مجھے وطن پھر چھوڑنا پڑے گا

وسعت نظر
ڈاکٹر مجاہد مرزا
مجھے وطن پھر چھوڑنا پڑے گا
کیا میں اکتا گیا ہوں؟ بلا شبہ اکتا گیا ہوں۔ کس بات سے، کوئی ایک بات ہو تو کہوں۔ پورا معاشرہ اخلاقی، ذہنی، مذہبی، انسانی غرض کون سا ایسا پہلو ہے جس میں انحطاط نہیں۔ چونکہ ماضی میں میرا تعلق طب سے رہا ہے اور بعد میں ادب و صحافت کے ساتھ وابستگی چنانچہ پہلے شعبہ طب کی جانب آتے ہیں۔ لاہور کے ایک بڑے ہسپتال کے قریب میرے دو ہم جماعتوں میں سے ایک کی الٹراساونڈ کرنے کی نجی لیبارٹری ہے اور دوسرے کی بہت بڑی اور معیاری کلینیکل لیبارٹری۔
ہم تینوں اکٹھے بیٹھے تھے۔ میں فون سن رہا تھا۔ وہ آپس میں بات کر رہے تھے جس میں 1600 اور 700 کا ذکر تھا۔ فون سے فارغ ہو کر میں نے کہا کہ مجھے بھی بتاو کیا معاملہ ہے تو لیبارٹری والے نے بتایا کہ یہ کہہ رہا ہے کلائنٹ سے 1600 طے کرکے لایا تھا جبکہ مجھے 700 دیے۔ میں کچھ سمجھا نہیں تو وضاحت کی کہ ” ایجنٹ” کسی کا الٹرا ساؤنڈ کروانے لایا۔ مجھے سات سو دیے۔ میں نے بعد میں معلوم کیا تو اس نے مریض سے 1600 وصول کیے تھے۔ میں نے بتانے والے سے پوچھا کہ مریض خود کیوں نہیں پہنچ جاتے تو جواب ملا کہ دیہاتوں اور چھوٹے شہروں سے آئے مریضوں کو علم نہیں ہوتا، کونسا کام کہاں سے کروایا جائے۔ اس لیے ہسپتال کے سامنے موجود ایجنٹ انہیں ہم لوگوں تک لاتے ہیں۔
میرا یہ ہم جماعت اس دکان کا کرایہ جہاں اس نے الٹرا ساؤنڈ مشین لگائی ہوئی ہے 85000 روپے ماہانہ دیتا ہے۔ جو لڑکی الٹرا ساؤنڈ کرنے کی خاطر ملازم رکھی ہوئی ہے، اسے بقول اس کے 40000 روپے ماہانہ دیتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہسپتال کے سامنے میڈیکل سٹور میں بیٹھنے والا ایجنٹ وہاں ایک کرسی میز رکھنے کا ماہوار 150000 دیتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اپنا ایک آدمی اسی طرح کے کسی سٹور میں بٹھا دوں۔
میں بولا کہ یار یہ سلسلہ تو بہت غلط ہے تو معیاری لیبارٹری کے مالک نے بتایا کہ پہلے دوائیوں کی کمپنیوں والوں نے ڈاکٹروں کو بدعنوانی کی جانب راغب کیا تھا جیسے ہیپاٹائٹس سی کے علاج کا کورس پہلے فلاں نام کی ادویات ساز کمپنی نے درآمد کیا جس کی قیمت 45000 روپے رکھی تھی جو بعد میں کم ہو کر 35000 تک آئی تھی، اب فلاں نام کی کمپنی نے حکومت کے ساتھ یہی کورس 1500 روپے فی کورس دینے کا معاہدہ کیا ہے، اس پندرہ سو میں سے وہ کم سے کم تین مقامات پر رشوت بھی دیں گے، مطلب یہ کہ اس دوائی کی اصل قیمت تقریبا” پانچ یا چھ سو روپے ہوگی یوں ادویات ساز کمپنیوں کے منافع کی شرح سوچ لو اور اب ڈاکٹر خود اس بدعنوان انفراسٹرکچر کا حصہ بن چکے ہیں۔
الٹرا ساؤنڈ والے ہم جماعت کی دکان دیکھ کر مجھے خود ابکائی آتی تھی اگر کوئی حقیقی غیر ملکی اس جگہ کو دیکھے تو اگر فوت نہ بھی ہو تو بےہوش ضرور ہو جائے گا۔ کلینکل لیبارٹری والے دوست کی عمارت جدید اور صاف ستھری ہے جس نے بتایا کہ مرزا کیا پوچھتے ہو اور کیا کیا بتاوں، خیر سنو میری لیبارٹری ملک کی ان چند لیبارٹریوں میں سے ہے جو ” ٹشو ٹائپنگ” کیے جانے کے لیے حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہے۔ یاد دلا دیں کی ٹشو ٹائپنگ انسانی اعضاء کی تبدیلی کا ایک اہم ترین جزو ہے۔ اب چونکہ پرنٹنگ کے جدید ترین گیجٹ آ گئے ہیں چنانچہ انسانی گردوں کی خرید و فروخت میں ملوث ایجنٹوں نے ٹشو ٹائپنگ رپورٹس نقل کرنا شروع کردیں۔ ” ہائیں” میرے منہ سے نکلا” یوں تو جس کا گردہ تبدیل ہوگا وہ مر جائے گا”۔ “ہاں ” میرے دوست نے بات جاری رکھی،” کسی کو کوئی غرض نہیں، کوئی مرے یا جیے، کام چلنا چاہیے اور پیسے آنے چاہییں۔ خیر ہم نے ڈاکٹروں سے درخواست کی کہ اگر ہماری لیبارٹری کی کوئی رپورٹ ہو تو کنفرم کروا لیجیے۔ ہم نے دو ایک جعلی رپورٹیں پکڑیں بھی۔ ہر چیز اوریجنل۔ بس سیریل نمبر نہیں ملتے تھے۔ اب ہم نے کہا کہ اس ٹیسٹ کے لیے آئی ڈی کارڈ کی فوٹو کاپی ساتھ لائیں۔ ایک دو ماہ معاملہ درست رہا پھر جعلی آئی ڈی کارڈوں کی کاپیاں آنے لگیں۔ اب ہم کہتے ہیں کہ جس کا ٹشو ہو اس کی تصویر ساتھ لائیں ۔ انسانی جانوں سے کھیلنے والے نہ جانے کب اس کا بھی توڑ کر لیں” یہ بتا کر وہ کچھ دیر چپ رہا پھر اس نے بتایا کہ لیبارٹریوں کے لیے مشینیں اور آلات بیچنے والوں کی کیا چالیں ہیں جن کی وجہ سے کئی کلینیکل ٹیسٹوں کی قیمت زیادہ رکھنی پڑتی ہے۔
ادیبوں و صحافیوں کی دولت بنانے کے لیے جو چالیں اور وتیرے ہیں وہ اگر غیر انسانی نہیں تو غیر اخلاقی ضرور ہیں۔ کیا کیا جائے سب ہی اس گندے جل کی مچھلیاں ہیں؛آلودہ اور مضر۔
عام لوگوں کی باتیں بھی حوصلہ شکن اور اذیت دہ ہیں۔ مثال کے طور پر میرے پاس ایک قیمتی گھڑی تھی۔ وہ ایک گہرے دوست کے ہاں رہ گئی۔ اس کے گھر سے نکلنے کے پندرہ منٹ کے بعد گھڑی اس کے ہاں سائیڈ ٹیبل پر چھوڑ کے آنے کا احساس ہوا تو کار میں بیٹھے بیٹھے فون کیا۔ دیکھتا ہوں کہہ کر دو منٹ بعد کہا ہے کہ نہیں ہے۔ گھر میں دوست، اس کی اہلیہ اور ایک اچھے عہدے پر مامور بیٹی کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ چلیں کسی بھی طرح گم ہو گئی کم از کم دوچار روز بعد فون کرکے پوچھ ہی لیا ہوتا کہ گھڑی ملی کہ نہیں۔ مجال ہے جو جھوٹے منہ فون کیا ہو۔
جس گھرمیں مقیم ہوں، اس میں ایک لڑکی گھریلو ملازمہ ہے۔ اسے پہلے دن دیکھتے ہی گھریلو ملازموں سے متعلق ایک مضمون لکھا۔ چند بار گھر والوں سے چھپا کر تاکہ یہ نہ کہیں کہ ہماری ملازمہ کا مزاج بگاڑ رہا ہے سو سو روپے بھی دیے۔ ایک روز اس نے کمرے میں آ کر مانگ لیے تب بھی دے دیے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی کو چوری کی جانب راغب ہونے کا موقع نہ دوں اس لیے صبح اٹھتے ہی بٹوہ تکیے کے نیچے سے نکال کر جیب میں ڈال لیتا ہوں ایک روز اٹھانا بھول گیا تو اس سے ایک ہزار کا ایک اور ایک سو کا ایک نوٹ غائب۔ پیسے گنے ہوئے تھے۔ اب اس لڑکی سے نکلوا کے دکھاو۔ کمرے میں صفائی کرنے بس وہی آتی ہے۔ دو روز غصہ دکھایا پھر معاف کر دیا۔
اس روز تو چیخ ہی پڑا کہ روس میں نہ گھڑی گم ہوتی ہے نہ پیسے چرائے جاتے ہیں ۔ مجھے یہاں نہیں رہنا۔ لوگوں کو کوئی کام کہہ کے دیکھا توانکار کسی نے نہ کیا بس وہ جو یہاں کی زبان میں کہتے ہیں درخت کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا۔ معاشرے میں صاف کہنے کی جرات ہی باقی نہیں رہی ایسے میں اخلاقیات، اقدار اور اصول کیا باقی رہے ہوں گے ۔
آپ بلاگرز کو اٹھائے جانے کی مخالفت کریں تو ان سے متعلق جو پرچار ہو چکا اس پر یقین کرتے ہوئے لوگ کہیں گے کہ ان سے پہلے اس حمایت کرنے والے کو ” پھانسی دو”۔
روسی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ مچھلی سر سے گلنا شروع ہوتی ہے۔ یہاں مچھلی سر سے گلنا کب کی شروع تھی اب وہ دم تک گل سڑ چکی ہے۔ بدبودار، متعین ہو چکی ہے۔ اب کسی کو ناک پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ مہنگائی، مسائل اور مطلوب کے سبب سب اس گلی ہوئی مچھلی کا حصہ ہیں، کیا اشراف کیا عام لوگ۔ اس مچھلی کے جسم میں جو معدودے چند خلیے سلامت بچ رہے ہیں وہ اول تو دکھائی نہیں دیتے اور اگر کسی کو دکھائی دے بھی جائیں تو نہ دیکھنے کے برابر۔
میں اس مچھلی کا حصہ نہیں بن سکتا چنانچہ مجھے وطن چھوڑ کر اپنائے ہوئے ملک لوٹنا پڑے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply