ہست اور نیست۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(ایک)
پس منظر

سانپ کے ڈسنے سے جب آنند نیلا پڑ گیا، تو
بھکشوؤں نے
ماتمی چادر سے اس کو ڈھک دیا تھا
پھر یکا یک اُس نے آنکھیں کھول دیں تھیں
اور واپس آ گیا تھا
زندہ لوگوں کے جہاں میں
معجزہ تھا
سارے بھکشو
سوُتروں کا جاپ کرنے لگ گئے تھے۔
(یوں لکھا ہے سانگواں برلاپؔ نے’’بُدھّآکھشی‘‘ میں)

(دو)

کچھ دنوں کے بعد پوچھا بُدھّ نے آنند سے
بھکشو، بتاؤ
موت کیا ہے؟
اس کا کچھ اندازہ ہوا کیا؟

ہاں، تتھا گت
ایک اندھی کھائی تھی نیچے کی جانب
جس میں سب ذی روح گرتے جا رہے تھے
کوئی جنّت، یا فرشتے
کوئی دوزخ، یا اسُر، دانَو نہیں تھے٭
صرف اک اندھا، اندھیرا
سرد ، یخ بستہ خلا تھا

ہچکچایا، رُک گیاکچھ دیر کو آنند
بولا
کیا، تتھاگت، جنت و دوزخ کے قصّے
دیوتاؤں، دانوَوں کی ساری باتیں
سیدھے سادے عام لوگوں کے لیے ہیں؟

ہاں،‘‘ تتھا گت نے کہا، ’’یہ سارے قصے
عام جنتا کے لیے ہیں
ان میں سچاّئی کا عنصر کچھ نہیں ہے
ان کا مقصد عام لوگوں کو خدا کے
خوف سے اخلاق کے رستے پہ لانے کا عمل ہے
اس لیے ان کی افادیت سے میں منکر نہیں ہوں

(تین)

چُپ رہا کچھ دیر بھکشو، پھر یکا یک بول اٹھا
جنّت و دوزخ نہیں ہیں ، تو تتھا گت
کیا خدا جیسی کوئی ہستی نہیں ہے؟

ہاں، خدا جیسی کوئی ہستی نہیں ہے
بُدھّ کی آواز میں نرمی تھی، لیکن
گو مگو کی کوئی کیفیت نہیں تھی

کانپ اٹھا۔ دیکھتا ہی رہ گیا آنند بھکشو

پیر و مرشد؟
اس نے استفسار میں آنکھیں اٹھائیں
ایک زخمی، پھڑپھڑاتی سی نظر سے
بُدھّ کو دیکھا جو اطمینان سے
اس کی طرف نظریں اٹھائے دیکھتے تھے

ہاں، کوئی ہستی نہیں ہے
ایک مفروضہ ہے ہستی کا تصور
ہست کیا ہے؟نیست کیا ہے؟
ایسا استفسار ہی بے معنی و مقصد ہے ، بھکشو
ہست کا کوئی تصّور
نیست کے حتمی تصّور کے بِنا ممکن نہیں ہے
اس بڑے آفاق میں سب کچھ ہے، لیکن کچھ نہیں ہے
اربوں کھربوں سورجوں کی
اربوں کھربوں دھرتیوں کی
ہست کا سیدھا تعلق نیست سے ہے
ایشور گر ’’ہست ‘‘ ہے تو ’’نیست ‘‘ بھی ہے
ایشور قدرت ہے، بھکشو
اس لیے میں نے کہا تھا،ایشور ہستی نہیں ہے

منہ کھُلا، آنکھوں میں حیرت اور تجسّس
کہہ نہ پایا کچھ بھی بھکشو

’’تم ابھی نا پختہ سادھک ہو، نہیں سمجھو گے بھکشو‘‘

بدھّ کے ہونٹوں پہ ہلکا سا تبسم مرتعش تھا
۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: بُدھ مت میں یہ خیال عام ہے کہ خلا لا اختتام ہے۔ اور سیّاروں کی گنتی نہیں کی جا سکتی ۔آج کی سائنس بدھ مت کے تلازمۂ افکار سے صدیوں پیچھے ہے۔سوزوکیؔ اور دیگر مفکروں نے ایک کے تصور کے حوالے سے یہ بات واضح کی ہے ، یہ ایک لا اختتام ، کبھی نہ شروع ہونے والا وہ آفاقی پہہّہ ہے جو خلا میں معلق ہے۔ ہندو عقیدے کے بر عکس، جنت اور دوزخ کا کوئی تصور بدھ مت میں نہیں ہے کہ یہ کوئی جگہیں ہیں اور خلا میں کہیں مستقل طور پر آباد دنیائیں ہیں۔ تو یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ روح کو ایک جنم میں بُرے اعمال کی کیا سزا ملتی ہے اور اچھے اعمال کا کیا اجر ملتا ہے؟ کیا اچھی آباد دنیائیں جنتیں ہیں اور بری دھرتیاں (سیارے) دوزخیں ہیں؟۔۔۔سوزوکی کے خیالات سے متاثر ہو کر یہ نظم لکھی گئی۔ اس موضوع پر ایک فلم بھی بن چکی ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply