زیتون، کھجور اور پاکستان۔۔صغریٰ صدف

کچھ عرصے سے زیتون کی کاشت کے حوالے سے حکومتی سطح پر اور خصوصاًوزیراعظم کے بیانات میں خوشگوار تذکرہ اکثر سننے میں آرہا تھا مگر اس حوالے سے تفصیلات کا علم نہیں تھا کہ ایسا کیسے ممکن ہوگا کیونکہ ہر خطے کا درجہ حرارت،موسم اور آب وہوا زمین کی تاثیر اور زرخیزی پر اثرانداز ہوکر فصلوں کا تعین کرتے ہیں۔زیتون اور کھجور وہ صحت بخش پھل ہیں جن کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے، زیتون کا صرف تذکرہ نہیں بلکہ اس کی قسم کھائی گئی ہے۔قسم کسی پاکیزہ شے اور محبوب ہستی کی کھائی جاتی ہے جو وجود کے اندر پنپتی غلاظت کو طہارت میں ڈھال سکے۔زیتون کا تیل اپنی بے شمار خوبیوں کے باعث ہر دور میں اہمیت کاحامل رہا ہے۔اسی طرح کھجور کی غذائی اہمیت بھی مسلم ہے کچھ عرصہ قبل میں ایتھنز گئی تو وہاں جابجا زیتون کے پھل سے بھرے پودے دیکھ کر دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش پاکستان میں بھی یہ مفید اور خوبصورت پودا اسی طرح نظر آئے ۔آخر کار پاکستان کی زمین میں زیتون کی کامیاب کاشت خواب نہ رہی۔اس خواب کو تعبیر دینے میں محکمۂ زراعت سے جڑے ڈاکٹر عابد محمود کی برسوں کی تحقیق نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ڈاکٹر عابد محمود اس وقت پنجاب زرعی تحقیقاتی بورڈ لاہور کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ 1987 میں محکمہ زراعت میں شامل ہونے کے بعد انھوں نے زمین کی نبض سے تشخیص کاآغاز کیا تو ان پر اِس کی توانائیوں کے متعلق حقائق منکشف ہونا شروع ہوئے۔اس کی بہتر نگہداشت اور علاج معالجے کی لگن انھیں دنیا کی بہترین یونیورسٹی کیمبرج لے گئی۔کیمبرج سے ایم فل،پی ایچ ڈی اور امریکہ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے بعد وہ پوری طرح تحقیق میں مشغول ہو گئے۔ انھوں نے شب وروز کی محنت سے فصلوں کی بیالیس اقسام دریافت کیں مگر ابھی وہ بڑا معرکہ باقی تھا جس کی جستجو انھیں ہر لمحہ متحرک بھی رکھتی اور بے چین بھی۔
خواب پر تقدیر کی مہر تب لگی جب انھوں نے بطور ڈائریکٹر بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ چکوال میں زیتون پر تحقیق کا آغاز کیا۔ بڑے پیمانے پر اس کی کاشت ممکن بنانے کے ساتھ یہ بھی خیال رکھا کہ کوئی ایسا رستہ نکلے جس سے دیگر فصلوں کی پیداوار بھی متاثر نہ ہو۔اس مقصد کے لئے اپنے ملک سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں پیدا ہونے والی زیتون کی اقسام کو اکٹھا کیا گیا تاکہ پاکستان کی آب و ہوا میں کاشت کو ممکن بنایا جاسکے۔ان کی تحقیق و جستجو نے زیتون کی دو اقسام،باری زیتون_1 اور باری زیتون _2 متعارف کروائیںجن کی تجرباتی کاشت پوٹھوہار کے فارمز پر ہوئی اور خدا کے کرم سے امیدیں توقعات سے بڑھ کر کامیاب ہوئیں۔زیتون پر ڈاکٹر عابد محمود کی کامیاب تحقیق کی حکومتِ وقت نے عملی پذیرائی کرتے ہوئے اس کی بڑے پیمانے پر کاشت کا فیصلہ کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلوچستان،پنجاب اور خیبرپختونخوا کی بنجر زمینوں پر بہت کم مدت میں چالیس لاکھ پودے لگائے جاچکے ہیںجن میں نصف سے زائد پر پھل بھی لگ چکا ہے۔آئندہ برسوں میں یہ تعداد بڑھائے جانے کی شنید ہے کیونکہ زیتون کی کاشت پاکستان کے زرعی نظام میں ایک ایسی نفع بخش فصل کے طور پر ابھری ہے جو ملکی معیشت پر دور رس اثرات مرتب کرنے کے علاوہ چھوٹے زمینداروں کے لئے نوید مسرت ثابت ہوئی ہے۔پاکستان کا شمار کھجور پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے لیکن یہ کھجور برآمدات میں شامل نہیں کیونکہ اس کی کوالٹی کچھ زیادہ بہتر نہیں۔یہ بھی ڈاکٹر عابد کا احسان رہے گا کہ انھوں نے پاکستان میں دنیا میں پیدا ہونے والی بہترین اور سب سے مہنگی کھجوروں کی کاشت ممکن بنائی۔عرب ممالک سے اجوا، امبر، خلاص اور برھی کے ابتدائی پودے منگوا کر تجربات کے بعد انھیں اس قابل بنایا گیا کہ وہ پاکستان کی آب و ہوا میں بہترین پھل دے سکیں۔بہاولپور اور جھنگ میں کامیاب کاشت نے شعبہ زراعت کے حوصلے بلند کر دئیے ہیں۔آئندہ برسوں میں اس کی کاشت اتنی بڑھا دی جائے گی کہ یہ بھی ایک بڑی برآمد بن جائے گی۔اسی طرح جب زیتون کی موجودہ فصل پک کر تیار ہو گی تو نہ صرف ملک میں خوردنی تیل کی درآمد کم ہوگی بلکہ یہ برآمد بھی کیا جائے گا۔ اس تحقیق کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کی ہزاروں ایکڑ بنجر زمین پر کاشت کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس میں 75 فیصد لوگوں کا کاروبارِ حیات زراعت سے منسلک ہے۔ یقینا اب پاکستان واقعتاً ایک زرعی ملک بننے جارہا ہے کیونکہ اب اس کی تمام تر زمین سونا اگلنے کی تیاریوں میں ہے۔اسی لئے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے زیتون کی کاشت کو بہت خوش آئند قرار دیا ہے۔ ہمیں ہر شعبے میں ڈاکٹر عابد محمود جیسے ایک سائنسدان اور وطن کے سچے خدمت گار کی ضرورت ہے جو ملازمت کو اوقات کی پابندی تک محدود نہ رکھے بلکہ وطن کی ترقی کے لئے دیکھے گئے خوابوں کی تعبیر بنے۔ پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے جس میں وسائل کی کمی نہیں،صرف اس کی زمین اس کے پہاڑوں،اس کے دریاؤں اور سمندر کو محبت سے اپنانے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply