سکون ۔۔۔ احمد رضا بٹ

سکون ! . . .انتہائی معمولی لفظ ، انتہائی غیر معمولی احساس . . .سوچ رہا ہوں کیا یہ سچ ہے کہ انسان زندگی میں جو کچھ بھی کرتا ہے وہ صرف اپنے سکون کی خاطر کرتا ہے ؟اگر سچ ہے تو انسان کس قدر خودغرض ہو سکتا ہے ۔اس بات کا اندازہ لگانا مشکل سے زیادہ خوفناک لگ رہا ہے . . .بڑے بڑے قلندر ، درویش ، صوفی ، سادھوں سے لے کر عام دُنیادار سب سکون کی بات کرتے ہیں . . .
کوئی اس کو اِنر پِیس کہہ کر یوگا میں سانس روکتا دکھائی دیتا ہے،تو کوئی جنگل بَیلوں میں سکون کی تلاش میں تنہائی اختیار کرتا ہے . . .کوئی چرس کے سُوٹے لگا کر اپنے آپ کو سکون پہنچاتا ہے،
تو کوئی کہتا ہے میں اینٹی ڈِپریشن ڈوز لے کر سکون حاصل کرتا ہوں . . .کسی نے کئی کئی سال کی خاموشی اختیار کی اِس سکون کے لیےتو کسی نے ” أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ” کا ذکر بُلند کیا۔۔۔اور کئی بار تو ایسا ہوتا ہے کہ بظاہر مضطرب نظر آنے والے کو ہم کِسی بھی عزیز چیز کے عوض سکون حاصل کرنے کا کوئی نا کوئی حکیمی نُسخہ دے بیٹھے ہیں۔۔۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اُس کا اضطراب ہی اُس کے لیے ایک سکون کی کیفیت ہے۔
اللہ پاک درجات بلند کرے ممتاز مفتی صاحب کے ، آپ لِکھتے ہیں کہ” سیانے کہتے ہیں ، درد حد سے بڑھ جائے تو لذت پیدا ہو جاتی ہے “سوچ یہ رہا ہوں کہ آخر یہ جو کچھ بھی ہے۔۔۔
سکون کی درحقیقت ضرورت کہاں پیش آ گئی انسان کو ؟کیوں کہ اگر صرف دنیاداری کے لحاظ سے بات کی جائے تو بِنا ضرورت بِنا لالچ کے کہاں یہ انسان کچھ کرتا ہے۔۔۔تو اب دنیاداری کے لحاظ سے تو شاید اس کی بہت ساری وجوہات اور ڈیفینیشنز ملتی ہیں،سکون کی ڈیفینیشن یہ بھی ہے کہ بیرونی عناصر ہماری ذات پر اثر انداز نہیں ہو رہے۔ایک قاتل قتل کر کے بھی پُرسکون رہتا ہے کیونکہ بیرونی عوامل اس پر اثر انداز نہیں ہو رہے۔۔۔
اس کے علاوہ، انسان کی خصلت ہے کہ اُسے تبدیلیاں اچھی لگتی ہیں ، یکسانیت پسند نہیں ہوتا انسان۔۔۔ایک تبدیلی سے دوسری تبدیلی میں داخل ہونے کے مابین جو وقفہ انسان اختیار کرتا ہے اس وقفے میں اسے سکون کی ضرورت پڑتی ہو شاید۔۔۔
اب اس وقفے میں سکون کے لیے وہ یوگا کرے ، چرس کے سُوٹے لگائے یا کِسی عقل و فہم رکھنے والے کے مشورے سے سکون کے لئیے کوئی بھی قیمت ادا کرے۔۔۔ یہ اس نے خود طے کرنا ہے۔۔۔انتہائی معقول وجہ کو انتہائی نامعقول انداز میں سوچنے کے بعد جس وجہ کی طرف دماغ گیا وہ عجیب ہےبعض اوقات انسان محبت کی طلب میں محبت کرتا ہے . . . . مگر کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اُسے چاہے جانے کا احساس محبت کرنے پہ مجبور کر دیتا ہے حالانکہ نہ ہی تو اُس کا اپنا ایسا کوئی اِرادہ ہوتا ہے اورنہ ہی وہ محبت افورڈ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔۔۔بالکل اسی طرح کئی بار سکون کی طلب نہ ہوتے ہوئے بھی انسان اپنے ارد گرد پیش آنے والے روزمرہ کے سلسلے کو دیکھتے دیکھتے بِنا ضرورت، بِنا طلب کے سکون سکون کرتا بےسکون ہو جاتا ہے۔۔۔اور اس کے بعد وہ سکون کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔۔۔ جو انسان کو ننگِ آدمیت بھی بنا سکتی ہے اور ولی اللہ بھی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

بات موضوع سے تھوڑی ہٹ جائے گی مگر پِھر بھی کیے دیتا ہوں،اللہ پاک غریق رحمت کرے بابا جی اشفاق احمد ( رحمة الله ) فرماتے ہیں
کسی ایک شخص کے سامنے اپنی عزتِ نفس کو مار لینا عشق مجازی ہے۔۔۔اب بظاہر ایسا شخص انتہائی مُضطرب اور بےسکونی کی کیفیت میں ہونا چاہیے۔۔۔ پر کوئی اس سے پوچھ کر دیکھے . . . . وہ کہے گا کہ جو سکون کوچاءِ جاناں میں کھجل خوار ہونے کا ہے وہ قیصر و کِسریٰ  کے محلات میں نہیں . . .تو اس سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے بھائی کہ سکون کی تعریف سب کی اپنی مرضی ، اپنی کیفیت اور حالات واقعات پہ بیس کر رہی ہوتی ہے . . . .
ہم سب کو نہ تو ایک ہی لاٹھی سے ہانک سکتے ہیں اور نہ ہی سب کو ایک ہی حکیمی نُسخہ شفاء دے سکتا ہے . . .رہی بات یہ کہ سکون کی اصل کوئی ایک مروجہ اور مُستند تعریف کیا ہے؟
تو اِس پہ ابھی ریسرچ جاری ہے۔۔۔جس پر اگلی تحریر میں تبصرہ کرنے کی کوشش کروں گا۔۔۔

Facebook Comments

احمد رضا
آئٹی پروفیشنل

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply