دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا .۔ اظہر سید

اس دور میں اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور عدلیہ ادارے نہیں بلکہ شخصیات ہیں اور ایک دوسرے کے سہارے کھڑے ہیں ۔ایک گرا سب گریں گے ۔مجبوری کا یہ سفر تمام ہونا ہی ہے کب تک ایک دوسرے کے سہارے تلخ اور زہرناک حقائق سے بچا پائیں گے۔ خودغرضی اور بے حسی کے چادر اوڑے شخصیات ملکی سلامتی کے پیچھے چھپی بیٹھی ہیں لیکن ملکی سلامتی کا جو تماشا ان شخصیات نے لگایا ہے کوئی معجزہ ہی ریاست کو پیش آئندہ مشکلات سے بچا سکتا ہے ۔

مری میں دختران مری کے نام سے پردے کے متعلق بل بورڈ لگا دیے  ہیں ۔لگتا ہے افغان طالبان  کابل نہیں مری آرہے ہیں اور انکے لئے خیر مقدمی بینرز لگانے کا حکم اسی آمد کے پیش نظر دیا گیا ہے ۔

جنرل ضیا الحق کے دور سے ریاست کو مذہب اور انتہا پسندی کا جو تڑکا لگایا جا رہا ہے عالمی برادری اب اس سالن سے بدمزہ ہو چکی ہے لیکن ریاستی کک ہیں کہ ایک ہی ڈش پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں ۔اسلام کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا دور ختم ہو چکا ہے لیکن شتر مرغ ریت سے گردن نکالنے کو تیار ہی نہیں ۔ریاست کو معیشت نے بچانا ہے اور شتر مرغوں کو اسلام نے ۔ شتر مرغ جان لیں کہ انہیں اب اسلام بھی نہیں بچا پائے گا کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ۔

ریاست اب دو کشتیوں کی سواری سے نہیں بچائی جا سکتی اور نہ اپنی جان دو کشتیوں کی سواری سے بچ پائے گی ۔پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے پاس چین کی صورت میں دوسری آپشن موجود ہے ۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ کسی ایک کیمپ کا انتخاب کر لیا جائے کہ امریکیوں کے پاس بیٹھ کر میٹھی جاپی کرنا ہے یا چینیوں کے پاؤں دبانا ہیں ۔اب یہ ممکن نہیں کہ امریکی نکے شہزادہ سلمان کے پیسے مانگنے پر چینیوں سے پیسے لے کر دیں اور چینیوں سے دوبارہ پیسے مانگنے پر چینی سوال کریں تو بھاگ کر امریکی کیمپ میں چلے جائیں ۔

اب یہ کھیل نہیں کھیلا جا سکتا کہ بھونکے اینکرز کو چینیوں پر چھوڑ دیں کہ پاکستانی لڑکیوں سے شادی کر کے انکے اعضا فروخت کر دیتے ہیں اور رائے عامہ چینیوں کے خلاف تیار کریں ۔ اب یہ ممکن نہیں کور کمانڈر کوئٹہ کے امریکہ میں کاروبار کرنے والے بچے سی پیک کے خلاف ٹویٹ کریں اور یہ کور کمانڈر ریٹائرمنٹ کے بعد سی پیک اتھارٹی کا سربراہ بنا دیا جائے۔اب یہ ممکن نہیں کہ کسی پالتو کو ڈی چوک پر بٹھا کر سی پیک کی سرمایہ کاری کا مہنگے چینی قرضے کہا جائے اور قوم کو گمراہ کیا جائے کہ قومیں سڑکوں کی تعمیر سے نہیں بنتیں ۔

اس ریاست کو بچانا ہے ،وفاق کو مستحکم کرنا ہے تو بلوچستان کے متعلق پالیسی تبدیل کرنا ہی ہو گی ۔ بلوچوں سے معافی مانگنا ہی ہو گی ۔ملک بچانا ہے تو انتہا پسندی سے جان چھڑانا ہی پڑے گی ۔اس پالیسی کو سات سلام بھیجنے کے سوا کوئی چارہ نہیں جس کے تحت قبائلی علاقہ جات اور ملک کے دیگر علاقوں میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جاتا ہے ۔
ملک بچانا ہے تو منظور پشتین، علی وزیر اور محسن ڈاور سے معافی منگوانے کی بجائے ان سے معافی مانگ کر انہیں گلے لگانا ہی ہو گا ۔
دو راستے ہیں یا تو مذہب کے زریعے پختون نیشنلزم کا راستہ روکا جائے یا اسی نیشنلزم کی مدد سے انتہا پسندی کو چیلنج کیا جائے ۔

مذہبی انتہا پسندی کے پیچھے پناہ لیں گے تو مغرب آپ کو نہیں چھوڑے گا ۔امریکی اور مغربی غصے کی جھلکیاں یورپین یونین کی پابندیوں، امریکیوں اور برطانیہ والوں کی حالیہ دنوں کی قانون سازی سے واضح ہو رہی ہیں ۔

پالیسوں کا ازسر نو جائزہ لیں ۔غلطیوں کا اعتراف کریں اور پیچھے ہٹ جائیں ۔بہت زیادہ محاذ کھول لئے ہیں ۔چاروں صوبوں میں ادارے کی عزت اور وقار میں کمی ہوئی ہے ۔شخصیات اپنے بچاؤ کیلئے ادارے کو استعمال کر رہی ہیں ۔ سول اداروں میں شمولیت، میڈیا میں مداخلت اور عدالیہ کے فیصلوں سمیت ہر چیز کا بوجھ ادارے پر آرہا ہے ۔ہر طرح کے بوجھ سے نجات حاصل کرنا ملک کے بہترین مفاد میں ہے ۔شخصیات متاثر ہوتی ہیں ہونے دیں ۔غلط فیصلوں پر سزا دینے سے بلوچوں،پختونوں اور پنجابیوں یا سندھیوں کی اشک شوئی ہوتی ہے تو شخصیات کو سزا دے دیں ۔ملک اور ادارے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مری میں پردے کے بینرز لگانے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے ۔چینی کیمپ میں سو جوتے کھا کر جانے سے پہلے بہتر ہے ابھی چلے جائیں ۔ ووٹ کو عزت دینا ہی پڑے گی کہ معیشت ہی سب کچھ ہے ۔ ووٹ کو عزت دے دیں ۔قانون اور آئین پر عملدرآمد ،ازاد عدلیہ، میڈیا اور با اختیار پارلیمنٹ ہی مشکلات سے بچا سکتی ہے ۔خود سے یہ فیصلہ کر لیں شائد نواز شریف این آر او دے دے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply