واخان کی تنگ پٹی اَور کشمیر ۔۔جاوید خان

واخان،سطح مرتفع پامیر پر پانچ ممالک کو ”جوڑنے“ اور پھر ”توڑنے“ والی تنگ راہ داری ہے۔یہاں تاجکستان،چین،پاکستان،کشمیر اور افغانستان باہم زمینی طور پر ملتے ہیں۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا  کاضلع چترال یہاں سرحدی محافظ کے طور پر کام کرتاہے۔بنیادی طور پر یہ موجودہ افغانستان کی ایک سرحدی تنگ پٹی ہے۔جو تاجکستان کو پہلے پاکستان اور پھر کشمیر سے الگ کرتے ہوئے چین سے جاملتی ہے۔چین اور افغانستان (واخان)کے مقام اتصال پر یہاں تیسرا ملک ریاست کشمیر ہے۔پھر آگے کشمیر کی قراقر م ویلی (پاکستانی زیر انتظام گلگت بلتستان واَکسائی چن)کے بعد چین کی تبتی سرحد اور بھارت کی ریاست ہماچل پردیش آمنے سامنے آجاتی ہیں۔واخان کے ایک طرف پامیر کی چوٹیاں ہیں تو دوسری طرف وادی قراقرم ہے۔یہ 350  کلومیٹر لمبی جب کہ  بعض جگہوں پر 13اور بعض جگہ 25 کلومیٹر چوڑی ہے۔اس کی چوڑائی ہر جگہ یکساں نہیں۔سخت سر د،پتھریلہ اور برفیلہ یہ خطہ دنیا کے بلند ترین خطوں میں سے ایک ہے۔گلیشئر،ندیاں اور چھوٹے چھوٹے نخلستانوں پر مشتمل ہے۔ان نخلستانوں میں موسم کم مدت کے لیے چارہ لے کر آتاہے۔جنھیں ”واخی“ اور ”پامیری“لوگوں کے یاک،بھیڑ بکریاں ااور دیگر مویشی چرلیتے ہیں۔یہاں کے گلیشئروں کاپانی ”پنج ندی“ اور ”پامیری ندی“ میں بہتاہے۔جو مشہور دریا ے ”آمو“ میں جاملتی ہیں۔

ماضی بعید سے یہ پٹی ہزار ہاہامشکلات کے باوجود ایک مسافر گاہ اور تجارتی راستہ رہی ہے۔انسان یہاں کب آبسا صحیح اندازہ تاریخ کو بھی نہ ہوگا۔مگر آج جب دنیا کی آبادی کافی زیادہ ہے۔تو یہاں صرف 16000 ہزار نفوس آباد ہیں۔یہ سارے ”واخی“ اور ”پامیری“ کہلاتے ہیں۔اور یہی زبانیں بولتے ہیں۔یہ سب اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔وسط ایشیائی ممالک کے بڑے تہوار وں میں مشہور تہوار”نوروز “ یہاں شوق سے منایا جاتاہے۔یہاں بچوں اور بچیوں کے لیے سکول موجود ہیں۔روس امریکہ جنگ،جس میں کبڈی کامیدان افغانستان تھا۔ تب سے اب تک یہ علاقہ اس ساری شورش سے لاتعلق رہا۔

واخان کے اس بلند خطے میں کوئی بڑا درخت نہیں اُگتا،یوں یہاں جنگل نہیں ہیں۔چٹیل،کھردرے،مٹیالے یابرفانی پہاڑ ہیں۔یاکہیں کہیں چھوٹے چھوٹے میدان،جو ان پہاڑوں کے درمیان ہیں۔لہذایہاں کے باسی بالن کے لیے اونٹ اور یاک کاگوبر،کسی حد تک سوکھی جھاڑیاں استعمال میں لاتے ہیں۔ دودھ،گوشت کے سارے اَجزا،روٹی اَور قہوہ ان کی غذا ہے۔یہاں یاک اور بھیڑ بکریاں پالی جاتی ہیں۔دو کوہانوں والااونٹ جو بالوں سے ڈھکا ہواہوتاہے۔قدیم زمانوں سے اس خطے کابری تجارتی جہاز چلاآرہاہے۔یہ تجارتی سامان اٹھاکر سخت برفیلے موسم میں دُور دراز علاقوں تک سفر کرسکتاہے۔گھوڑے بھی خاص طور پر پالے جاتے ہیں۔آج تک کوئی بڑی شاہراہ یہاں نہیں بنی۔دُھول اَور گارے سے لٹی پٹی سڑکیں چند ہی ہوں گی۔

کہاجاتاہے کہ چین کی مشہور ریشمی تجارت واخان سے گزرتی تھی۔مشہور سیاح مارکوپولو واخان تک آیااور اس راہ داری سے ہی گزرکر چین گیاتھا۔کچھ لوگ سکندر اعظم کی یہاں آمد کو بھی یقینی سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ برطانوی سرکار کے پالے ہوئے محققین،جوبرطانوی سرکار کے علمی خزانو ں میں اضافہ کرنے کے لیے جگہ جگہ پھرتے تھے۔یہاں سے گزرے۔بادری بینٹوڈی گونر  1602 تا 1606کے درمیان،جب کہ1902 میں سر اَرل سٹائن بھی۔ارل سٹائن نے چترال سے ہوئے کاشغر تک ایک الگ علمی سفر کیاتھا۔یہ علمی اسفار مدتوں تک سلطنت برطانیہ کواپنی نوآبادیات کو سمجھنے میں مدد کرتے رہے۔

شاید آج بھی کسی حد تک کام آتے ہوں گے۔ماضی قریب میں جب روس سارے وسط ایشیامیں بیٹھا تھا۔تو برطانیہ برصغیر میں۔ماضی کاتناؤ اور گہری نظر،جو علاقائی تناظر کے زیر اَثر عودآتی ہے۔1839؁ء تک شدت اختیار کرگئی۔یوں مملکت برطانیہ کے عالی دماغوں نے ”ڈیورنڈ لائن“ اَور واخان کی پٹی کامعاہدہ کیا۔ماضی میں روس ایک سخت مدمقابل تھا۔ڈیورنڈ لائن اور واخان راہداری کامقصد روس کی پیش قدمی کوروکناتھا۔افغانستان کی موجودہ وادی ”نورستان“ پہلے ”کافرستان“کہلاتی تھی۔ اُس وقت کے حکمران اَمیر عبدالرحمان نے ایک بڑی تیاری کے بعد”کیلاشا“مذہب کے ماننے والوں کو راتوں رات تہ تیغ کر دیاتھا۔جو باقی بچے انھیں مسلمان بنا دیا۔تب افغانستان کی یہ وادی ”کافرستان“سے ”نورستان“ ہوگئی۔کفر سے نور تک کایہ سفر کسی مذہبی جذبے کانتیجہ نہ تھا۔بلکہ برطانیہ عظمی ٰ کے عالی دماغوں کی کامیاب سازش تھی۔انھیں ڈر تھاکہ یہ جنگ جُولوگ،اگر انھوں نے کسی وقت روس کاساتھ دے دیاتو روس بہ آسانی افغانستان پر قابض ہوکران کے لیے بہت سارے مسائل کھڑے کردے گا۔

برطانیہ کی جگہ آج امریکہ نے لے لی ہے۔اگرچہ برصغیر تقسیم ہوکر بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش بن گیاہے۔زمینی قبضے کے بجائے سفارتی،سیاسی اور معاشی اَثر ونفوذ اہمیت رکھتے ہیں۔امریکہ نے افغانستان سے انخلا کافیصلہ ایک دن میں نہیں کیا۔نہ ہی بگرام کاہوائی اڈہ ایک دن میں خالی ہوا۔اور نہ ہی طالبان صرف ایک ہفتے میں ملک کے 75فی صد علاقے پر قابض ہوتے ہوئے افغانستان کے سب سے مشکل اور گم نام علاقے ”واخان“پہنچ گئے۔وہ بھی بغیر کسی مزاحمت کے۔واخان جو اسماعیلی فرقے کے حامل لوگوں کااب تک  ایک گُم نام خطہ تھا۔وہاں کٹر سنی طالبان کی آمد اور استقبال ایک نئی فکر اور تحریک کی طرف اشارہ ہے۔کیاکسی ملک کی جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کو چند گوریلے صرف ایک ہفتے کے اندر فتح کر سکتے ہیں۔؟؟؟

اگر ایساممکن ہے تو پھر باقی دُنیا کے گوریلے کب یہ کارنامہ سر انجام دیں گے۔؟اَور اَپنانامکمل کام پورا کریں گے۔؟

اَمریکی بھی کتنے دِیالو ہیں۔کہ 700 جدید بکتر بند گاڑیاں تحفے کے طور پر چھوڑ کر گئے۔صرف یہی نہیں بڑے بڑے اَسلحہ کے گودام بھی جہاں مزاحمت کے بجاے تعاون انتظار کر رہاتھا،باآسانی طالبان کے لیے کھل گئے۔واخان کی تنگ پٹی،ڈیورنڈ لائن اَورپانچ ممالک کی سرجوڑتی سرحدیں (جن میں تین اَیٹمی طاقت ہیں)یہ علاقہ شورش زدگی کی بڑی آماجگاہ رہااَور آج بھی اَمن سے کتراتا پھرتاہے۔ماضی میں اگر روس بڑا حریف تھا اور اس کی روک تھام کے لیے واخان،ڈیورنڈ لائن جیسے معاہدے کرنے پڑے۔توآج چین ایک قد آور حریف کے طور پر کھڑا ہے۔

اَمیر عبدالرحمان نے اپنے ہی کیلاشاؤں پر تلواروں،رائفلوں اَور توپوں سے لیس لشکر چھوڑا تھا۔توآج راکٹ لانچرلے کر فضائی حملوں تک،جدید ترین ہتھیار دستیاب ہیں۔زمین کی تہوں میں چھپے خزانے دیکھنے والی چھوٹی چھوٹی مشینی آنکھیں ہوں یاڈرون نامی خود کار طیارے۔افغانوں کی زمین پر اس وقت کے جدید ترین ایجاد شدہ ہتھیار آزمائے گئے۔امریکیوں نے افغان طالبان کے لیے جدید کتب خانے،سکول اور یونی ورسٹیاں نہیں چھوڑیں ۔صرف خون بہانے کو انبار اَسلحہ چھوڑاہے۔امریکی اس اسلحے کاتوڑ بھی جانتے ہیں اَور یہ بھی کہ  کب اس انبار نے خرچ ہو جاناہے۔ خون بہانے کے لیے افغانوں کو کوئی اور نہیں ان کے اپنے بھائی بند لوگ (افغانی)ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کشمیر جو واخان کی پٹی ایک بڑی اوراہم ریاست ہے۔موجودہ علاقائی تناظر میں اس کی جغرافیائی اہمیت مزید بڑھ کر سامنے آگئی ہے۔کئی خطرات خطے پر گدھ کی طرح منڈلارہے ہیں۔خاص کر جب یہ ریاست تین ایٹمی طاقتوں کے گھیرے میں ہو۔کشمیری،افغانی ہر گز نہیں نہ ہی انھیں خون بہانے کی عادت رہی ہے۔واخان کی پٹی پر پانچ سرجوڑنے والی مملکتوں میں کشمیر سب سے ”بے ضرر ریاست“ ہے۔ کشمیریوں کی اپنی جدوجہد جو بھی ہو،ضروری ہے کہ اس کی ڈوریں سیاسی اور جمہوری شعوری تقاضوں کے تحت ان کے اپنے ہاتھوں میں رہیں۔کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں کثیر تعداد میں موجود خدمات سر انجام دے رہی ہے۔یہ تمام لوگ کشمیر کے سفیر ہیں۔ہزاروں طلبا بیرونی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ان کی ریاست قدرتی وسائل سے مالامال ایشیا کی سب سے خوب صورت ریاست ہے۔کشمیری نوجوانوں،طلبا،سیاسی کارکنوں کو ہر اس عمل سے دُور رہنا ہوگا۔جوانھیں شوریدگی اور فساد کی طرف لے جائے۔ساتھ ساتھ اس نفسیات کابھی ادراک کرنا ہو گا۔جو سستے اَور جذباتی داموں یہ فساد اَور شورش انھیں خریدنے کے لیے آمادہ کرے۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply