پانچ سو سال پہلے، بحرالکاہل کے ساحل پر درجن بھر دیہات تھے۔ یہ علاقہ آج میکسیکو میں ہے۔ لوگ مکئی، لوبیا، توری اور مرچ اگاتے تھے۔ سمندری جانور پکڑے تھے۔ شہد اور موم اکٹھا کرتے تھے۔ سرامک کے برتن جن پر رنگین اور جیومٹرک کشیدہ کاری تھی، ان کی سب سے خوبصورت تخلیق تھی۔ اس کے علاوہ وہ ایک پودا اگایا کرتے تھے جس کے سفید ریشے تھے۔ اس پودے کو کھایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس کو ایچکاٹل کہتے تھے۔ یہ ان کی فصلوں میں سب سے قیمتی شے تھی۔ یہ کپاس تھی۔
کپاس کا پودا مکئی کے ساتھ اگایا جاتا تھا۔ ہر سال خزاں میں اس کی کٹائی ہوتی۔ کمر تک اونچے پودے سے دیہاتی اس ریشے کو توڑ کر اپنے تھیلوں میں ڈال کر مٹی سے بنے گھروں میں لے جاتے تھے۔ بڑی مشقت سے اس کے بیج ہاتھ سے الگ کئے جاتے۔ ایک چٹائی پر اسے کوٹا جاتا۔ اس کے ریشوں کو کنگھی کر کے سیدھا کیا جاتا۔ یہ چند انچ لمبا ریشا تھا۔ لکڑی کے پتلے تکلے میں سرامک کی ڈسک لگا کر اس کو گھمایا جاتا۔ اس طریقے سے اس کے ریشے آپس میں جوڑ لئے جاتے اور سفید دھاگا بن جاتا۔ کھڈی میں کپڑا بنا جاتا۔ اس کے لئے دو چھڑیاں استعمال ہوتیں جو دھاگے سے بندھی ہوتیں۔ ایک درخت سے لٹکی ہوتی، دوسری جولاہے کے ساتھ۔ جولاہا اپنے جسم کا وزن استعمال کرتا اور ایک نہ ختم ہونے والے رقص میں بنائی کرتا کہ ایک دوسرے کے اوپر دھاگوں کا جال بن جائے۔ اس کا نتیجہ مضبوط اور لچکدار کپڑے کی صورت میں نکلتا۔ اس کو انڈگو اور قرمز سے رنگا جاتا۔ کچھ کپڑوں سے لباس سلتے اور خود استعمال کئے جاتے۔ باقی ٹیوٹی ہواکان میں سالانہ خراج کے طور پر ایزٹک حکمرانوں کو بھیجا جاتا۔ 1518 میں یہاں کے بارہ گاوٗں کی طرف سے بادشاہ موکٹیزوما دوئم کو بھیجی جانے والی کپاس کی آٹھ سو گانٹھیں تھیں جن میں ہر ایک کا وزن 115 پاونڈ تھا۔ 32000 کاٹن کے رنگے ہوئے کپڑے تھے۔ اور 48000 سفید کپڑے تھے۔ یہ خراج ہزاروں گھنٹوں کی کمرتوڑ مشقت کا اور اس فن میں مہارت کا نتیجہ تھا۔
صدیوں تک ایسے ہی مناظر دنیا کے حصوں میں نظر آتے تھے۔ گجرات سے سلاویسی، اپر وولٹا سے ریو گرانڈے۔ نوبیا کی وادیوں سے یوکاٹان تک، تین برِاعظموں کے کھیتوں میں کپاس اگائی جاتی تھی اور گھر میں ٹیکسٹائل بنائی جاتی تھیں۔ یہ ہنر نسل در نسل بڑھتا تھا۔ یہ سخت جان پودا ہے جس کو کسان کی بہت مدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس میں “مارفولوجیکل پلاسٹسٹی” ہے۔ نباتاتی سائنسدانوں کے مطابق یہ منتوع حالات میں خود کو تبدیل کر کے اگنے کی صلاحیت ہے۔ قد چھوٹا رکھنا ہے یا بڑا کرنا ہے اور یہاں تک کہ پھول کب پیدا کرنا ہے۔۔۔
ہزاروں سال سے جو لوگ کپاس اگاتے رہے، وہ اس سے واقف نہیں تھے کہ دنیا بھر میں ایسا کیا جا رہا ہے۔ اس کو ضرورت پڑتی ہے کہ بڑھتے وقت درجہ حرارت دس ڈگری سے نہ گرے اور زیادہ تر پندرہ ڈگری سے اوپر رہے۔ یہ ایسے علاقے میں پھلتا پھولتا ہے جہاں سال کے دو سو دن کہر نہ پڑے اور سالانہ بارش 500 سے 700 ملی میٹر ہو۔ اس کے بیج تین فٹ کے فاصلے پر بوئے جاتے ہیں اور 160 سے 200 دن میں اس کا پودا بڑا ہو جاتا ہے۔
یہ دریافت کر لیا گیا تھا کہ اس کے ریشے کو دھاگے میں بدلا جا سکتا ہے۔ اور اس دھاگے سے ایسا کپڑا بنایا جا سکتا ہے جو دھونے میں آسان ہے، بدن کو چبھتا نہیں، دھوپ میں جلنے سے بچاتا ہے اور کسی حد تک سردی سے بھی۔ ایک ہزار سال پہلے کاٹن ٹیکسٹائل ایشیا، افریقہ اور امریکاز کی سب سے بڑی صنعت بن چکی تھی۔ اگانے والوں، کاتنے والوں، جولاہوں اور صارفین کے پیچیدہ نیٹورک بن چکے تھے جو زیادہ تر مقامی سطح پر تھے۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر میں ایزٹیک عہد کی ملبوسات کے فیشن
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں