ویکسین سے دو سال بعد موت۔۔آغرؔ ندیم سحر

این سی او سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق تقریباً ڈیڑھ کروڑ پاکستانیوں کو ویکسین لگائی جا چکی اور یہ عمل انتہائی تیزی سے جاری ہے۔ہمارے ہاں ایک خاص طبقے کی جانب سے عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لیے ویکسین کے خلاف انتہائی فضول اور من گھڑت قصے اور واقعات سنائے جا رہے ہیں‘ایسے واقعات جنہیں سن کر کورونا خود بھی پریشان ہو رہا ہے کہ وہ کیسی قوم میں پھنس گیا ہے۔پوری دنیا اس وقت کورونا سے نمٹنے کے طریقے سوچ رہی ہے‘ترقی یافتہ قومیں ویکسین کی تیاری میں پیش پیش ہیں مگر حیف صد حیف ہم ہمیشہ کی طرح خود تو کچھ کر نہ سکے اور جن قوموں نے کورونا سے بچاؤ کی ویکسین تیار کی‘ہم ان کا بھی مذاق بنا رہے ہیں۔جب سے ویکسینیشن کا عمل شروع ہوا‘ہمارے ہاں ایک خاص مکتبہ فکر کی جانب سے عوام الناس کو ویکسین سے متنفر کرنے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔کبھی کہا جاتا ہے کہ جو”کورونا ویکسین“ لگوائے گا‘وہ دو سال بعد مر جائے گا اور کبھی کہا جاتا ہے کہ امریکہ ہمارے اندر ایک خاص قسم کی ”چِپ“لگا رہا ہے جس سے وہ پوری دنیا کا کنٹرول سنبھال کے گا اور یوں ہم بھی یورپ کے غلام بن جائیں گے۔المختصر جتنے منہ اتنی باتیں۔

مجھے کچھ دن پہلے ایک محترم دوست جن کا مذہب سے خاصا گہرا لگاؤ ہے(پانچ وقت کے نمازی ہیں‘تبلیغی جماعت میں وقت بھی لگاتے ہیں)سرِراہ ملے اور خاصے پریشان لگے‘میں نے عرض کی کہ محترم خیریت؟‘کہنے لگے کہ ”ندیم صاحب!میں ویکیسن نہیں لگواناچاہتا“۔میں ان جیسے باشعور آدمی سے اس پریشانی کی توقع نہیں کر رہا تھا‘میں نے حیرانی سے پوچھا کہ حضرت آپ ایسے کیوں کرنا چاہتے ہیں،”بولے جو بھی ویکسین لگائے گا،دو سال بعد مر جائے گا“۔میں نے کہا بھائی یہ بہت اچھی بات ہوئی کیونکہ مومن تو کبھی موت سے نہیں گبھراتا کیونکہ مومن کے لیے موت تو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا ایک بہانہ ہے۔خیرایک گھنٹہ بحث کے بعد ان کی یہ غلط فہمی دور کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ دو سال بعد مرنے والے بات محض افواہ ہے‘آپ ویکیسن نہیں لگوائیں گے تو کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ آپ دو سال زندہ رہیں گے؟۔جب ان کے پاس ویکیسن کو رد کرنے کی یہ اہم ترین وجہ ختم ہو گئی تو دوبارہ گویا ہوئے،”حضرت یہ یہودیوں کی سازش ہے‘وہ دنیا سے مسلمانوں کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں“۔میں ان سے دوبارہ مخاطب ہوا کہ محترم دنیا میں مسلمانوں سے زیادہ تو یہودیوں اور عیسائیوں نے ویکسین لگوائی ہے‘تو کیا دیگر مذاہب کے لوگ اس سازش کا خود بھی شکار ہو گئے؟“۔خیر یہ پریشانی بھی کسی حد تک ختم ہوئی تو اس محترم دوست نے ایک تیسری پریشانی بھی بتا دی۔کہنے لگے”ندیم صاحب!میں ویکسین لگوا تو لوں لیکن میں یہودیوں اور مغربی ممالک کی غلامی نہیں کرنا چاہتا“۔میں نے اس پر زوردار قہقہ لگایا اور اس محترم دوست سے پوچھا کہ ”جناب کیا آپ پہلے آزاد ہیں‘مغربی ترقی کے ثمرات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے بعد غلامی سے ڈرنے والے سوالات ہمیں زیب نہیں دیتے“۔اس آخری پریشانی پر خوب بحث ہوئی اورمیں انہیں کسی حد تک قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا مگر مجھے پورا یقین ہے کہ وہ ابھی بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ ویکسین محض یہودی سازش ہے لہٰذا ہمیں اس سازش کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔

قارئین یہ محض ایک واقعہ ہے مگر آپ یقین جانیں پاکستان کی پچاس فیصد عوام ابھی تک اس الجھن کا شکار ہے اور یہ الجھن پیدا کرنے والوں میں وہ طبقہ پیش پیش ہے جسے خدا سے زیادہ محبت تو ہے مگر موت کے ڈر کی وجہ سے ویکسین نہیں لگوانا چاہتا۔ہم کیسی قوم ہیں کہ پہلے کہتے تھے کورونا یہودی سازش ہے اور اب کہتے ہیں ویکسین بھی یہودی سازش ہے۔پہلے کورونا سے ڈرتے تھے کہ کہیں مر نہ جائیں‘ان ویکسین سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ویکسین بھی ہمیں قبل از وقت مرگِ ناگہانی کا شکار نہ کر دے۔آپ تاریخ کا مطالعہ کریں‘جب بھی کسی ملک پر وبا نے حملہ کیا‘اس سے بچاؤ کی جو ادویات تیار ہوئیں‘ان کے بارے ہمیشہ عوام الناس کشمکش کا شکار رہے لیکن کورونا کے بعد اس کئے بچاؤ کی ویکسین نے تو اخیر کر دی۔گورنمنٹ اور میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اگر بروقت ویکسین نہ لگائی گئی تو ہم کسی طرح بھی نارمل زندگی کی طرف نہیں بڑھ سکتے‘لاک ڈون سے بچاؤ اور اداروں کو دوبارہ سے اصل حالت کی طرف لانے کا واحد ذریعہ کورونا ویکسین ہے‘اس وقت حکومت فری ویکسینیشن کر رہی ہے اور اسرائیل سمیت دنیا کے تقریباً تمام مغربی ممالک ویکسینیشن کے عمل سے گزر چکے ہیں۔ہمارا ہمسائیہ ملک انڈیا میں تقریباً پچاس فیصد تک عوام ویکسین لگوا چکی اور ہماری چوبیس کروڑ کی آبادی ہے لیکن محض ڈیڑھ کروڑ لوگ ابھی تک ویکیسن لگوا چکے۔کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے؟۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت آج فری ویکسین لگانا چھوڑ دے،دوسرے دن یہ عوام پیسے دے کرویکسین لگوانا شروع ہو جائے گی۔مسئلہ صرف یہی ہے کہ گورنمنٹ فری لگا رہی ہے اور یہ قوم فری میں ملی چیزوں کی قدر نہیں کرتی۔ میرے سامنے مختلف ممالک کی تفصیل پڑی ہے اور میں واقعی یہ جان کر حیران ہوا ہوں کہ ویکسین لگوانے والے دوسوبارہ (۲۱۲)ممالک میں پاکستان بہت پیچھے کھڑا ہے۔یعنی مغربی ممالک زیادہ تر چالیس فیصد عوام کو ویکسین لگا چکے جبکہ تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان ایک اشاریہ چھے فیصد پہ کھڑا ہے۔ہمارے ہاں یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل نے ویکسین نہیں لگوائی لہٰذا یہ اسرائیل کی سازش ہے حالانکہ اسرائیل میں انچاس فیصد لوگ ویکسین لگوا چکے۔دوستو! ہم انتہائی نازک موڑ سے گزر رہے ہیں‘اسد عمر نے بیان بھی دے دیا کہ جولائی کے وسط میں کورونا کی چوتھی لہر آ سکتی ہے لہٰذا اس نازک وقت میں حکومت کا ساتھ دیں‘ویکسین کے بارے سنی سنائی کہانیوں پر کان دھرنے کی بجائے کورونا سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا۔ویکسین لازمی لگوائیں‘دو سال بعد کون زندہ رہتا ہے‘کون مرتا ہے یہ فیصلہ تو خدا کے پاس ہے۔ہم ایک طرف بطور مسلمان موت و زندگی کا مالک خدا کو سمجھتے ہیں اور دوسری طرف ویکسین نہیں لگوا رہے کہ کہیں مر نہ جائیں۔ہمیں ویکسین کے بارے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونا ہے تاکہ ہم جلد از جلد ویکسینیشن کے عمل سے گزر سکیں اور زندگی کو دوبازہ سے انجوائے کر سکیں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply