فوراً نوٹیفکیشن آنا چاہیے (جیسا کہ اسنیپ چیٹ پر ہوتا ہے).
5.عوام میں شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو کاپی رائٹ اور انٹلیکچیول پراپرٹی جیسے موضوعات کے متعلق آگاہ کیا جائے، انہیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ اصلی اور چوری شدہ مواد کے درمیان فرق کر سکیں، انہیں یہ پتا ہونا چاہیے کہ لکھاری کی مرضی کے بغیر اس کی تحریروں کو شائع کرنا جرم ہے، تو شاید کسی کا دل پگھل جائے وہ یہ کام نہ کرے، لیکن اس بات کے امکانات نہ  ہونے کے برابر ہیں۔ اگر چوری شدہ مواد کو اپنے نام سے شائع کرنے پر پابندی عائد ہو جائے تو لاکھوں فسیبکی دانشوروں کی دانشوری اور دکان بند ہو جائے گی اور بھلا “دانشور ” ایسا کیوں کر چاہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں شاعر مشرق، علامہ اقبال سے معذرت کیساتھ
چوری،کاپی پسیٹ سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی دانشوری کے امتحاں اور بھی ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply