وہ جو اپنی پہچان نہیں چھپاتے۔۔امر جلیل

عام طور پر کچھ غیرمعمولی دیکھنے اور سننے کے بعد ہم سکتے میں آجاتے ہیں۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ میں تنہا اِس غیرمتوقع کیفیت سے دوچار نہیں تھا۔ نادرا کے دفتر میں موجود ہر شخص اپنا اپنا کام بھلا کر اُس نوجوان کی طرف دیکھ رہا تھا جو بضد تھا کہ شناختی کارڈ میں والد کے نام کی بجائے، نام کی جگہ گم نام یا نامعلوم لکھا جائے۔ وہ اس بات پر بھی بضد تھا کہ شناختی کارڈ کے حصول کے لئے فارم میں اسکی جائے پیدائش کے خانے میں گٹر بغیچہ، کچرے کا ڈھیر لکھا جائے۔ لگتا تھا، لوگ جیسے بولنا بھول گئے تھے۔ تب اس کے سامنے میز کی دوسری جانب بیٹھے ہوئے افسر نے سمجھانے بجھانے والے لہجے میں کہا ’’بیٹے، اس طرح تو آپ کو شناختی کارڈ جاری نہیں ہو سکتا‘‘۔
نوجوان نے دھیمے لہجہ میں کہا ’’وہی تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ مجھے شناختی کارڈ کیوں جاری نہیں ہو سکتا‘‘۔

افسر نے نوجوان کو پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا ’’شناختی کارڈ میں والد کے نام کی جگہ آپ صرف والد کا نام لکھ سکتے ہیں اور کچھ نہیں لکھ سکتے‘‘۔
’’ دیکھئے سر، میں نوزائیدہ یتیم خانے والوں کو کچرے کے ڈھیر پر پڑا ہوا ملا تھا‘‘۔ نوجوان نے کہا ’’میں نہیں جانتا کہ میرا باپ کون تھا، میری ماں کون تھی بلکہ کوئی نہیں جانتا کہ میرے ماں باپ کون تھے۔ یہی میری شناخت ہے‘‘۔’’ دیکھیں بیٹا‘‘۔ افسر نے نوجوان کو سمجھاتے ہوئے کہا ’’والد کے نام کے بغیر کسی کو شناختی کارڈ جاری نہیں ہو سکتا۔ قوانین بدلنا ہمارے بس میں نہیں ہے‘‘۔
زندگی کو امرت بنانے کے لئے حقائق کے کڑوے گھونٹ پینا پڑتے ہیں مگر کچھ گھونٹ اس قدر کڑوے ہوتے ہیں کہ زندگی بھر ان کی کڑواہٹ روح میں رچ بس جاتی ہے۔ میں محسوس کر سکتا تھا کہ نوجوان نے حقائق کا اِس قدر کڑوا گھونٹ ہی لیا ہے جس کی کڑواہٹ وہ ہر جنم میں محسوس کرتا رہے گا۔ نہ جانے کیوں میں محسوس کررہا تھا کہ وہ میری زندگی جی رہا تھا۔ میں بھول گیا کہ اس مرتبہ نادرا کے دفتر میں، میں اپنی زندگی کے آخری شناختی کارڈ کے اجرا کیلئے آیا تھا، آخری شناختی کارڈ پر اختتامی تاریخ لکھی ہوئی نہیں ہوتی۔ ہمارے انتقال کے ساتھ تاحیات شناختی کارڈ اپنے انجام کو پہنچتا ہے اور انتقال کر جاتا ہے مگر نوجوان کا حیرت انگیز مصمم ارادہ اور عزم دیکھ کر میں حیران تھا۔ نادرا کے دفتر آنے کا مقصد میں بھول گیا۔ میں شدت سے محسوس کررہا تھا کہ میں نوجوان سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ قریب کے میز پر پڑا ہوا نوجوان کا میڑک سرٹیفکیٹ میں پڑھ سکتا تھا۔ سرٹیفکیٹ میں نوجوان کا اپنا نام خادم حسین لکھا ہوا تھا۔ والد کا نام ولی داد خان لکھا ہوا تھا۔نوجوان نے دھیمی آواز میں افسر سے پوچھا ’’سر، مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہے‘‘؟ ’’کہو‘‘۔

’’سر، گٹر بغیچہ اور گٹر بغیچے کے قریب پڑا ہوا کچرے کا ڈھیر پاکستان میں ہے‘‘۔ نوجوان نے کہا ’’میں کچرے کے ڈھیر پر پڑا ہوا یتیم خانے والوں کو ملا تھا۔ اس لحاظ سے میں پیدائشی طور پر پاکستانی ہوں‘‘۔
’’ پھر‘‘؟
’’سر، شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لئے کیا ضروری ہے؟‘‘ نوجوان نے پوچھا ’’پاکستانی ہونا ضروری ہے، یا باپ کا نام ضروری ہے؟‘‘
افسر نے سپاٹ لہجے میں کہا ’’دونوں ضروری ہیں‘‘۔غیرمعمولی خاموشی میں اپنی نوعیت کا شور ہوتا ہے جو کچھ لوگوں کو سنائی دیتا ہے اور کچھ لوگوں کو سنائی نہیں دیتا۔ ملحقہ کمرے سے ایک سخت گیر قسم کا کھردرا شخص باہر نکل آیا۔ دفتر میں موجود ہر شخص پر نظر ڈالتے ہوئے ڈائریکٹر صاحب نے پوچھا ’’کیا ہورہا ہے‘‘؟
نوجوان کا معاملہ دیکھنے والے افسر نے کہا ’’سر یہ نوجوان فارم میں والد کے نام کی جگہ گمنام یا نامعلوم لکھنے پر بضد ہے‘‘۔
کھردرے ڈائریکٹر نے نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ’’تمہارا پرابلم کیا ہے‘‘؟
’’میرا کوئی پرابلم نہیں ہے‘‘۔ نوجوان نے کہا۔
’’یتیم خانے والوں کو میں کچرے کے ڈھیر پر پڑا ہوا ملا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ میرے ماں باپ کون تھے‘‘۔
افسر نے ڈائریکٹر کو نوجوان کا میٹرک سرٹیفکیٹ دکھاتے ہوئے کہا ’’یتیم خانے والوں نے روایت کے مطابق اس کو اپنا اور اپنے والد کا نام دیا ہے‘‘۔ ڈائریکٹر نے سرٹیفکیٹ دیکھتے ہوئے کہا ’’تمہارا نام خادم حسین ہے۔ تمہارے والد کا نام ولی داد خان ہے۔ یہی تمہاری پہچان ہے۔ اسی پہچان سے تمہیں شناختی کارڈ جاری ہو سکتا ہے‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors

’’یہ مجھے دی گئی مصنوعی پہچان ہے۔ مجھے قبول نہیں ہے‘‘۔ نوجوان نے مکمل اعتماد کے ساتھ کہا۔
’’میری تصدیق شدہ، باوثوق شناخت یہ ہے کہ میں یتیم خانہ والوں کو کچرے کے ڈھیر پر پڑا ہوا ملا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ میرے ماں باپ کون تھے‘‘۔
سخت گیر کھردرا ڈائریکٹر شش و پنج میں پڑ گیا۔ نوجوان کے ساتھ اس کا ردعمل ہم اگلے منگل کے روز دیکھیں گے مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلے منگل کے روز ہم اپنے ہیرو دلیپ کمار کے بارے میں بات چیت کریں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply