پاکستانی کا کھتارسس/جمہوری مغالطے۔۔اعظم معراج

وہ ایک قومی ہیرو تھا ۔اس نے اپنی قوم کو کھیل کے میدانوں میں کئی یادگار کامیابیاں دلوائیں۔پھر سماجی بھلائی کے کاموں میں نیک نامی کمائی۔لوگوں نے اسکی خدمات کو سراہا۔اسکے دیس میں سیاست پر چند گھرانوں کی اجارہ داری تھی ۔سیاستدانوں کے بارے میں مبینہ طور یہ تاثر عام تھا،کہ یہ ہوس زر واقتدار کے مارے ہوئے ہیں۔ایسے میں مقتدر طاقتوں نے اس کو سامنے لانے کی ٹھانی ۔اسکی مقبولیت نیک نامی کے باوجود سیاست میں کامیابی نہ ملی۔ وہ دھن کا پکا لیکن متلون مزاج ،کبھی سنگاپوری ماڈل کبھی سکنیڈنیون ماڈل پھر ملائیشیا  اورکبھی ریاست مدینہ ماڈل کی بات کرتا ،لیکن کوئی بنیادی سیاسی فلسفہ نہ اپنا سکا، انقلاب کی بنیادی شرط تنظیم پر اپنی سیاسی جماعت میں عمل درآمد نہ کروا سکا۔ لیکن میدان ِ سیاست میں قحط الرجالی اور سیاسی حکمرانوں کی ہوس زر واقتدار اور اسکی مسلسل محنت کی بدولت اسے دودہا ئیوں  میں کچھ کامیابیاں ملنے لگیں  ۔ قبولیت کی گھڑی نزدیک آگئی، لیکن وہ اسکا ادراک نہ کر سکا۔ شاید وہ تھک چکا تھا۔ اس لئے اس نے پہلے الیکٹ ایبل اور پھر کسی کے  کان   میں کہی ہوئی یہ بات مان لی کے ” باپ بڑا نہ  بھیا ،سب سے بڑا روپیہ”۔۔

اور اس ڈاکٹرائن پر عمل درآمد شروع کیا۔اسں طرح جن کے خلاف انقلاب آ نا تھا وہی ابن الوقت خود انقلابی بن گئے۔قبولیت کی گھڑی کو وہ باپ بڑا نہ  بھیا اور الیکٹ ایبل ڈاکٹرائن کی کامیابی سمجھا۔

اور اس طرح ولیدوں اور شبلیوں کو ٹکٹیں علیم اور ترین دینے لگے۔جس سے اس کے ساتھ بائیس سال سے لوگوں کے طعنے مینے سننے والوں کے دل ٹوٹ گئے۔اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ  دونوں ڈاکٹرائن مل کر بھی اسے سادہ اکثریت بھی نہ دلاسکے، جس سے ، جنھیں وہ ڈاکوکہتا تھا انھیں مقدس ایوانوں کے رکھوالے بنانا کئی بندوق برداروں کو نفیس کہنا پڑا اور دشتام طرازوں کو نرم،اوراہم ترین سیاستدان ماننا پڑا، یوں سماجی انصاف کے نرم انقلاب کے خواب دیکھنے والے الیکٹ ایبل،باپ بڑا نہ  بھیا، الکپونی اور گاڈ فادری ڈاکٹرائن کے خلاف کی گئی  جدوجہد کو جب انھی ڈاکٹرائن سے فیضیاب ہونے والوں کے حق میں جاتے دیکھتے تو وہ اپنے آپ سے منہ چھپانے لگتے۔ اور پھر شام ہوتے ہی ٹی وی پر الکپونی اور گارڈ فادری نظریات کے ماننے والے چیخ چیخ کر اپنے سابقہ آقاؤں کو گالیاں دیتےہوے سماجی انقلاب کی نوید سنانے لگے۔

یوں ایک بار پھر سماجی انصاف کے لئے کی گئی لاکھوں کی جدوجہد چند لوگوں کے مفادات اورجذبہ خود نمائی کو دوام بخشنے لگی۔اس طرح الکپونی،گاڈ فادری اور باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ ڈاکٹرائین انقلاب کے سہانے سپنوں کو کھا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply