محمد نصیر زندہ کی منتخب رباعیات

رباعی کہنا تو کجا موزوں شعر کہنا بھی جوئے شیرِ لانے کے مترادف ہے۔ رباعی ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس پر ہاتھ ڈالتے ہوئے بڑے بڑے اساتذہ کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ہم مکالمہ کے قارئین کے لیے رباعی کے استاد شاعر جناب محمد نصیر زندہ کی چند رباعیات شائع کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ مکالمہ کے قارئین زندہ کی استادانہ مہارت اور خیال آفرینی سے محظوظ ہوں گے۔ ادارہ
1: وحشت پہ قبائے زیست تنگ ایسی تھی
دشت اوڑھ لیا میں نے امنگ ایسی تھی
وہ حشر کا رن پڑا میان ِ من و تو
سر کاٹ دیا اپنا یہ جنگ ایسی تھی

2: چہرے وہ کئی تنگ پہن لیتا ہے
آئینہ کبھی سنگ پہن لیتا ہے
میں اس سے باہر جو نکلنا چاہوں
وہ شوخ مرا رنگ پہن لیتا ہے

3: عینک سے حسیں دکھائی دیتا ہے جو
کنکر ہے نگیں دکھائی دیتا ہے جو
منظر یہ مری چشم ِ فسوں گر کا ہے
ہوتا وہ نہیں دکھائی دیتا ہے جو

4: کیا حسن ِ بے مثال پہنا ہوا ہے
گلشن نے مرا جمال پہنا ہوا ہے
اس کی خوشبو سے میری سوچ اگتی ہے
یہ گل نے میرا خیال پہنا ہوا ہے

5: ڈھل جاتے ہیں سنگ بھی گہر کی صورت
ہے ایک یہ بھی دست ِ ہنر کی صورت
اوروں کے لیے دھوپ میں جلتے رہنا
ہوتے ہیں کچھ آدمی شجر کی صورت

6: تصویر ِ حسن کا لبادہ ہے خیال
چشم ِ ساغر میں نور ِ بادہ ہے خیال
دشت ِ امکاں میں اور ہوں عالم پیدا
ارض ِ تخلیق سے زیادہ ہے خیال

7: رکھو نہ زیادہ ظرف ِ امکانی سے
دریا بھی اچھل جاتا ہے طغیانی سے
دولت نہیں ہوتی ہے سخاوت سے کم
خالی ہے کوئی بحر ُدر افشانی سے؟

8: گر د اُڑ کے مری دیدہ اختر میں پڑی
سخت ابتری افلاک کے لشکر میں پڑی
پوشاک سمندر کی پہن لی میں نے
پھونک ایسی حباب ِ کاسہء سر میں پڑی

9: آئے ہو میاں کھوٹا کھرا دیکھتے جائو
بازار یہ صورتوں بھرا دیکھتے جائو
ہر شخص یہاں آئینہ ہے دوسرے کا
آئینہ در آئینہ ذرا دیکھتے جائو

10: سورج مری کائنات میں آئے تو
کمبخت کہیں مرا پتا پائے تو
افلاک پہن لیں مری تصویر کا رنگ
آئینہ مرے حسن سے ٹکرائے تو

Advertisements
julia rana solicitors

11: سر عظمت ِ کردار سے ہوتا ہے بلند
سر جرات ِ انکار سے ہوتا ہے بلند
یہ طرہ و دستار کا محتاج نہی ں
سردار کا سر دار سے ہوتا ہے بلند
شاعر: محمد نصیر زندہ



Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply