• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بگرام کا عقوبت خانہ جسے گوانتا نامو’ٹو‘بھی کہا جا تا ہے۔۔غازی سہیل خان

بگرام کا عقوبت خانہ جسے گوانتا نامو’ٹو‘بھی کہا جا تا ہے۔۔غازی سہیل خان

سوویت یونین کی شرمناک شکست کے بعد دنیا کی ایک اور دیوہیکل سامراجی طاقت امریکہ نے ایک جھوٹا بہانا تراش کے مسلمانوں سے ازلی دشمنی کی بنا  پہ دسمبر2001ء میں افغانستان پر حملہ کرکے اپنی ملکی فوج کے ساتھ ساتھ دنیا کے اکتالیس ممالک کی نیٹو فوج کوبھی افغانستان کی سرزمین پر اُتار کر کشت و خون کا بازار گرم کر دیا۔یہ محض ایک حملہ نہیں تھا بلکہ افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے ایک منظم پروگرام تھا جس کی بنا پہ امریکہ نے افغانستان پر ہزاروں ٹن بارود برسا یا اور لاکھوں افغانیوں کا بے دریغ قتل عام کیا۔اس سفید شیطان نے بغیر ایٹم بم کے دنیا کا ہر ایک ہتھیار اور بارود افغانستان پر برسا کر کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ یعنی دنیا میں عظیم ترین مجرم اگر آج کی تاریخ میں کسی کو مانا جائے گا تو وہ یہی امریکہ ہوگا۔اسی ظالم سامراج نے دنیا میں جہاں بھی چاہا مسلمانوں کا قتل عام کیا اور جہاں پہ براہ راست یہ داخل نہیں ہو پایا وہاں پہ اس نے اپنے پالتو ایجنٹوں کی  مدد   سے انسانیت کو تباہ کروانے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔وہ چاہے عراق ہو یا شام یا افغانستان جہاں پہ آج بھی امریکی ہتھیاروں سے انسانی جانوں کے چیتھڑے ہواؤں میں اُڑتے نظر آ رہے ہیں۔ افغان جنگ میں رپورٹس کے مطابق اب تک ایک اندازے کے مطابق 47/ہزار افغان شہری اور 70/ہزار کے قریب افغان فوجی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 25 سو کے قریب امریکہ فوجی اور 3800 سے زائد امریکی نجی سکیورٹی ٹھیکے دار بھی اس جنگ کی نذر ہو گئے ہیں۔اور دیگر نیٹو افواج کے 1200 کے قریب فوجی اس جنگ میں کام آئے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ 20 کھرب 260 ارب ڈالر کی خطیر رقم بھی اس سامراج نے نہتے مسلمانوں کے قتل عام پر خرچ کی   ہے۔

امریکہ ایک ایسا ظالم سامراج ہے جس نے دنیا میں انسانیت کے قتل کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لیے  اذیت ناک سزاؤں کا بھی بندو بست کر کے رکھا ہے۔خاص طور سے 9/11کے بعد سے دنیا میں اس سفید سامراج نے مسلمانوں کو دنیا کے تین عقوبت خانوں میں اذیت ناک سزاؤں سے دو چار کیا جن میں سے کیوبا کے جز یرے پر  گوانتا ناموبے،عراق میں اُبو غریب اور افغانستان میں بگرام قابل ذکر ہیں۔

ہم آج بگرام کے متعلق گفتگو کریں گے۔ بگرام کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے تین سو سال قبل مسیح آباد ہونے والا یہ شہر گندھارا تہذیب کا مسکن تھا۔دارالحکومت کابل سے 25 کلو میٹر شمال میں واقع بگرام اب صوبہ پروان کے دارالحکومت چاریکار کے مضافاتی علاقہ درہ پنجشر کا دہانہ ہے۔یہ طویل وادی پنجشر افغان تاجکوں کا علاقہ ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق بگرام کا فوجی اڈہ 1980ء کی دہائی میں سوویت افواج نے افغانستان پر حملے کے بعد قائم کیا تھا۔یہ کابل سے چالیس کلو میٹر شمال میں ہے اور اس کا نام ایک قریبی گاؤں کے نام پر ہے۔امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج نے دسمبر 2001ء میں یہ اڈہ حاصل کیا اور اسے 10 ہزار فوجیوں کی رہائش گاہ کے قابل بنایا۔اس کے دو رن وے(run way)ہیں جن سے نیا رن وے 3.6کلو میٹر طویل ہے جہاں بڑے کارگو اور بمبار جہاز لینڈ کر سکتے ہیں۔ایسوسیٹدپریس کے مطابق اس میں طیاروں کی پارکنگ کے لئے 110 جگہیں ہیں جن کی حفاظت کے لئے بم پروف دیواریں ہیں۔پچاس بستروں پر مشتمل ایک ہسپتال ہے،ٹراما مرکز ہے،تین آپریشن تھیٹر ہیں اور ایک جدید دانتوں کا کلینک بھی ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بہت ہی خوبصورت اور جدید آلات سے لیس زندگی کی ہر ایک ضرورت کو پورا کرنے والا   اڈہ ہے یہ،  لیکن  اس اڈے کا  یہ ایک رُخ ہے،جب ہم اس اڈے کا دوسرا پہلو دیکھتے ہیں تو انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔وہ یہ کہ اس اڈے کو کیوبیا میں واقع بدنام زمانہ امریکہ فوجی جیل کے نام پر ”افغانستان“ کاگوانتا نامو کہا جاتا ہے۔ اسی بگرام کے عقوبت خانے میں مظلوم افغانیوں پر ظلم و ستم اور دردناک تشددکی چیخیں،آئیں اور سسکیاں آج بھی انسانی ضمیر کو جھنجوڑ کے رکھ دیتی ہیں۔یہ اڈہ آج بھی افغانستان کے لئے خوف کی علامت ہے۔کہا جاتا ہے کہ افغانی والدین اپنے بچوں کے رونے کے دوران اسی جیل کا نام لے کے اُن کوڈرا کر چُپ کراتے ہیں۔

پاکستان کے ایک تجزیہ نگار مسعود ابدالی نے اپنے ایک مضمون میں اسی بگرام کے متعلق لکھا ہے کہ ”اسی کے ساتھ بگرام کے ایک حصے میں وہ قید خانہ بھی ہے، جس کی سرگرمیوں کے بارے میں جب ایک رپورٹ امریکی سینٹ میں پیش کی گئی تو کیلی فورنیا کی سینیٹر محترمہ ڈائن فینسٹائن اجلاس سے یہ کہتے ہوئے اٹھ گئیں کہ ان کے لیے اسے سننا ممکن نہیں۔ باہر آکر آنسو پونچھتے ہوئے انھوں نے حیرت سے پوچھا ”کیا یہ سب کچھ ہماری سی آئی اے کرتی تھی؟“یہاں تشدد کے لیے مصری فوج کے جلاد بلائے گئے تھے۔

آگے لکھتے ہیں کہ امریکی حملے کے ابتدائی دس سالوں تک پاکستان اور افغانستان سے شہریوں کا لاپتا ہوجانا عام تھا، اور ان کا سراغ بگرام کی کسی کوٹھڑی ہی سے ملتا تھا۔ ایک سیاسی کارکن نے اس جیل میں 6  سال گزارے ہیں۔ اس نے(وائس آف امریکہ) VOA سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ بگرام کا نام سنتے ہی میرے کانوں میں درد بھری چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ امریکی سی آئی اے نے فلپائن، تھائی لینڈ اور مشرقی ایشیائی ممالک میں کئی جگہ عقوبت کدے بنا رکھے ہیں جنھیں کوچہ سیاہ یا dark sitesکہا جاتا ہے، لیکن نائن الیون کے بعد طالبان اور القاعدہ کے افراد پر تشدد کے لیے کیوبا کے جزیرے گوانتاناموبے، عراق میں ابوغریب جیل اور افغانستان میں بگرام خصوصی مراکز قائم کیے گئے۔ اِس وقت بھی کئی ہزار قیدی بگرام میں بند ہیں۔“

غرض وقت گزرتا گیااور آج تاریخ نے وہ دن دیکھ لیا جب دنیا کا طاقت ور ملک اپنے درجنوں اتحادیوں سمیت ان چند افغانیوں سے شکست کھا کے رات کی تاریکی میں بھاگ گیا۔ان باغیرت افغانوں کے پاس جدید ہتھیار اور زندگی کی دیگر عیش و عشرت والی چیزیں مہیا نہیں تھیں اگر کچھ تھا جس کے سبب دنیا کی”سلطنتوں کا قبرستان“ افغانستان بنا تو وہ محض ایمانی غیرت تھی، جس نے ان کو دنیا کے اس سامراج کے سامنے جھکنے نہیں دیا۔غرض امریکہ انتہائی شرمناکی کی حالت میں افغانستان کو چھوڑ کر اس جنگ میں بُری طرح سے پٹ گیا وہیں دوسری جانب  طالبان اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ افغانستان پر قبضہ جما رہا ہے۔اور اب طالبان کے پہلے نشانے پہ یہی بگرام ائیر بیس ہوگا۔اور اب اس اڈے کا انتظام کابل سرکار کے پاس ہے۔طالبان نے بھی بگرام پر قبضے کے لئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔بگرام کے جنوب مشرق میں کوہ صافی کے بڑے علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے اسی طرح سے جنوب میں بھی افغان فوج اور طالبان کی شدید جھڑپوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ اب افغان سکیورٹی فورسز کے لئے بگرام کو بچانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔بی بی سی کے مطابق بگرام اہم ہے، علامتی طور پر بھی اور اسٹر یٹجک اعتبار سے بھی۔ملک کے مختلف ضلعوں میں پیش قدمی کر رہے طالبان جنگجوؤں کی نظر اسی انعام پر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ اکتوبر بھی اس اڈے کے ارد گرد شہر کے لوگوں نے ہمیں بتایا تھا کہ طالبان اُن کے درمیان ہی ہیں۔“ یعنی طالبان نے افغان فوج کو ایک طرح سے باندھ کے رکھا ہے جس کی وجہ سے کابل کو بگرام کی اور مزید کمک بھیجنا مشکل ہو گیا ہے۔وہیں دوسری  طرف  افغان صدر اشرف غنی کے لئے بگرام کا طالبان کے قبضے میں جانا کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا جس کے لئے اشرف غنی امریکہ کی مدد سے طالبا ن کے ساتھ جنگ میں شدت لا سکتے ہیں۔مجموعی طور پہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ طالبان کے ہاتھوں بدترین قسم کی شکست کھا چُکا ہے اوراب اشرف غنی بھی رہی سہی ہزیمت اپنے کھاتے میں ڈالنے کا خواہاں ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ طالبان کب اور کتنے وقت میں بگرام ائیر بیس پہ قبضہ جما کے کابل کی فتح کے لئے اپنی راہ ہموار کر سکتا ہے۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply