• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • برطانوی وظیفہ خواری سے امریکی وظیفہ خواری تک۔۔خالد مسعود خان

برطانوی وظیفہ خواری سے امریکی وظیفہ خواری تک۔۔خالد مسعود خان

ہمیں آنے والے وقت کی مشکلوں کا رتی برابر احساس نہیں اور ہم اس بات پر خوش ہیں کہ امریکہ رات کے اندھیرے میں بگرام ایئر بیس سے بتیاں بند کر کے بلا اطلاع بھاگ گیا ہے۔ حالات کی سنگینی کا احساس کرنے کے بجائے ہماری وزارتِ خارجہ پرائی کامیابیوں پر خوشیاں منانے میں لگی ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں میری نظروں سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک بیان گزرا۔ طالبان سے رابطہ کرنے پر انہوں نے بھارت کے لتے لیتے ہوئے فرمایا کہ بھارت کو طالبان سے رابطہ کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے تھی۔ حالانکہ عشروں تک طالبان کی خاطر دنیا بھر کی نظروں میں خوار ہونے والے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو اپنی اس ناکامی پر شرم آنی چاہئے تھی کہ آپ ان کے حمایتی رہے‘ ان کے مربی رہے‘ ان کے رابطہ کار رہے اور ان کے ضامن رہے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ جب امریکہ جانے لگا تو طالبان نے بات چیت کا ڈول بھارت کے کنویں میں ڈال دیا۔ اس ہزیمت پر چاہئے تو یہ تھا کہ ہماری وزارتِ خارجہ شرمندہ ہوتی لیکن شرمندگی اور ناکامی کو بھارت کو طعنے مار کر چھپایا جا رہا ہے۔
ملک خالد کے بقول اگر کسی کا خیال ہے کہ امریکہ واقعتاً اسی طرح بغیر اطلاع اور افراتفری میں افغانستان سے بھاگا ہے جس طرح ہم سوچ رہے ہیں تو یہ خیالِ خام ہے۔ ملک خالد کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان میں بیس سال لگانے اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد رات کے اندھیرے میں آئندہ کا بندوبست کئے بغیر اس طرح جا ہی نہیں سکتا جس طرح بظاہر نظر آ رہا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس طرح خاموشی سے نکلنے کیلئے جن کو اعتماد میں لینا تھا انہیں اعتماد میں لے کر ہی وہ رخصت ہوا ہے۔ جنہیں اس طرح آنکھ بچا کر نکل جانے سے فائدہ پہنچانا مقصود تھا انہیں اس کا سارا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اسے جن لوگوں سے افغانستان کے آئندہ منظر نامے میں کام لینا ہے ان کے ساتھ اس کے معاملات طے ہو چکے ہیں اور جن لوگوں نے آئندہ اس کے علاقائی منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے ان سے امریکہ کے معاملات بخیر و خوبی طے ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے جن کو امریکہ نے اس خطے میں اپنے آئندہ کے کردار کی ذمہ داری سونپی ہے اور اپنے ادھورے ایجنڈے کا امین بنایا ہے ان کے ساتھ امریکہ نے معاملات طے ہونے کے بعد ہی ادھر سے کوچ کا قصد کیا ہے۔ آئندہ کے امریکی منظر نامے میں ہمارے لئے کوئی آسانی‘ کوئی سہولت اور کوئی اچھی خبر نظر نہیں آ رہی۔

اس کے خیال میں افغانستان سے امریکی رخصتی کو جس طرح روسی رخصتی کے ساتھ موازنہ کر کے خوش ہو رہے ہیں‘ بات اس کے برعکس ہے۔ روس افغانستان سے شکست کھا کر نکلا تھا اور امریکہ افغانستان میں اپنا کردار کسی اور کو سونپ کر نکلا ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات‘ چین کی جی ایٹ کی جانب سے اقتصادی ناکہ بندی کی منصوبہ سازی اور سی پیک جیسی ڈویلپمنٹ کو روکنے اور سبوتاژ کرنے کیلئے اسے اس خطے سے نکلنے سے پہلے ان ساری چیزوں کا چارج کسی کو تو پکڑانا تھا۔ اپنا سارا سیٹ اپ اس طرح افراتفری میں چھوڑ کر بھاگنے کی کیا قیامت آئی ہوئی تھی؟ امریکہ یہاں سے جانے سے قبل اپنا سارا فوجی سازو سامان جس میں بکتر بند گاڑیاں‘ ٹینک‘ توپیں‘ ہیلی کاپٹر‘ اسلحہ بارود‘ اس ساز و سامان کیلئے درکار بے شمار پرزہ جات‘ گرنیڈز‘ راکٹ لانچرز اور بے شمار چھوٹا اسلحہ سمیٹ کر ساتھ لے جا سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ آخر کیوں؟ وہ جن کے لیے چھوڑ کر گیا ہے انہوں نے اس پر ہاتھ صاف کر لیا ہے۔
اگر کسی کا خیال ہے کہ امریکہ بغیر کسی تیاری کے‘ بغیر منصوبہ بندی اور بغیر کسی مستقبل کے پلان کو ذہن میں رکھے منہ اٹھا کر واپس چل دیا ہے تو یہ سوچنے والے کی خام خیالی ہے۔بقول شخصے‘ امریکی جب رات کے اندھیرے میں بگرام ایئر پورٹ کو بتیاں بند کر کے لاوارث چھوڑ کر بلااطلاع رخصت ہوئے تو افغان سکیورٹی فورسز اور حکام کو ان کی روانگی کا علم ان کے جانے کے بعد ہوا۔ لیکن وہ جونہی بگرام سے نکلے لوٹ مار کرنے والے افغان حکومت کو علم سے پیشتر لوٹ مار کر کے جا چکے تھے۔ امریکہ کے اتحادی اشرف غنی کو بھی امریکیوں کی روانگی کا علم بعد میں ہوا بلکہ ہر طرف پیشقدمی کرنے والوں کو ان سے پہلے امریکیوں کی جانب سے بگرام خالی کرنے کا علم ہو چکا تھا۔ بقول ملک خالد یہ سارا منصوبہ طے شدہ ہے اور اس منصوبے سے افغان حکومت اور پاکستان کو مکھن میں بال کی طرح نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ طالبان کے بھارت سے رابطے بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں جبکہ ہم خوش ہو رہے ہیں کہ بھارت کی جانب سے اربوں روپے کے خرچے سے بنایا گیا سلمہ ڈیم المعروف انڈیا افغانستان فرینڈ شپ ڈیم پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے۔ یہ ڈیم پہلے بھی افغانستان کے صوبہ ہرات میں دریائے ہاری پر موجود تھا اور اب بھی وہیں پر ہے۔ یہ ڈیم پہلے بھی ا فغانوں کی ملکیت تھا اور اب بھی انہی کی ملکیت رہے گا۔ خواہ کاکابل میں کوئی بھی حکمران ہو تو اس پر ہمارے لئے خوشیوں کے شادیانے بجانے کا کیا موقع ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

ملک خالد کہنے لگا پہلی اینگلو افغان جنگ جو 1839 ء سے1842ء کے درمیان لڑی گئی برطانویوں کو ابتدائی کامیابی کے بعد سخت موسم کے باعث آخر کار بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور افغانستان سے واپسی کا سفر تو مزید تباہ کن ثابت ہوا؛ تاہم دوسری اینگلو افغان جنگ جو 1878ء سے 1881 ء کے درمیان لڑی گئی برطانوی فتح پر منتج ہوئی اور تاجِ برطانیہ نے افغانستان کو اپنی تولیت میں لے لیا۔ اسےBritish protectorate کہا جاتا ہے۔ برطانیہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس لے آیا تاہم ایک معاہدے کے تحت امیر امان اللہ اور بعد ازاں امیر حبیب اللہ افغانستان پر برطانوی وظیفہ خوار کی حیثیت سے حکومت کرتے رہے۔ امیر حبیب اللہ کو کلکتہ سے سالانہ 160000 برطانوی پاؤنڈ وظیفہ ملتاتھا اور کابل میں تاجِ برطانیہ کا نمائندہ برطانوی مفادات کا تحفظ بھی کرتا اور بادشاہ کی نگرانی بھی کرتا رہتا تھا۔ امریکہ بھی عشروں بعد اسی انتظام پرپہنچا ہے جس پر برطانوی ایک سو چالیس سال قبل پہنچ گئے تھے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکہ کی اس بظاہر ذلت آمیز روانگی پر امریکہ بھر میں خاموشی ہے۔ کسی نے سوشل میڈیا پر امریکی فوج کو بزدل نہیں کہا‘ کسی نے اربوں ڈالر ضائع ہونے کا حساب نہیں مانگا‘ کسی ٹی وی اینکر نے اسے فوج کی ناکامی قرار دیتے ہوئے لتے نہیں لیے‘ کسی تنظیم نے اپنے ٹیکس کی رقم کا حساب نہیں مانگا۔ کسی نے فیس بک پر کہرام نہیں مچایا اور کسی اپوزیشن لیڈر نے امریکی صدر پر غداری کا الزام نہیں لگایا۔ ابھی بہت کچھ پردہ غائب میں ہے اور اپنی اصلیت کے ساتھ لوگوں پر آشکار نہیں ہے تاہم اس لاعلمی اور پردہ وپوشی کے باعث کسی امریکی نے اپنی حکومت فوج اور پینٹاگون پر طنز کے تیر نہیں چلائے اور کسی نے بھی اسے ملک و قوم کی بے عزتی قرار دے کر اپنے دل کا غبار ہلکا نہیں کیا۔ ایسی آزادی صرف ہمارے ہاں ہی ہے۔ اس خطے میں کیا تماشا ہونے جارہا ہے اب زیادہ دیر پردے میں نہیں رہے گا اور جلد ہی حالات و واقعات اصل کھیل کو واضح کرنا شروع کردیں گے۔ امریکی جن کے ساتھ آنے والے وقت کے معاملات طے کر کے گئے ہیں وہ ہمارے نہیں‘ امریکی مفادات کا تحفظ کریں گے۔ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ہم لوگ خواب سے جلد بیدار ہوجائیں اور یہ اندازہ لگا لیں کہ کل کے ہمارے دوست آنے والے کل میں ہمارے دشمنوں کے دوست ہوسکتے ہیں۔ جس دنیا میں پیسہ ہی سب کچھ ہو وہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ افغانستان کے لارڈز اور جنگجو دھڑے پیسے کے پٹرول سے چلتے ہیں۔1901ء سے 1919ء تک افغانستان کے امیر حبیب اللہ کو یہ پٹرول کلکتہ سے آتا تھا اب واشنگٹن سے آئے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply