کس کی جیت ،کس کی ہار۔۔ولی خیام

افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء  کو جہاں ایک طرف طالبان کی جیت قرار دیا جارہا ہے تو دوسری جانب کچھ  حلقے  اس سارے عمل کو افغانستان کی تباہی سے تعبیر کررہے ہیں۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو وہ روز بروز دگر گو ں ہوتی جارہی ہے۔ طویل عرصہ سے طالبان سے برسرپیکار امریکہ اب بظاہر بے بس, لاچار اور رسوا ہوکر افغانستان سے اپنا بوریا بسترا سمیٹ رہا ہے۔

امریکہ طالبان کو اور ان کی حکومت کو ختم کرنے کی نیت سے افغانستان آیا تھا۔ تاہم آج جب کہ امریکہ کی افغانستان سے واپسی ہورہی ہے تو طالبان نہ صرف پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکے ہیں۔ بلکہ افغان حکومت کے لیے شدید خطرہ بھی ہیں۔ طالبان کچھ ہی عرصہ میں تقریباً افغانستان کے ایک چوتهائی حصہ پر قابض ہوچکے ہیں۔ اس دوران بھاگتے ہوئے دشمن کو کچھ نہیں کہا جارہا اور اسے باآسانی بھاگنے دیا جارہا ہے۔ شاید  کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ ۔  ظاہری صورتحال بڑی گھمبیر ہے کابل رجیم کو اس کی دونوں معشوق  ہندوستان اور امریکہ نے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ اور اب امریکہ کی واشنگٹن اور طالبان کی کابل کی جانب زوروشور سے دوڑ جاری ہے۔ اتنے طویل عرصہ, کثیر انویسٹمنٹ اور بھیانک خون خرابے کے بعد بھی امریکہ بظاہر لاحاصل ہی رہا۔ لہذا اسے طالبان کی جیت سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ جیت بھیانک جیت ہے۔

اس جیت کی اصل قیمت ایک عام افغانی سے پوچھو  سے پوچھیں ۔  مسلسل کئی عشروں کی اس جنگ سے اب تک لاکھوں افغان شہید, ہزاروں کی تعداد میں اپاہج اور بے گھر ہوچکے ہیں۔ افغانوں کی یہ دوسری نسل ہے جو کہ امریکہ طالبان جنگ کی نذر ہورہی ہے۔ جبکہ پہلے ہی ان کی ایک نسل امریکہ اور روس کی جنگ کی نذر ہوچکی۔ یہ ایک بہت بڑی قیمت ہے جو کہ ادا کی گئی ہے۔ جبکہ افسوس صد افسوس حالات کے اشارے تیسری افغان نسل کی قربانی کی طرف بھی جارہے ہیں۔ آج افغانستان ناخواندگی, غربت, اور صحت کے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ افغانستان میں ایک بے یقینی کی سی کیفیت ہے۔ چاروں جانب ایک بہت گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔ کچھ نظر آ نہیں رہا کہ کل کیا ہوگا؟ کل کس کا ہوگا؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ کچھ خبر نہیں کسی کو آنے والے پل کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

افغان فخر کے نشے میں چورایک جذباتی قوم ثابت ہوئی ہے۔ جو عمل پہلے کرتی ہے اور سوچتی بعد میں ہے۔ ماضی میں افغان سوویت وار کے دوران جب کوئی مجاہدین سے کہتا کہ آپ امریکا کی لڑائی لڑ رہے ہیں ، تو وہ یہ نہیں مانتے  اور بھڑک جاتے۔ وہ فخریہ طور پر اسے جہاد اور کفر اور اسلام کی جنگ سے تعبیر کرتے۔ عین اسی دوران جب کابل رجیم سے یہ کہا جاتا کہ تم روس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہو۔ اور اپنے ہی ہم وطنوں سے برسرپیکار ہو۔ تو وہ اس کی نفی کرتے اور اسے حق اور باطل کی لڑائی سے تشبیہ دیتے۔ جبکہ آج 40 سالوں کے بعد افغان اب یہ کچھ کچھ مان رہے  ہیں کہ وہ واقعی دوسروں کی جنگ تھی جو ہم سے لڑوائی گئی اور ہمارا استعمال کیا گیا۔ تاہم افغانیوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔اب بھی کم و بیش افغانستان کی وہی صورتحال ہے جو کہ ماضی میں ہواکرتی تھی۔ کابل رجیم اور طالبان دونوں ہی دوسروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اور دوسرے اپنے مقاصد کی تکمیل ان کے ذریعے  سے کررہے ہیں۔ تاہم دونوں فریق ہی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ وہ کسی کے آلہ کار ہیں۔ اور کوئی انھیں ٹشو پیپر کی مانند  استعمال  کررہا ہے۔ کابل رجیم ہو یا پھر طالبان ماسواۓ لباس کے  ذہنی سطح سے دونوں فریق جذباتی ہیں۔ آج افغانیوں کو اپنی غلطی نظر نہیں آرہی شاید  انھیں اس شدید غلطی کا احساس پھر 40 سالوں کے بعد ہوجائے۔ لیکن تب تک تو  بہت دیر ہوچکی ہوگی اور تب کا ماننا نہ ماننے کے برابر ہوگا۔ تب کا احساس،احساس نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ دراصل افغان کا احساس تفاخر اور جذباتی پن ہی اس کی سرزمین کو خون میں لت پت کرنے کا سبب ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ افغانستان مسلسل 40 برسوں سے ایک بین الاقوامی میدان جنگ اور تجربہ گا ہ بنا ہوا ہے۔ کہ جہاں لوگ اپنے آئیڈیاز اور اسلحہ کی جانچ کرتے ہیں کیونکہ افغان جرات اور بہادری میں آندھے ہوکر اپنا خون ہر ایک کو مفت میں پیش کررہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply