جنگجوکے آخری لمحات۔۔حبیب شیخ

عادل ریت پر لیٹا ہوا تھا، ایک دن کا پیاسا کئی دنوں سے بھوکا۔ اس کا جسم شاید بےجان ہو چکا تھا اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ کسی عضو کو ہلا سکے۔ ہر چند لمحات کے بعد وہ اپنے مردہ جسم کی پوری قوت کو اکٹھا کرتا اور پلکیں کھولتا تو اس کو لمبی بندوق کی نالی نظر آتی جو اس کی طرف نشانہ کئے ہوئے تھی اور اس کو پکڑے ہوئے ایک فاتح سپاہی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ مر چکا تھا، زندہ تھا یا کوئی خواب دیکھ رہا تھا۔ کیا عادل چند سانسوں کا مہمان تھا؟ اگر اس رحم دل سپاہی نے اسے نہیں مارا تو کیا وہ بھوک پیاس کی شدت، صحرا کی تپش اور اندرونی چوٹوں کو شکست دے سکتا تھا؟ لیکن پھر وہ کون سی زندگی جی پائے گا کسی کال کوٹھڑ ی میں ایک قیدی کی، ایک ہارے ہوئے آزاد انسان کی یا امنگوں اور جذبات سے بھرپور ایک نوجوان کی! یہ خیال آتے ہی اس کا ذہن ایک پروجیکٹر میں تبدیل ہو گیا۔

’میری اُس زندگی کا کیا ہوا؟ میرے پاس تو سب کچھ تھا جس کی  دوسرے نوجوان تمنا رکھتے تھے اور مجھ جیسے زندہ دل انسان کے بارے میں لڑکیاں خواب دیکھتی تھیں۔ گھر والوں کا لاڈلا، تعلیم یافتہ، خوبرو، کھیل کود میں ماہر، زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہونے والا، اپنے اردگرد کے لوگوں میں محبت بانٹنے والا، اور فیروزہ کا دیوانہ۔ اس کا گہرا سانولا رنگ، لمبی زلفیں اور چہرے پہ شرارت اور شرماہٹ۔ وہ مسکراتی تو سارا جہاں اس کے ساتھ مسکراتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ میں اس طرح اسے دیکھتا جیسے ایک پجاری دیوی سے نظریں ملانے کوشش کر رہا ہو۔ آخر ایک دن میں نے فیروزہ سے محبت کا اظہار کر ہی دیا چند بے ربط الفاظ میں اور فیروزہ جواب میں صرف مسکرا دی، اقرار کی دھیمی مسکراہٹ۔ لیکن جب ایک ماہ کے بعد میرے دوبارہ پوچھنے پہ اس نے شادی سے انکار کر دیا تو میں بالکل ٹوٹ پھوٹ گیا۔ میں نے زندگی سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا اس بے مقصد زندگی سے۔ فیروزہ کا انکار میرے لئے جینے سے انکار بن گیا۔ تب میرے دوست ہلال نے مجھے سہارا دیا، وہ میرے ساتھ ساتھ رہا، اور ایک دن اس نے بتایا کہ وہ الشباب کا رکن تھا جو حکومت کو گرا کر اسلامی نظام نافذ کریں گے۔ ہلال کی باتوں میں کتنی سنجیدگی اور سچائی تھی! میں نے محسوس کیا کہ مجھے دوبارہ جینے کا کوئی مقصد مل گیاتھا اچھائی کے لئے، صداقت کے لئے، معاشرتی بھلائی کے لئے۔ پھر نجانے کتنے لوگوں کو میں نےاپنے گوریلا یونٹ کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر موت کے گھاٹ اتارا، کتنوں کو زخمی اور بےروزگار کیا، ان گنت خاندانوں کو اجاڑا لیکن یہ سب کچھ تو جائز اور ضروری تھاایک اعلیٰ مقصد کے لئے۔

لیکن آج میں خود ٹانگیں اپنے دھڑ کے ساتھ لگاکر لیٹا ہوا ہوں بے بس اور لاچار۔ اسی عورت کی طرح جو ایک ہوٹل کی لابی میں لیٹی ہوئی کراہ رہی تھی۔ میں نے اپنے یونٹ کے چار ساتھیوں کے ہمراہ ایک ہوٹل پر حملہ کیا تھا اور ایک گرینیڈ پھینکا تھا۔ ہوٹل کی لابی ایک لمحے میں قتل گاہ بن گئی تھی، ایک زندگی سے بھرپور لابی جہاں کچھ لوگ چند لمحات قبل صوفوں پہ بیٹھے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے اور دو بنی سنوری عورتیں کاؤنٹر کے پاس کھڑی مسکرا کر ہوٹل کے مہمانوں کو دیکھ رہی تھیں۔ مجھ سے ان جوان عورتوں کا سراپا وجود برداشت نہیں ہورہا تھا۔ گرینیڈ پھٹنے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ دونوں عورتیں زمیں پر کراہ رہی تھیں۔ ان میں سے ایک اپنے گھٹنوں کو دھڑ سے لگائی ہوئی تھی۔ اتنے میں میرے ایک ساتھی نےمجھے کندھے سے کھینچا اور ہم فوراً وہاں سے فرار ہو گئے۔ اگلے دن میں نے اخبار دیکھا، کئی تصویریں تھیں مرنے والوں کی، زخموں سے چور لوگوں کی، اس تباہ و برباد لابی کی۔ مجھے ان کی زندگی یا موت کی تفصیلات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں اخبار کا صفحہ پلٹنے ہی والا تھا کہ میری نظریں فیروزہ کی تصویر پہ جا کر رک گئیں، تصویرکی پیشانی، آنکھیں، لب ہل رہےتھے۔ میں اب کس طرح فیروزہ سے بات کر سکتا تھا؟ میراسانس رکنے لگا اور دل پھٹنے لگا تھا لیکن میں کسی کو اس بارے میں بتا نہیں سکتا تھا۔ میرے ساتھی مجھےبزدل اور کمزور سمجھیں گے۔ میں باتھ روم میں جا کر بہت دیر روتا رہا۔ کیا وہ ٹانگوں کو دھڑ سے لگائے تکلیف سے کراہتی ہوئی فیروزہ تھی؟ اس تصویر نے میرے ذہن میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔ میں خود سے الجھتا رہتا۔ میں نے شاید فیروزہ کو ہمیشہ کے لئے توڑ دیا تھا۔ صرف ایک فیروزہ ہی کو نہیں اور پتا نہیں کس کس کو۔ لیکن یہ تو محض اتفاقی حادثات تھے میرے قابو سے باہر۔ میں گوریلا یونٹ میں شامل رہا لیکن میری لڑائی کی اہلیت آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھی یہاں تک کہ اس آخری حملے میں میں کچھ بھی نہ کر سکا اور اپنی ٹانگ پہ گولی کا شکار ہو گیا۔

آج میں پھر ٹوٹا ہوا ہوں۔ اب میں واپس جانا چاہتا ہوں، اس زندگی میں جہاں میرے ماں باپ میرے بہن بھائی میرے دوست، میرا کاروبار ہو اور جہاں فیرروزہ بھی مجھے کبھی کبھار نظر آجائے۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ اس بندوق تانے سپاہی کو گلے لگا کر اپنے دل کا حال بتاؤں۔ کاش میں کسی طرح اپنا قرض چکادوں۔ میں جنت کمانے کے لئے الشباب کا رکن بنا تھا لیکن فیروزہ کے ساتھ میں نے جو کیا اب میں جہنم کا حقدار ہوں۔ جہنم کو قبول کر کے مجھےایک عجب سکوں کیوں مل رہاہے!‘

عادل نے پھر آنکھیں کھولیں اور سپاہی کو دیکھ کر مسکرایا۔ سپاہی نے پانی کی بوتل نکالی اور عادل کے بالکل پاس آ کر جھک گیا لیکن عادل کے لبوں نے ہلنے سے انکار کردیا۔ عادل کو پتا تھا کہ اب اگر اس کی آنکھوں کو پلکوں نے ڈھانپ لیا تو وہ ان کو دوبارہ نہیں کھول پائے گا۔ اس نے غور سے دیکھا۔ اسے بندوق
نظر نہیں آئی اور نہ ہی کوئی سپاہی وہاں موجود تھا۔ کیا وہ کوچ کر چکا تھا اور اگر وہ زندہ تھا تو جو چند لمحے بچے تھے وہ ان کو بھر پور طریقے سے جینا چاہتا تھا اپنی مرضی سے نہ کہ الشباب کی مرضی سے، اپنے لئے، اپنے ماں باپ اور بہن بھایؤں کے لئے، فیروزہ کے لئے۔

عادل کو آوازیں آ رہی تھیں ہلکی ہلکی سی۔ کیا یہ سپاہیوں کی آوازیں تھیں جو قریب ہی کہیں کھڑے ہوئے باتیں کر رہےتھے؟ کیا یہ فرشتوں کی پھڑپھڑاہٹ تھی جو اس کو لے جانے کے لئے آرہے تھے؟ کیا یہ اس کے گھر والوں کی صدائیں تھیں جو اس کو واپس دنیا میں بلا رہے تھے؟ کیا یہ ان روحوں کی سرسراہٹ تھی جن کو اس نے وقت سے پہلے ہی تن سے الگ کردیا تھا؟ کیا وہ فیروزہ کی انتہائی نحیف سی چیِخ تھی؟

Advertisements
julia rana solicitors london

’فیروزہ میں تمہارے پاس آرہا ہوں! نہیں شاید میں ہمیشہ کے لئے تم سے دور جا رہا ہوں!‘

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply