جنت والی ماں کی جنت۔۔مہر ساجد شاد

وہ مائیں جن کے قدموں کے نیچے جنت ہے انہیں بھی روزِ  قیامت اپنا حساب دینا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد کتنی ہی مائیں اپنے معاملات میں کوتاہی سے زندگی گزار رہی ہیں۔

نجمہ کی شادی کو تقریباً ایک سال ہوا تھا، سہیل کیساتھ اسکی زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی۔
ایک دن نجمہ کی ماں اسے ملنے آئی اور اس نے بات کا ایسا بتنگڑ بنایا کہ دونوں سمدھنیں ایک بار پھر لڑیں اور اب کی بار نجمہ کی ماں نے اسے بھی ایسا جذباتی کر دیا کہ وہ ماں کیساتھ میکے چلی آئی۔

نجمہ حاملہ تھی، سہیل نے اسے فون پر بہت سمجھایا کہ تمہیں تو میری ماں نے کچھ نہیں کہا، تم کیوں چلی گئی، دونوں ماؤں کی لڑائی ہے یہ، دونوں کے درمیان رکھ کر ہی صلح میں بدلی جا سکتی ہے۔

نجمہ اس وقت ماں کے زیر اثر تھی اسے صرف اپنی ماں کی بےعزتی ہی نظر آ رہی تھی، وہ نہ مانی ، حالانکہ اسکی ماں نے تو جو کچھ اپنی سمدھن کو بول دیا تھا نجمہ کو اس پر زیادہ شرمندہ ہونا چاہیے تھا۔

سہیل بھی بے بس ہو گیا۔ دونوں طرف ماں تھی اور دونوں نے انا کی گٹھڑی میں اپنی اپنی ضد باندھ رکھی تھی، کوئی اپنی اس بدبودار گٹھڑی کو خود سے علیحدہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔

نجمہ نے بیٹی کو جنم دیا لیکن حالات ایسے بن چکے تھے کہ اس کے سسرال سے کوئی نہیں آیا، سہیل بھی بیٹی کو دیکھنے نہیں آیا۔
کچھ عرصہ اور گزر گیا تو سہیل کی ماں اچانک ہارٹ اٹیک سے چل بسی جبکہ اسکا باپ تو اسکی شادی سے بھی پہلے فوت ہو چکا تھا۔

نجمہ کی ماں   جیت گئی، اسکی انا نے ضد کی گٹھڑی کو اور اونچا اٹھا لیا، نہ وہ خود گئی نہ ہی نجمہ سمیت گھر سے کسی کو فوتیدگی پر بھی جانے دیا۔

یہ ضد کی افسوسناک صورتحال تھی، صدمے سے دوچار سہیل اور اسکا بھائی اور بھابھی اس سفاکی کی توقع نہ رکھتے تھے کہ کوئی اپنی لڑائی اور ضد دوسرے کے فوت ہو جانے پر بھی نہ چھوڑے۔
کوئی بہو فوتیدگی پر بھی نہ آئے جس کو اسکی ساس نے کبھی طعنہ بھی نہیں دیا تھا۔

سہیل نے سنجیدگی سے نجمہ کو طلاق دینے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا، جبکہ اسکا بھائی اور بھابھی بچی کی ماں کو طلاق دینا ظلم سمجھتے تھے، لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔

کچھ مہینے اور گذرے تو نجمہ کا والد فوت ہو گیا۔
یہ نجمہ کی ماں کی بدزبانی کا ڈر تھا یا انکا اپنا غصہ لیکن سہیل کے گھر سے بھی کوئی اس فوتیدگی میں نہیں گیا۔

اب نجمہ کی بچی دو سال کی ہو چکی تھی، ہماری اماں مرحومہ نے ہمیں یہ کونسلنگ کیس دیا اور ساتھ بتا دیا کہ نجمہ کی ماں کا دل پتھر ہے اس سے بات کرنا فضول ہے نجمہ کو سمجھاؤ اور سہیل کے بھائی بھابھی سے بات کرو۔

مشکل کام تھا لیکن اللہ کو منظور تھا تو آسانیاں مل گئیں۔ دو سال میکے رہنے کے بعد نجمہ کو سمجھ آ گئی تھی کہ میرے دونوں بھائی بہت اچھے ہیں ،بھابھیاں بھی اچھی ہیں لیکن میری ماں نے انکا جینا مشکل کر رکھا ہے ،آخر یہ لوگ بھی ماں کی زیادتیاں کب تک برداشت کریں گے، یقیناً انہوں نے ماں کو چھوڑ جانا ہے۔
اسے یہ بات بھی معلوم ہو چکی تھی کہ اسکا اور اسکی بچی کا مستقبل اپنے خاوند کے گھر میں ہی ہے۔
نجمہ نے فیصلہ کر لیا کہ بس میرا خاوند اور میرا سسرال مجھے واپس قبول کر لیں میں خود چل کر چلی جاؤں گی۔

اُدھر سہیل سے بات ہوئی اس کے زخموں پر مرہم رکھا تو وہ بھی اپنی بیٹی کیلئے بے تاب ہوگیا، اسکے بھائی اور بھابھی سے بات ہوئی تو وہ بھی بالآخر مان گئے کہ ہماری والدہ نے اپنی بہو کو گھر سے نہیں نکالا تھا وہ آ جاتی ہے تو شاید  یہ بھی ہماری والدہ کی طرف سے کسی زیادتی کا ازالہ بن جائے۔
اب سہیل کی ملاقات نجمہ کے بھائیوں سے کروائی کچھ گلے شکووں کے بعد سب اس پر متفق ہوئے کہ بچی کا مستقبل اپنے والدین کے زیر سایہ پرورش پانے میں ہے۔

سہیل اپنی بیٹی اور نجمہ کو لینے گیا حسب توقع ایک یک طرفہ جنگ ہوئی سب نے خاموش رہ کر نجمہ کی ماں کو بولنے دیا ،نجمہ کی ماں نے بددعائیں بھی دیں اور گالی گلوچ بھی کیا لیکن بالآخر نجمہ اپنے گھر واپس آ گئی۔

کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی،
نجمہ کی ماں نے سارا غصہ اپنی بہوؤں پر نکالنا شروع کر دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے بھی ساس کی خدمت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بیٹے البتہ ماں کی کڑوی کسیلی بھی سنتے رہے اور خدمت بھی کرتے رہے۔

ایک سال گزر گیا، نجمہ اور سہیل کو اللہ نے بیٹا دیا اس خوشی کا سن کر بھی نجمہ کی ماں نے بددعائیں اور گالیاں دیں ،اپنے نواسے کو دیکھنے نہیں گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

نجمہ اور سہیل ہمارے پاس اپنے بیٹے کی مٹھائی لے کر آئے تو ان کے ہمراہ دو ماہ کا خوبصورت بیٹا اور ڈھائی سال کی بیٹی تھی، انہوں نے کہا پروفیسر صاحب ہم نے مٹھائی جان بوجھ کر آپ کو نہیں بھجوائی تھی ہم دونوں خود آپکو مٹھائی دینا چاہتے تھے اس لئے دو ماہ بعد آج ہم آپ دونوں کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں، اب ہمیں مشورہ بھی دیں کہ ہم والدہ کے پاس جائیں یا نہ جائیں؟؟
ہم نے گذارش کی،
بالکل جائیں ضرور جائیں
یہ اللہ کا اختیار ہے نہ جانے کب وہ دل کو پھیر دے۔ وہاں ماں جو بھی کہے سُن لیں، بے ادبی آپ کی طرف سے نہ ہو اللہ سے دعا کریں اللہ انکے دل سے انا اور ضد کو نکال دے۔
نجمہ بولی پروفیسر صاحب :
یہ بھی کیسا مرحلہ ہے !
ہم اپنی ماں جس کے پیروں کے نیچے ہماری جنت ہے اس ماں کو جنت کا راستہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply