بے وقوفی یا احتیاط۔۔بشارت حمید

ہماری روزمرہ زندگی میں احتیاط اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ایک طرح کی بے وقوفی تصور کی جاتی ہے اور جو کوئی اس موضوع پر بات کرے یا خود اختیار کرے اسے ہم وہمی سمجھتے ہیں اور اس پر ہنستے ہیں کہ کتنا بزدل اور ڈرپوک بندہ ہے۔
گاڑی کی سیٹ بیلٹ لگانا ہم ایک طرح کی توہین سمجھتے ہیں اور بہت مجبوری کے ساتھ صرف موٹر وے پر لگاتے ہیں تاکہ پولیس کے جرمانے سے بچ سکیں اور کئی حضرات تو پولیس کی گاڑی دیکھ کر بیلٹ پکڑ کر پیٹ پر رکھ لیتے ہیں اور آگے جا کر پھر واپس چھوڑ دیتے ہیں جیسے بیلٹ لگانا پولیس پر احسان کرنا ہو۔ اتنی عقل سینس نہیں کہ یہ میری اپنی جان کی حفاظت کے لئے بنایا گیا ہے۔
کئی زیادہ تجربہ کار ڈرائیور حضرات اس زعم سے باہر نہیں نکلتے کہ میری ڈرائیونگ بہت اچھی ہے اس لئے میرا ایکسیڈنٹ نہیں ہو گا لہذا مجھے بیلٹ لگانے کی کیا ضرورت۔۔۔ بھائی تم بہت اچھے ڈرائیور ہو۔۔۔ مان لیا ۔۔۔ لیکن گاڑی تو تم نے ہر قسم کے ڈرائیورز کے درمیان سڑک پر ہی چلانی ہے۔۔۔ تو اگر کوئی اناڑی اپنی گاڑی تمہاری گاڑی میں ٹھوک دے تو پھر۔۔۔
اسی طرح موٹرسائیکل سوار حضرات کا معاملہ ہیلمٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ساتھ لٹکا کر بائیک چلائیں گے سر پر نہیں رکھنا۔ ہاں جہاں پولیس والا نظر آیا تو اسے دکھانے کے لئے اوڑھ لیا اور آگے جا کر پھر اتار دیا یا پیٹرول پمپ پر حکومتی احکام کے مطابق پٹرول خریدنے کے لئے ساتھ رکھ لیا۔
اگر دیکھا جائے تو انسانی زندگی کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ آگ ہے۔ یہ کسی بھی جگہ کسی بھی وجہ سے بھڑک سکتی ہے اور آناً فاناً پھیل سکتی ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت کو علم ہی نہیں کہ آگ لگنے کی صورت میں فوری کیا ردعمل دیا جائے اور سب سے پہلے کیا کام کیا جائے۔ اکثر لوگ پانی پھینکنے کے سوا آگ بجھانے کا زیادہ موثر طریقہ جانتے ہی نہیں۔
یہ تو عام عوام کی بات ہے جو زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے۔۔ ہمیں دوران جاب آگ لگنے کی صورت میں آگ پر قابو پانے کے بارے کبھی کبھار ریہرسل کروائی جاتی تھی جس میں اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ بہت بے دلی سے شامل ہوتے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ یار یہ کس فضول کام میں ڈال رہے ہو۔
کچن یا گھر میں گیس کی بو پھیلی ہو تو ہمیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ یہ بہت خطرناک معاملہ ہے۔ کئی گھروں کے باہر سے گزرتے ہوئے گیس کی بو محسوس ہوتی ہے لیکن گھر والے مست ہوئے رہتے ہیں اور اس لیکیج کو درست کروانے کی کوشش بھی نہیں کرتے جو جان و مال کے لئے خطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ گیس کا بل بھی زیادہ ہونے کا سبب ہے۔
سلنڈر سے گیس لیک ہوتی رہے ہمیں پرواہ بھی نہیں ہوتی حالانکہ ایل پی جی زیادہ بھاری گیس ہے جو لیکیج والی جگہ کے قریب ہی اپنا سرکل بنائے رہتی ہے اور زیادہ خطرناک ہے۔ اوپر سے جو چھوٹے چولہے والے سلنڈر بازار میں دستیاب ہیں انکی چادر بہت ہلکی ہوتی ہے اور چولہا ان کے بالکل اوپر کسا ہوتا ہے۔ ایسے چولہے کو استعمال کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی فیتے والے بم کے فیتے کو آگ لگا دی جائے جو گرم ہو کر کسی بھی وقت پھٹ جائے گا۔ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ چولہے اور سلنڈر کے بیچ لازمی مناسب فاصلہ ہونا چاہیئے۔
اگر ہم مشاہدہ کریں تو ہماری زندگیوں میں احتیاطی تدابیر یہ دو ہی نظر آئیں گی۔۔
نمبر 1 “کچھ نئیں ہوندا” اور نمبر 2 “اللہ دے سپرد” بس انکے سوا ہم کچھ نہیں جانتے۔
ایک صحابی اپنی سواری اونٹ پر سوار ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اونٹ کو کھلا چھوڑ دیا۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اونٹ کس لئے کھلا چھوڑ دیا۔۔ کہنے لگے کہ اللہ کے بھروسے اور توکل پر چھوڑا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ طریقہ درست نہیں۔۔ پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر اللہ کے سپرد کرو۔۔۔ یعنی پہلے میسر اسباب اختیار کرو اور پھر نتیجہ اللہ پر چھوڑو۔
ہمیں بحیثیت مجموعی اپنے لائف سٹائل میں تعلیم و تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply