پرستار۔۔عارف خٹک

پرستار وہ ہوتے ہیں جو  آپ کو دل ہی دل میں چاہتے ہیں، آپ کے الفاظ سے محبت کرتے ہیں، آپ کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں ، آپ کیساتھ صحت مند مباحثہ کرتے ہیں، آپ کو دل سے عزت دیتے ہیں۔ سنا تو ہم نے بھی یہی تھا۔ ہم بھی بچپن سے مستنصر حسین تارڑ صاحب  کے پرستار ہیں بلکہ اتنے شدید پرستار ہیں کہ گر آج بھی مستنصر حسین تارڑ صاحب  کی تصویر نظر آجائے تو داڑھی میں وارد کچھ سفید بالوں کو نظرانداز کرکے من چاہتا ہے کہ پھر سے بچہ بن جائیں، لاہور کے دوستوں کو معلوم ہوا کہ لالہ مستنصر حسین تارڑ کے شوقین ہیں تو کہا کہ آپ کو ملاتے ہیں۔مگر ایک بات کا خیال رہے کہ مستنصر صا حب سب سے پہلے آپ سے پوچھیں گے کہ میری کون سی کتاب پسند آئی ہے؟۔ ہم تھوڑے متذبذب ہوئے کہ کتاب تو آج تک ہم نے ایک بھی نہیں پڑھی۔ نہ نصاب کی نہ مستنصر صا حب کی۔ اگر اس قابل ہوتے تو آج کسی اچھی جگہ  افسر بن کر رعب نہ جھاڑ رہے ہوتے۔ خیر حل یہ نکالا کہ گوگل کھول کر بیٹھ گئے کہ جناب کن کن کتابوں کے مصنف ہیں۔ چیدہ چیدہ پیراگراف ازبر کرکے چلے گئے۔ یہ کہلاتی ہے پرستاری۔

مگر جب سے پرستار فین بنے ہیں۔ محبت و احترام بھی جدیدیت کا رنگ لئے ہوئے ہے۔ روز ہمارے انباکس  میں دل والے پیغامات آجاتے ہیں۔ کراچی میں کہیں سرِ راہ چلتے ہوئے کسی فین سے ملاقات ہوجائے تو یوں مخاطب کرتے ہیں۔
“ابے لالے تُو، یقین نہیں آرہا کہ تجھ سے ملاقات ہوجائیگی”۔ اب لالہ بال سیدھے کرنے لگتا ہے کہ سیلفی ہوگی، مضامین پر سیر حاصل گفتگو ہوگی کیونکہ شاعر اور نثرنگار ، دونوں گھر سے ہمیشہ نالاں رہے ہیں کہ، کوئی ان کی سنتا ہی نہیں سو باہر جہاں مجمع دِکھتا ہے، فوراٍ  جیب سے کاغذ نکال کر گلا صاف کریں گے، مگر لوگوں کی بے توجہی دیکھ کر پھر ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ ہجوم موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ دیکھنے کیلئے جمع ہوا ہے۔ ہم بھی اپنے چہرے پر دانشوری کے تاثرات سجا کر متوقع تقریر کیلئے تیار ہوتے ہیں ، کہ آگے سے وہ ناہنجار فین کہہ اٹھتا ہے۔
“چل بے لالے اجازت؟”۔

کراچی کے فینز دنیا کے نامعقول ترین فینز ہیں۔ یہ یا تو ٹی ٹی سے متاثر ہوتے ہیں یا اپنے سیاسی نظریات سے۔ مجال ہے کہ اپنے گھر میں اپنے ابا کی عزت کریں، کجا ہم جیسوں کی۔

الحمرا لاہور میں کسی ادبی کانفرنس میں ایک بھاری بھر کم، تنگ پیرہن پہنے ، ہونٹوں پر قاتل مسکراہٹ سجائے، خاتون قریب آئیں،
“ہائے یقین نہیں آرہا کہ آپ سے آج بالمشافہ ملاقات ہوجائے گی”۔ لہجے کی وارفتگی دیکھ کر ہم آپے سے باہر ہوا ہی چاہتے تھے کہ، محترمہ نے سر پر بم پھوڑ دیا۔
“سر میں نے تو اپنی تینوں بیٹیوں سے کہا ہے کہ زمانے کے سردوگرم دیکھنے ہوں، اخلاقیات سیکھنی ہوں  ،تو آپ کو ضرور پڑھیں”۔
ہم تذبذب کا شکار ہوئے کہ، کون ہے آج کے زمانے  میں وہ ظالم والدین جو اپنی اولاد کو ہمارے پیچھے ڈال رہے ہیں۔ ساتھ میں کھڑا مذہبی ادیب سمجھ گیا، کہ خاتون کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ فوراً  آگے آیا خاتون سے پوچھا۔
“محترمہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔یہ وہ نہیں ہیں “۔
خاتون نے ناگواری سے ان کو دیکھا اور پوچھا کہ پھر کون ہیں یہ؟۔ ناہنجار اور حسد سے بھرے ہوئے مولوی نے جواب دیا، “محترم عارف خٹک ہیں”۔ خاتون نے کمر پر ہاتھ رکھا اور ناک بھوں چڑھا کر دوبارہ پوچھا۔ “کیہڑا عارف خٹک؟”۔ مولانا نے ادائے بے نیازی سے ہمیں دیکھا اور گویا ہوئے، “وہی جو کھوتیوں پر لکھتا ہے”۔
خاتون نے ہاتھ نچاتے ہوئے خالصتا ً پنجابی انداز سے ہنکارہ بھرا اور گویا ہوئیں،
“وہ کنجر؟”۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کشمور کا ایک فین بار بار  مسنجر پر کال کررہا تھا۔ اس دن ہمارا موڈ کافی اچھا تھا۔ لہذا اس کو لکھ بھیجا، اپنا نمبر بھجو۔ اس نے ٹھک سے نمبر بھیج دیا۔ ہماری رگ دانشوری بلکہ احساس کمتری، ٹھیک نام ہے، جاگی اور فون ملا دیا۔
“ادا خٹک سئیں سمجھ میں نہیں  آرہا کیسے بتاؤں کہ میرے سجن سے جس پر میں جان چھڑکتا ہوں آج میری اس ادا سائیں سے بات بھی ہورہی ہے”۔
بیچارا خوشی سے پاگل ہوئے جارہا تھا۔ ہمارے اندر تسکین کی لہریں ٹھاٹھیں  مارنے لگیں۔ دل میں شدت سے خواہش اُبھری کہ بیوی کو سنائیں کہ دیکھ لو عزت ہے تیرے اس کم ذات کی۔ مگر ہمیں معلوم تھا کہ ہم گالیاں سہہ لیں گے، مگر ہمارےفین کا جگر اتنا مضبوط نہیں ہوسکتا۔ سو چپ رہے۔
ادا سائیں اب روز صبح، دوپہر ،شام کال پر کال کئے جارہا تھا۔ سائیں نے ایک ہفتے میں ہی ناک میں دم کر کے رکھ دیا۔ اس رات ہم راز ونیاز میں مصروف تھے، انجانے نمبر سے کال آرہی تھی۔ فون اٹھایا وہی سائیں۔۔غصے کی تیز لہر اٹھی مگر خود کو قابو کیا کہ وہ وقت غصہ کرنیوالا نہیں تھا۔
“ادا سئیں چھا حال آ۔ ہمیں کوئی لفٹ ہی نہیں”۔
جھنجلا کر جواب دیا
“سائیں کچھ نہیں مزے کررہا ہوں بس:۔
آگے سے کہتا ہے
“ادا سائیں یہ ٹھیک بات نہیں ہے۔ یہ اکیلے اکیلے مزہ کرنے کا۔ ہمیں بھی مزہ کرا دیں نی تو ہمیں بھی مزہ آئے گا”۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply