سمادھی شری آتما رام جی۔۔ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری

گوجرانوالہ شہر میں جی ٹی روڈ کے کنارے اور شیرانوالہ باغ سے ذرا پہلے تھانہ سبزی منڈی کی ایک پرانی عمارت واقع ہے جو باہر سے دیکھنے میں تو بالکل سادہ ہے لیکن مرکزی دروازے سے اندر جاتے ہی یہ آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔
یہی شری آتما رام جی کی سمادھی ہے جو جین مذہب کے اچاریہ کے طور پہ جانے جاتے ہیں۔

جین مت کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں کیا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد کب، کس نے، اور کہاں پر رکھی اس بارے میں ماہرین کوئی مُستند رائے دینے سے قاصر ہیں۔ یہ ایک غیر توحیدی مذہب ہے جس کی بنیاد عدم تشدد ہے۔ جین مت کے ماننے والے یہ یقین رکھتے ہیں کہ عدم تشدد اور ضبط نفس کے ذریعہ نجات (موکش) حاصل کی جا سکتی ہے۔ روایتی طور پر جین مت کے پیروکار اپنے مذہب کی ابتدا ان چوبیس ”تیرتھنکروں”(روحانی استاد یا پیغمبر) کے سلسلہ کو قرار دیتے ہیں جن میں پہلے تیرتھنکر رشبھ دیو اور آخری مہاویر ہیں۔ اس مذہب کے دو بڑے فرقے دِگمبر اور شویتامبر ہیں۔

بات کی جائے اِس سمادھی کی تو جین مت کے ماننے والوں کے مطابق یہاں مشہور جین راہب یا پروہت، اچاریہ وجئےآنند سوری یا آتما رام جی کی استھیاں (راکھ) دفن ہیں۔ وجئے آنند موجودہ دور کے وہ پہلے جین راہب/پروہت تھے جنہیں اچاریہ کا خطاب دیا گیا۔ یہ خطاب جین مت میں بہت ریاضت کے بعد حاصل کیا جاتا ہے۔

تاریخی حوالہ جات کے مطابق آپ کا جنم ہندوستانی پنجاب کے ضلع فیروزپور کے قصبے لہڑا میں 1837 کو ایک برہمن خاندان میں ہوا۔ آپ کے والد گنیش چندرا، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ایک فوجی عہدے دار تھے۔ ان کا دیہانت آتما رام جی کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا جس کے بعد آپ کی والدہ آپ کو لے کر ہوشیارپور چلی آئیں اور ایک ایسے جین خاندان میں کام کرنا شروع کیا جہاں اس مذہب کے بڑے سادھوؤں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔

یہاں آتما رام جی کی ملاقاتیں جین مت کے سکالرز اور سادھوؤں سے ہوئیں اورآپ نے ان کی تعلیمات کو سن کر اثر قبول کرنا شروع کیا۔ آپ بچپن سے ہی بہت ذہین تھے، آپ نے ستھانک واسی سادھوؤں سے شاستروں کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اس کے علاوہ آپ نے فلسفہ اور سنسکرت کی بھی تعلیم حاصل کی۔

نہایت کم عمری میں ہی آپ ستھانک واسی فرقے کے سادھو بن گئے تھے۔ لیکن آپ کا رحجان مورتیوں کی پوجا کی طرف ہو گیا تھا (جو اس فرقے میں رائج نہ تھا) اس لیئے ستھانک واسیوں کی مخالفت کی وجہ سے آپ 1875 میں احمد آباد آ گئے۔
یہاں کے جین سادھو نے انہیں کو شویتامبر سادھوکے طور پر چنا اور اس کے بعد اچاریہ جی نے جین مذہب کی تعلیم کو عام کرنے کے لیئے ریاست گجرات سے پنجاب تک پیدل سفر کیا جہاں انہوں نے کتب خانے کھولے اور قدیم جین مخطوطات کو محفوظ کیا۔

یہاں سے آپ گوجرانوالہ چلے آئے جہاں دور دور سے لوگ آپ کی شہرت سن کہ آتے اور آپ کے طریقہ تبلیغ اور شیرینئی گفتار سے بہت متاثر ہوتے۔
آپ کی تبلیغ اور جانفشانی سے بڑی تعداد میں لوگ جین مت کی طرف آئے ساتھ ہی آپ نے پنجاب میں مختلف جین مندروں کی مرمت بھی کروائی۔ ہندوستان کے مختلف حصوں خصوصاً پنجاب میں مختلف پاٹھ شالاؤں (درسگاہیں) اور کتب خانوں کی تعمیر کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے۔

جلد ہی یہ مغربی سکالرز کی نظر میں آئے اور 1893 میں شکاگو میں منعقد ہونے والی عالمی مذہبی کانفرنس میں انہیں بلایا گیا۔ کچھ مذہبی اور ذاتی وجوہات کی بنا پر آپ کی بجائے ممبئی کے ایک نوجوان ویر چند گاندھی نے اس کانفرنس میں شرکت کی اور اس عالمی فورم پر جین مت کی نمائندگی اس بہترین طریقے سے کی کہ بہت سے لوگوں نے جین مذہب قبول کر لیا۔

آپ نے جین مت پر ایک کتاب لکھی اور اس کے کچھ ہی عرصے بعدمئی 1896 کو گوجرانوالہ میں آپ کا دیہانت ہو گیا۔ آپ کے پیروکار لالہ میا داس نے آپ کی باقیات کو دفن کرنے کے لیئے گوجرانوالہ کے اس مقام پر ایک سمادھی بنائی۔

یہ سمادھی چار چھوٹے اور ایک بڑے گنبد پر مشتمل ہے جو زمین سے کچھ بلند ہے۔ بڑا گنبد مرکزی کمرے کا ہے جس میں انکو جلا کہ راکھ دفن کی گئی تھی۔ لاہور کے عجائب گھر میں رکھے سنگ مرمر کے چبوترے پر آپ کے قدموں کے نشان اسی کمرے سے لائے گئے ہیں۔

جبکہ چاروں گنبد اطراف کے راستوں اور دروازوں پر بنائے گئے ہیں۔ عمارت کی بہت سی اشیاء اور سجاوٹی چیزوں کو لاہور میوزیم کی جین گیلری میں رکھا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ عمارت کے دائیں طرف ایک مندر بنایا گیا تھا جہاں پانچھ مورتیوں کو رکھنے کی جگہ بھی موجود ہے۔ کچھ احباب کا کہنا ہے کہ یہاں جین مت کے تیر تھنکروں کے سنگ مرمر سے بنے قدموں کے نشان موجود تھے جنہیں اب بھی لاہور میوزیم کی جین گیلری میں دیکھا جا سکتا ہے۔

بائیں طرف بنے کمرے اور برآمدہ جین سادھوؤں کی رہائش گاہ کے طور پراستعمال ہوتے تھے جن میں مسافر یاتری بھی شامل تھے۔
اس عمارت میں سرخ و سفید پتھر کا استعمال نہایت خوبصورتی سےکیا گیا تھا اور اسکا کالے سفید پتھر کا فرش تو اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس عمارت کے خوبصورت گنبد، اسکی دیواروں پہ کندہ نقش و نگار، اس کے برآمدے آج بھی اس کی دلکشی کے گواہ ہیں۔

خوبصورت طرز تعمیر کی حامل یہ عمارت تقسیم تک جین مذہب کے لوگوں کے پاس رہی پھر 1995 تک یہاں ایک سرکاری سکول قائم ہوا جسے دوسری جگہ منتقل کرنے کے بعد اسے پولیس تھانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ بہت سے دفاتر و افسران نئی عمارت میں منتقل ہو گئے ہیں لیکن اس کا مرکزی کمرہ اب بھی محکمہ پولیس کے زیرانتظام ہے جو شاید غنیمت ہے ورنہ قبضہ مافیا اس قیمتی زمین پر کب کا قابض ہو چکا ہوتا۔

سمادھ کے پچھلے حصے میں کچھ ضبط کی ہوئی سواریاں اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

سمادھی کا طرز تعمیر سکھ سمادھی سے مشابہت رکھتا ہے جسکی واضح مثال اسکے مرکزی درمیانے گنبد اور نچلے ہشت پہلو کی مہان سنگھ سمادھی سے ہو بہو مماثلت ہے جو یہاں سے کچھ ہی دور شیرانوالہ باغ میں واقع ہے۔
انہی مماثلتوں کی وجہ سے کچھ لوگ اسے رنجیت سنگھ کے دادا چڑھت سنگھ کی سمادھی کہتے اور سمجھتے ہیں لیکن اس بات کو کئی مستند حوالوں سے جھٹلایا جا سکتا ہے۔

اوّل یہ کہ محکمہ اراضی کی دستاویزارت میں یہ جین مندر کے طور پر درج ہے، دوسرا یہاں فرش پر لگی ہوئی مختلف نذرانے کی تختیاں، تیسرا اچاریہ وجے آنند پر شکاگو میں رکھی ہوئی ایک قدیم دستاویز جس کے سرورق پر اس سمادھی کی تصویر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان باتوں سے صاف ہے کہ یہ کسی سکھ کی سمادھی قطعی نہیں ہے۔

رہائشی حصے کے برآمدے پر لگی ایک تختی کے مطابق
”لالہ میا داس و نانک چن قوم بھابڑہ گوت برڑ ساکن گوجرانوالہ مے یہ کوٹھی مہاراج شری آتما رام جی کی سمادھ کے متعلق بنوائی۔ یہی عبارت تختی پر انگریزی، ہندی اور دیوناگری زبان میں بھی درج ہے۔”

ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اس عمارت کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک بند کیا جائے۔ ہمارا مذہب بھی ہمیں تمام مذاہب کی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کی بے حرمتی سے روکتا ہے۔ اور پھر جین کمیونٹی تو بہت بے ضرر ہے جو حشرات تک کو نقصان نہیں پہنچاتی۔

حکومت پاکستان، محکمہ آثارِ قدیمہ اور اوقاف کو چاہیئے کے اس مقدس مقام کو مرمت کر کے دنیا بھر کے سیاحوں اور خصوصاً جین مذہب کے پیروکاروں کے لیئے کھول دیں تاکہ زرمبادلہ کے ساتھ ساتھ مملکتِ خداداد کا ایک روشن اور پُرامن چہرہ دنیا کے سامنے آسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ستیہ کی جوت سے دور اس نے ہر اندھکار کیا
پاپ نگری میں اہنسا کا وہ پرچار کیا
پریم پرکاش سے بھرپور یہ سنسار کیا
نیند کے ماتوں کو پھر نیند سے ہشیار کیا
آتما نند نے پھر قوم کو بیدار کیا
لے کے دھرم اور دیا کو جو وہ گنوان بڑھا
اس کا بڑھنا تھا کہ پھر رتبہ انسان بڑھا
ظلم کو لاج لگی پریم کا پھر مان بڑھا
کشٹ کو میٹ دیا،کلیش کو بیکار دیا
آتما نند نے پھر قوم کو بیدار کیا
(آتما رام جی کے جنم دن کے موقع پر منعقدہ مشاعرے میں وقار انبالوی کا پڑھا گیا کلام )

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply