نیم حکیم ۔رانا اورنگزیب

اللہ پاک نے انسان کو پیدا کیا۔انسان کے لئے بطور رہائش زمین کو چنا اور زمین کی آب وہوا کو انسان کی صحت کے لئے موزوں بنایا۔اسی زمین میں انسان کی خوراک کا بندوبست کیا۔انسان کو صحت کے ساتھ ساتھ بیماری بھی عطا کی اور ہر بیماری کا علاج بھی اتارا۔بیماری کے علاج کے لئے بھی خالق کائنات نے اسی زمین میں جڑی بوٹیاں اور مختلف پھل معدنیات شہد وغیرہ عطا کیے۔پھر ان سب بیماریوں کی سمجھ معاشرے کے چنیدہ انسانوں کو عطا کی۔اپنی حکمت و دانائی سے اللہ پاک نے انسانوں میں منتخب لوگوں کو ان جڑی بوٹیوں اور خوراک کی سمجھ عطا فرمائی۔
انہی لوگوں کو مختلف بیماریوں اور جڑی بوٹیوں کے خواص ودیعت فرماۓ اور ان کے علاج کا طریقہ بھی اللہ نے ہی انسان کو سمجھایا۔ حتمی طور پر علاج یا دوا کی تاریخ کے بارے میں کچھ کہنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔سینکڑوں سال قبل مسیح کی تاریخ میں بھی علاج اور معالج موجود تھے۔طب یونانی میں بقراط کا نام لیا جاتا ہے مگر بقراط سے بھی پہلے علاج معالجہ موجود تھا۔جدید طب کے بانی مسلمان ہیں جنہوں نے آلات جراحی ایجاد کیے۔اور جدید دوائیاں متعارف کروائیں۔کوئی  وقت تھا کہ مختلف بیماریاں وبا کی صورت ظاہر ہوتیں  اور  دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں انسان لقمہ اجل بن جاتے۔مگر جدید طریقہ علاج نے بہت سی بیماریوں کو دنیا سے ناپید کر دیا۔
پینسیلین کی ایجاد نے تو بیماریاں کنٹرول کرنے میں ایک جادو کی چھڑی جیسا کام کیا۔غرض یہ کہ اچھی دوا ہی بیماری کو بہتر طور پر ختم کرنے اور انسان کو دوبارہ صحت کی طرف لانے میں معاون ومدد گار ثابت ہوتی ہے۔جب تک دوائی  صرف جان بچانے کی چیز تھی اس وقت تک دونمبر یا جعلی دوا کا تصور بھی نہیں تھا مگر جیسے ہی علاج کاروبار بنا اور معالج ساہوکار تو ہر کاروبار کی طرح علاج معالجے میں بھی دونمبر اور جعلی دوائیوں اور ڈاکٹروں کا در آنا مقدر ٹھہرا۔کبھی معالج مسیحا تھے اور علاج عبادت۔مگر آج معالج قصائی ہیں اور علاج ایک منافع بخش کاروبار۔
انسانی فطرت ہے کہ کاروباری ذہنیت کبھی قناعت کی طرف راغب نہیں ہوتی بلکہ ھل من مزید کی طرف رجحان رکھتی ہے۔تجارت کا مطمع نظر دولت ہوتا ہے صرف دولت جیسے بھی آۓ اور جہاں سے بھی آۓ۔اس وقت ساری دنیا سمیت وطن عزیز بھی جعلی دواؤں کے کاروبار کی لپیٹ میں ہے۔حکومت اس سیلاب پر بند باندھنے سے معزور دکھائی  دیتی ہے۔جعلی دواؤں کا دھندہ بڑے شہروں کےبڑے سرکاری ہسپتالوں سے لے کر پسماندہ گاؤں دیہات کے ڈاکٹر کی ہٹی تک ہر جگہ اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ جعلی ادویات صحت کے بجاۓ موت بانٹتی ہیں۔بیماری ختم کرنے کی  بجائے بیماری بڑھانے میں کردار ادا کرتی ہیں۔
منشیات سے متعلق اقوام متحدہ کے نگران ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹوں میں پچاس فیصد سے زیادہ ادویات جعلی ہوتی ہیں۔ ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں خبر دار کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں جعلی ادویات کی بھرمار ہے جن کے بعض اوقات تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جعلی ادویات کا کاروبار بہت جلد دنیا بھرمیں موجود غیر قانونی منشیات کے کاروبار سے بڑھ  جائے گا۔ ملک میں نہ صرف جعلی اور غیر معیاری ادویات کا دھندا دیر سے چل رہا ہے بلکہ وہ ادویات جن کی معیاد ختم ہو جاتی ہے ان کو نئے لیبل لگا کر پھر سے مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے، یہ بھی مشہور ہے کہ یہاں تو زہر بھی خالص نہیں ملتا۔
ایک تو پورے ملک میں ہر قسم کی اشیاء کا دونمبر مال بازار میں عام ملتا ہے اور اس کے لئے جہاں جہاں فیکٹریاں بنی ہوئی ہیں یا جن علاقوں میں یہ اشیاء تیار کی جاتی ہیں ان کے بارے میں متعلقہ حکام کو بخوبی علم ہوتا ہے اور یہ دھندا ملی بھگت کے بغیر چل ہی نہیں سکتا۔ اشیاء خوردنی میں بھی ملاوٹ عام ہے اور چائے، مرچوں اور مصالحوں کے بارے میں کئی قصے مشہور ہیں۔جہاں تک ادویات کا تعلق ہے تو غیر معیاری اور جعلی ادویات انسانی اموات کا باعث بنتی ہیں، اس پورے دھندے میں سرکاری مشینری بھی ملوث ہے کہ جن کی ذمہ داری قابو پانے کی ہے وہ ان جعلسازوں کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات مسیحا کی بجائے کمیشن ایجنٹ بن گئے ہیں۔ ڈسٹری بیوشن بھی کرتے ہیں اور غیر ضروری طورپر ادوایات لکھنے کے علاوہ ایسی ادویات تجویز کرتے ہیں جو صرف ان کے پاس کے میڈیکل سٹورز پر ملتی ہیں۔
ڈاکٹرز کو ادویات کی کمپنیاں بڑی بڑی آفرز کرتی ہیں جن میں غیر ملکی ٹورز، گاڑی، کیش انعام شنام وغیرہ۔ ڈاکٹرز کو ایک ٹارگٹ دیاجاتاہے کہ آپ نے ہماری ادویات اتنی مقدار میں اتنی مدت میں فروخت کرنی ہیں ۔ ٹارگٹ پورا کرنے پر آپ کو ملائیشیاء، تھائی لینڈ، دوبئی، منیلا کا فیملی ٹور دیاجائے گا۔ اس کے علاوہ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کی ملی بھگت سے عطائی  اپنے میڈیکل سٹورز پر ان کے نام لکھ کر انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ایک تو علاج مہنگا اوپر سے دوائی  دونمبر پھر ظلم یہ کہ دوائی  کی قیمت بہت  زیادہ۔پاکستان میں کراچی، فیصل آباد، لاہور، پشاور، بنوں و دیگر شہروں میں خاص طورپر دو نمبر ادویات تیار کی جاتی ہیں۔ ان پر ایران، بھارت، افغانستان وغیرہ کی مہر لگاکر فروخت کیاجاتاہے۔ 12روپے کی دوائی پر 350روپے تک قیمت لکھ دی جاتی ہے ۔
مذکورہ تمام تر کاروبار میں مین کردار میڈیکل سٹور کا ہوتاہے۔ ڈاکٹرز کا اگر بس چلے تو وہ اپنے مریضو ں کو ادویات بھی خود ہی ڈائریکٹ فروخت کرنا شروع کردیں۔ اس مکروہ دھندے میں پاکستان میڈیکل ریگولیرٹی اتھارٹی کا کردار انتہائی ناقص اور مجرمانہ ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں آئے روز قیمتوں میں اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں جو بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کررہی ہیں جن میں ریکٹ اینڈ کولمین، بیچم، گلیکسو، کانٹی نینٹل فارما، نائزر، روچ، ویلکم، ایبٹ، سرے کی قیمتوں کا اگر موازنہ پڑوسی ممالک بھارت، بنگلہ دیش، ایران وغیرہ سے کریں تو ہماری قیمتی بہت زیادہ ہیں۔ اسی کے باعث بھارت، ایران سے سستی ادویات پاکستان میں سمگل ہوکر بھاری مقدار میں آرہی ہیں۔
جبکہ ہمارے ملک میں بھی ان ملکوں کا ٹھپہ لگاکر ملکی ادویات کو فروخت کیاجارہاہے۔ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں موجود ادویات مریضوں کو کبھی کبھار مفت دی جاتی ہیں ان کا معیار انتہائی گھٹیا ہوتاہے لیکن ہمارے عوام اس فراڈ میں ملوث حکمرانوں کی تعریفیں کرتی نہیں تھکتی کہ یہ ادویات مفت ملتی ہیں۔جبکہ ہسپتالوں کے ڈاکٹرز مریضوں کو لمبی لمبی ادویات کی فہرست پکڑادیتے ہیں کہ جاؤ بازار سے لے آؤ۔ بعد ازاں وہی ادویات آپریشن کے بعد دوبارہ فروخت کردی جاتی ہیں۔ ہمارے شہروں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات ملنے کا تصور موجود ہے لیکن دیہاتوں میں ایک نمبر ادویات کا وجود ناپید ہے۔ اسی لئے اکثر مریض کسی بھی ناگہانی صورت میں شہر پہنچنے سے پہلے اﷲ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کسی بھی تجارت میں دو نمبر کام عروج پر ہے۔ حکومتی ادارے مافیا کے آگے بے بس ہیں لیکن چونکہ ادویات کے ساتھ لوگوں کی زندگی کا تعلق ہوتاہے اسی لئے یہاں صورتحال زیادہ نازک ہوجاتی ہے کیونکہ حدیث پاک کے مفہوم کے مطابق ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ہمارے ڈاکٹرز ادویات کے کاروبار سے منسلک وہ لوگ جو غلط کام کررہے ہیں کو آخر کار مرناہے اﷲ کے آگے جوابدہ ہوناہے۔ خاص کر صحت کے شعبے سے منسلک مریضوں کی خدمت کرکے دنیا و آخرت کی کامیابیا ں سمیٹ سکتے ہیں۔ خاص کر آجکل کے مہنگائی کے دور میں جب دو وقت کی روٹی کا حصول تک مشکل ہوگیاہے لوگوں کی جیبوں کو صاف کرنا غلط آپریشن کرنا، غیر ضروری ادویات تجویز کرنا، ہلکی ادویات لکھنا ظلم و زیادتی کا ایسا سلسلہ ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
وطن عزیز میں ایسا کوئی  ایک پرائیویٹ ہسپتال نہیں ملتا جہاں باہر سائن بورڈ پر علاقے کے نامور اور بڑے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کا نام نہ لکھا ہو۔جبکہ اندر کھاتے سارے ہسپتال کا نظام میٹرک ایف اے پاس نا تجربہ کار اور غیر تربیت یافتہ لوگ سنبھالے ہوئے ہیں۔اگر باہر دس نامی گرامی ڈاکٹر حضرات کا نام لکھا ہو تو سواۓ ہسپتال کے مالک کے کوئی  بھی وہاں نہیں آتا۔ہسپتال کا مالک بھی اپنی سرکاری ڈیوٹی کے بعد چند گھنٹوں کیلئے مریضوں کو دیکھتا ہے۔مریض کے لواحقین کو غیرضروری ٹیسٹوں میں الجھایا جاتا ہے اور ایسی لیبارٹری میں بھیجا جاتا ہے جن کو ٹیسٹ کے ہجے بھی درست طور پر معلوم نہیں ہوتے۔روزانہ کروڑوں روپیہ پاکستانی عوام کی جیب سے نکلوانے والی لیبارٹریز ہزاروں لوگوں کو غلط تشخیص کی بنا پر بیماریاں بانٹ رہی ہیں۔
پاکستان میں صحت کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے لوگ پرائیویٹ کلینک اور عطائی  ڈاکٹرز کے پاس جانے پر مجبور ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی میڈیکل سٹورز بنا رکھے ہیں۔کل میں نے ایک سڑک کے دونوں طرف 16کلومیٹر میں موجود  کلینک میڈیکل سٹورز اور ہسپتالوں کا بغور جائزہ لیا تو جو تلخ حقائق سامنے آۓ ہیں وہ کسی بھی باشعور انسان کو دہلانے کے لئے کافی سے زیادہ ہیں۔ایک بڑے سرکاری ہسپتال سمیت دو چھوٹے پرائیویٹ ہسپتال اور کم وبیش 30 کلینک کم میڈیکل سٹورز موجود ہیں۔سرکاری ہسپتال میں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز اور عملہ موجود ہے۔
جبکہ دونوں چھوٹے پرائیویٹ ہسپتال غیر تعلیم یافتہ ناتجربہ کار اور نااہل لڑکوں کے سہارے چل رہے ہیں۔اور 30میڈیکل سٹورز میں سے کسی ایک پر بھی کوئی  ایم بی بی ایس یا تربیت اور سند یافتہ ڈاکٹر نہ موجود ہوتا ہے نہ جزوقتی آتا ہے۔بلکہ ان میں بیشتر وہ میٹرک پاس لڑکے بیٹھے مریضوں کی  زندگیوں سے کھیل رہے ہیں جو دو چار مہینے یا سال کسی ڈاکٹر کے کلینک پر بطور اٹینڈنٹ کام کرچکے ہیں۔جب میں نے ایک دو سے پوچھا کہ بھائی  کوئی  پوچھ گچھ کا خطرہ نہیں آپ کو تو جواب ملا منتھلیاں بلاوجہ تو نہیں دی جاتی۔ اب ان کے پاس آنے والے مریضوں سے پوچھا کہ آپ کسی مستند ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں جاتے تو جواب ملا کہ جی ڈاکٹرز کی فیس بہت  زیادہ ہے مثلاً اگر کسی ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے پاس مشورہ کے لئے جائیں تو وہ پہلے تو کم از کم دوسو روپے فیس کے لے گا اس کے بعد دوائی  کے پیسے الگ۔
جبکہ ان کے پاس سے دوائی  پچاس ساٹھ روپے میں مل جاتی ہے اور آرام بھی آجاتا ہے۔ ایک ایسے ہی ڈاکٹر سے بات ہوئی  کہ آپ کو انجیکشن کتنے کا ملتا ہے جواب ملا دس روپے کا۔سوال کیا لگاتے کتنے کا ہو تو کہنے لگا ساٹھ روپے کا۔دس روپے کا انجیکشن پانچ کی تین پیراسیٹامول گولیاں تین بروفن اور فیس ایک سو پچاس سے دوسو تک فیس ایک سو پچاس سے دوسو تک۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیماری ایک ہی جبکہ دوائی  کی قیمت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ایسا کیوں ہے پاکستان میں صارفین کے تحفظ کی غیرحکومتی تنظیم نےایک تحقیقی رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں ایک ہی دوائی کی  مختلف اقسام مارکیٹ میں مختلف قیمتوں پر فروخت ہورہی   ہیں جن میں بعض اوقات ایک ہزار فیصد تک کا فرق ہوتا ہے۔
دی نیٹ ورک فار پروٹیکشن آف کنزیومر کی رپورٹ میں وزارت صحت کے ساتھ رجسٹرڈ تقریباً بارہ ادویات کا ایک چارٹ دیا گیا ہے جس میں ایک ہی مرض کے لئے استعمال ہونے والی دوائی کے مختلف اقسام کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ قیمت ظاہر کی گئی ہے۔ چارٹ میں لوسارٹن پوٹاشیم کے چھتیس برانڈز دکھائے گئے ہیں جن میں سے ایک قسم کی گولی کی قیمت چار روپے پچانوے پیسے جبکہ دوسری قسم کی اکیاون روپے پچانوےپیسے  ہے جن کے بیچ ایک ہزار فیصد سے زیادہ کا فرق ہے۔اس طرح رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریباً اسی کمپنیاں اینٹی بائیوٹک سپرفلاکساسین کی پانچ سو ملی گرام کی گولیاں بناکر مارکیٹ میں فروخت کر رہی ہیں جن میں کم سے کم قیمت پانچ روپے اور زیادہ سے زیادہ پچاس روپے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ڈاکٹرز جانتے بوجھتے ناقص دوائیوں کے کاروبار کو فروغ دے رہے ہیں تاکہ عوام کو صحت کے مسائل کا سامنا رہے اور ان کا کاروبار چلتا رہے۔

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply