افغانستان کے نومولود خیر خواہ۔۔آصف محمود

امریکہ نے جس انداز سے بگرام ائیر فیلڈ خالی کیا ہے ، اس میں جتنی بھی جنگی حکمت چھپی ہو ، لوک داستانوں میں اس کا عنوان ندامت ہی ہو گا۔ عالم یہ ہے کہ خود افغان کمانڈر شکوہ کناں ہیں کہ اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے اور پینٹا گون کے ترجما ن ، جان کربی کو وضاحتیں دینا پڑ رہی ہیں کہ اے میری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے ، ایسی باتیں کیا نہ کرو۔ افغانستان کی سرکاری زبانیں پشتو اور داری ہیں ، مجھے دونوں نہیں آتیں ، علاقائی سطح پر ازبک ، ترکمن ، نورستانی اور آرگی بولی جاتی ہیں اور یہ سب بھی میرے لیے اجنبی ہیں ۔ لیکن قبائلی نفسیات کے پیش نظر یہ کچھ بعید نہیں کہ ان میں کسی ز بان کا کوئی شاعر کسی روز ترنگ میں آ کر مصرعہ اٹھا دے کہ ’جس دھج سے کوئی بگرام سے گیا وہ ’’ شان‘‘ سلامت رہتی ہے‘۔ بگرام اب زلف یار ہے جس کے قصے لکھے جا رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس سے بد مزہ ہو رہے ہیں۔ بد مزہ کیا ہو رہے ہیں، یوں سمجھیے دل پر ہی لے گئے ہیں۔عالم اضطراب میں ان کے جواب آں غزل کا نام خیر خواہی ہے اور احباب اب افغانستان کے نومولود خیر خواہ ہیں اور وہ بھی بقلم خود۔چنانچہ اب وہ حساب ز یاں کے دفتر کھول بیٹھے ہیں اور ہر راہگیر سے کہتے ہیں لالے کی جان بگرام میں کیا رکھا ہے یہ دیکھو اس جنگ میں تو صرف افغانستان کی مائیں ہاری ہیں۔ جنگ ایک المیہ ہوتا ہے اور افغان کی ماں بیٹے کو روئے یا امریکی فوجی کی ، روتی ماں ہر صورت میں درد کا عنوان ہوتی ہے ۔نومولود خیر خواہوں کا معاملہ مگر الگ ہے۔ اس جنگ کے دو عشروں میں انہیں ایک دن کے ایک لمحے میں روتی مائوں کا درد یاد نہیں آیا۔ یہاں ڈرون حملے ہوئے اور اس انداز سے ہوئے کہ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے ڈینئیل بے مین نے لکھا کہ ان حملوں میں مارے جانے والوں میں سے 90 فیصد سے زیادہ عام شہری ہیں۔ یہاں ایسے ایسے معصوم بچے کاٹ کر پھینک دیے گئے جن کے ہونٹوں سے ابھی ماں کے دودھ کی خوشبو جدا نہیں ہوئی تھی ، یہاں جنازوں پر حملے ہوئے ، گھروں پر ہوئے ، کھیلتے ہوئے بچوں پر میزائل مارے گئے۔ حقوق انسانی کی معروف امریکی کارکن کیتھی کیلی نے ( جن کا نام نوبل انعام کے لیے بھی تجویز کیا گیا تھا) لکھا کہ بچوں نے ڈرون کے ڈر سے کھیلنا چھوڑ دیا۔ اقوام متحدہ کا چارٹر ، جنیوا کنونشن ، ہیگ ریزولیوشن ، حقوق انسانی کے عالمی اعلامیے سمیت انٹر نیشنل لاء کے کتنی ضابطے پامال ہو گئے لیکن یہ حضرات لاتعلق رہے۔ انہوں نے ایک دن برائے وزن بیت بھی اس سارے عمل کی مذمت نہیں کی۔ یہاں ’ مرسنریز‘ کا استعمال کیا گیا اور ان سے جنگی جرائم کرائے گئے۔افغانوں کو قتل کیا گیا اور مقتولین کے سر کاٹے گئے اور کاٹے گئے ان سروں کی ٹرافیاں بنائی گئیں۔ جرمن روززنامے’’ در سپیگل‘‘ اور امریکی میگزین’رولنگ سٹون‘نے امریکی فوجی اہلکاروں کی تصاویر بھی شائع کر دیں،جن میں وہ مقتول افغانوں کی لاشوں کے پاس فاتح کے طور پر کھڑے ہیں جن کے سر کاٹے جا چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ فوجی ان سروں کی ٹرافیاں بناتے رہے، جیسے شکاری ہرن کا شکار کر کے ان کی ٹرافیاں بناتے ہیں۔( بحوالہ ایشین ٹریبیون۔ یو ایس وار کرائمز ان افغانستان ، 25 اپریل 2011)۔ ایشین ٹریبیون کی اسی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تعینات ’’ ففتھ اسٹرائکر برگیڈ‘‘کے تھرڈ پلاٹون کی ’ براوو کمپنی‘‘ کے ایک فوجی کارپرل جرمی مارلوک نے ایک پندرہ سالہ نہتے افغان لڑکے گل مدین کو پہلے بلا وجہ بے گناہ قتل کیا اور پھر یاد گار کے طور پر اس کی انگلی کاٹ کر اپنے پاس محفوظ کر لی ۔دی گارجین میں 9 دسمبر 2010 کو کرس مک گریل کی ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ جرمی مارلوک کا موقف یہ ہے کہ اس نے یہ قتل تفریح کے طور پر کیا ہے۔ افغانستان میں مائوں کے بچے تفریح کے طور پر قتل کیے جاتے رہے اور ان کے اعضاء کاٹ کر ان کے سووینیئر اور ٹرافیاں بنائی جاتی رہیں لیکن احباب کو افغان مائوں کے آنسو نظر نہ آئے۔وہ سارا قتل عام دیکھتے رہے ا ور ایک کونے میں دہی کے ساتھ کلچہ کھاتے رہے۔ ( دہی اور کلچے کو موقع کی نزاکت کے اعتبار سے فاسٹ فوڈ اور وغیرہ وغیرہ بھی سمجھا جا سکتا ہے)۔اس جنگ میں 47 ہزار افغان شہری مارے گئے ۔ اسی لاکھ کے قریب بے گھر ہوئے۔ اس سارے المیے پر احباب نے کبھی ایک لفظ بھی لکھا ہو تو بتائیے۔ یہ کبھی اتنا سا مطالبہ بھی نہ کر سکے کہ انٹر نیشنل لاء نے جنگ لڑنے اصول اور ضابطے بیان کر دیے ہیں ان کا خیال رکھا جائے ۔ دو عشروں پر محیط اس جنگ میں انٹر نیشنل لاء کی دھجیاں اڑا دی گئیں لیکن یہ حضرات اس رویے کی مذمت میں دو فقرے نہ لکھ سکے۔مائیں اپنے جوان بیٹوں کی لاشوں پر روتی رہیں لیکن یہ بے نیاز رہے، حتی کہ خود امریکہ میں اہل فکر و دانش نے تنقیدی آواز بلند کی لیکن یہ احباب خشک ندی میں رکھے بنجر پتھر کی طرح لاتعلق پڑے رہے۔ اب اچانک جب غیر ملکی افواج کا انخلاء ہوا اور بگرام ایر فیلڈ کو راتوں رات افغان کمانڈروں کو بتائے بغیر خاموشی سے خالی کر دیا گیا تو افغانستان کے یہ نومولود خیر خواہ سر میں خاک ڈالے سمجھانے آ گئے ہیں کہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ، یہ جنگ تمہاری مائیں ہاری ہیں جن کے بیٹے مارے گئے۔ جان کی امان ملے تو کوئی ان سے یہ پوچھے کہ جب ان مائوں کے بیٹے مارے جا رہے تھے ، جب انٹر نیشنل لاء کو پامال کیا جا رہا تھا ، جب کسٹمری انٹر نیشنل لاء کو روندا جا رہا تھا ، جب مرسنریز کنونشن کی دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں ، جب انٹر نیشنل ہیو مینیٹیرین لاء کے تمام کسٹمری رولز ادھیڑے جا رہے تھے ،جب جنیوا کنونش اور اس کے ایڈیشنل پروٹوکول کے لفظوں کو لہو کے چھینٹوں سے دھندلا یا جا رہا تھا اس وقت آپ کہاں تھے؟آپ کا صابن سلو ہے کیا؟ خیرابھی تو بات شروع ہوئی ہے ۔ فراز کی طرح آئیے ہم بھی ’ ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں‘۔ یا پھر فیض ؔصاحب سے سن لیتے ہیں: خواب کتنے تری شہ راہوں میں سنگسار ہوئے بلا کشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا’’ جو مجھ پہ گزری مت اس سے کہو، ہوا سو ہوا مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر ’’لہو کے داغ تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا ہم تو مجبور وفا ہیں مگر اے جان جہاں اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے ہمارا کیا ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply