صیہونیت کیا ہے ؟۔۔مشتاق علی شان

عالمی سطح پر جب بھی مظلوم فلسطینیوں پراسرائیل کی صیہونی جارحیت کامسئلہ اجاگر ہوتا ہے ہمارے سماج میں یہود مخالف خیالات کا ایک ایساطوفان برپا ہوتا ہے جس میں بنیادپرستی کے مارے اذہان حقائق سے مزید دور ہوتے چلے جاتے ہیں ۔دوسری جانب ہمیں سرمایہ دار طبقے کی آئیڈیالوجی لبرل ازم کے پرچارکوں سے واسطہ پڑتا ہے جو اسرائیل کی صیہونی ریاست کے ہر ظلم وتجاوز کے لیے عذر لنگ پیش کرنے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں ۔

صہیونیت Zionismکیا ہے ؟ ہم کمیونسٹ اسے کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور ٹھیک اسی طرح ”سام دشمنی “ Antisemitism کی اساس اور اس کاکردارکیا ہے اس کی وضاحت حددرجہ ضروری ٹھہرتی ہے۔صیہونیت کیا ہے ؟اس کا جواب ٹھیک صیہونیت ہی کی طرح دیگرجارح اور بنیاد پرست قوتوں کے پاس نہیں ہے ۔ نہ ہی ان کا یہ منصب ہے اور نہ ہی وہ اس کے اہل ہیں کہ تاریخ کے مادی نقطہ نظر سے اس کی درست تشریح وتوضیح کر سکیں۔

صیہونیت کی اصطلاح یروشلم کے قریب واقع ”صیہون“ نامی مقام سے اخذکی گئی ۔انیسویں صدی کے آخر میں پیدا ہونے والی صیہونیت یہودی بورژوازی ( سرمایہ دارطبقے) کی ایک ایسی رجعتی قوم پرستی کا نظریہ ہے جس کابانی آسٹریا سے تعلق رکھنے والا ایک صحافیاور مفکر تھیوڈور ہرتذل تھا۔ اس نے 1896میں اپنی کتاب ”دیر یودنستات“(یہودی ریاست) میں بیسویں صدی میں خودمختار یہودی ریاست کا تصور دیا۔صیہونیت کا مقصدایک ایسی اسرائیلی ریاست کا قیام تھا جہاں یہود اکثریت میں ہوں نہ کہ اقلیت میں۔ جیسا کہ وہ سینکڑوں سال مختلف ممالک میں جلاوطنی میں رہے۔ تھیوڈور ہرتزل سام دشمنی کوان تمام معاشروں کاایک ابدی پہلو قرار دیتاتھا جہاں یہود اقلیت میں رہ رہے تھے ۔ اس کے بقول ”صرف ان معاشروں سے علیحدگی ہی اس ابدی عقوبت سے خلاصی دے سکتی ہے۔ وہ اگر صرف ہمارے لوگوں کی ضروریات کے لیے کافی زمین کے ٹکڑے پر خود مختاری دے دیں تو باقی ہم خود کر لیں گے ۔“یورپ اور روس وغیرہ میں یہودیوں کے ساتھ رکھے جانے والے ناروا سلوک،ظلم واستبداد ،سام دشمنی اور اخراجی قوم پرست تحریکوں کے مقابل ایک تحریک کے طور پر ابھرنے والی صیہونیت آج اسرائیلی ریاست کے توسیع پسند بورژوا حکمران طبقے کی آئیڈیالوجی ہے ۔

صیہونیت کے حامی اسے مختلف ممالک میں رہنے والی مظلوم یہودی اقلیتوں کو واپس اپنے آبائی وطن میں بسانے کی ایک قومی آزادی کی تحریک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ان کے نزدیک ”یہودی قومیت“ دنیا بھر کے یہودیوں ( خواہ وہ کسی بھی ملک میں رہتے اورکوئی بھی زبان بولتے ہوں ) پر مشتمل ہے ۔جب کہ صیہونیت کے ناقدین کے بموجب یہ استعمار پسندی نسل پرستی ، امتیاز پسندی اور تشدد پر اساس رکھتی ہے جس نے جنگوں کے دوران عربوں کی زمینوں ، املاک سے انھیں محروم کیا ہے اور اپنی توسیع پسندی اور جارحیت کو دوام دیے ہوئے ہے ۔

عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں خاطر خواہ شراکت داری کے ساتھ صیہونیت نے مذہب کی بنیاد پر یہودی قوم پرستی کے خیالات کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا جو بیسویں صدی میں سامراجیت کے عین موافق تھا اور آج بھی ہے ۔گزشتہ صدی میں سرد جنگ کے جلو میں امریکی سامراجیت نے دنیا بھر کے محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کے مقابلے میں صیہونیت کو بھی ایک ” اینٹی کمیونسٹ “ ہتھیار کے طور پر خوب برتا اور اس کی آبیاری کی ۔اس کی تائید 1975 میں اقوام متحدہ کی مجلس عمومی میں سوویت یونین کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد 3379کی منظور ی سے بھی ہوتی ہے، جس میں صیہونیت کو نسل پرستی اور نسلی امتیاز کی ایک قسم قرار دیاگیا ۔اس قرارداد کے مطابق ، برتری کا کوئی بھی نسلی امتیازی نظریہ سائنسی اعتبار سے غلط، اخلاقی طور پرقابل مذمت اور سماجی طور پر ناجائزاور خطرناک ہے۔ اس قرارداد نے فلسطینی مقبوضہ علاقوں(اسرائیل) ، زمبابوے(روڈیشیا) اور جنوبی افریقہ کو نسل پرست حکومتوں کی مثال قرار دیا۔اس قرار داد کی منظوری پر امریکی ترجمان نے شدید تنقید کرتے ہوئے اسے فحش اور اقوام متحدہ کو ایذا پہچانے والی قرارداد کہا۔اقوام متحدہ کی مجلس ِ عمومی میں اس قرار داد کی منظوری کے بعد اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ ” اس بدنام حرکت کو ریاستہائے متحدہ امریکانہ تسلیم کرتا ہے ، نہ اس کی پاسداری کرے گا اور اس پرکبھی موافقت اختیار نہ کرے گا۔۔یہ جھوٹ ہے کہ صہیونیت نسلی تعصب کی ایک قسم ہے۔ یہ ایک بے انتہا واضح حقیقت ہے کہ یہ(صہیونیت) ایسی نہیں۔“صیہونیت اور امریکی سامراج کی گٹھ جوڑ کے لیے یہ ایک مثال کافی ہے ۔

صیہونیت نے اپنے آغاز سے ہی یہ کوشش کی اورکرتی ہے کہ ”یہودی قوم کے فلاح وبہبود“ کے نظریے کی آڑ میں دنیا کے مختلف ممالک سے لیکر اسرائیل تک میں یہ یہودی سرمایہ داروں اور محنت کشوں کے درمیان طبقاتی کشمکش کو کند کرتے ہوئے اسے پسَ ِ پشت ڈال دے ۔ایک رجعتی بورژوا نظریے کے طور پر صیہونیت سب سے پہلے یہودی محنت کشوں اور کچلے ہوئے طبقات سے متصادم ہے ۔اس نے دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے یہودی اور ان ممالک کے دیگر باشندوںبالخصوص محنت کار عوام کے درمیان نفرت ،تصادم اور افتراک کی راہ ہموار کی ۔اس نے ایک ایسی دشمنی کی فضا کو جنم دیا جسے سب سے زیادہ یہودی محنت کشوں اور عام یہودی باشندوں نے بھگتا ۔صیہونیت یہودی محنت کشوں کے مفادات کو یہودی بورژوازی کے مفادات کے تابع کرنے کی ہر کوشش کرتی ہے،یہ یہودی سرمایہ دار طبقے اور محنت کش طبقے کے حقیقی تضاد پر دبیز پردے ڈالنے کی سعی کرتی ہے ۔تمام بورژوا نظریات کی طرح یہ ایک انسان دشمن ،سفاک آئیڈیالوجی ہے جس کی اساس دراصل مذہب نہیں بلکہ سرمایہ داری ہے ۔

اسی طرح صیہونیت کے مقابل ” سام دشمنی“ Antisemitismکابورژوا نظریہ یہود دشمنی کے نام پر ایک اور بورژوا انتہا ہے ۔ سام دشمنی یا ضد ِسامیت سے مراد یہودیوں سے تعصب برتنا یا عداوت رکھنا ہے۔کسی بھی سماج میں اکثریت کا اقلیت کی جانب ایک مخصوص متعصب رویہ حکمران طبقات کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔سو سام دشمنی یورپ،امریکا اور روس وغیرہ میں اسی رویے سے یادگار ہے۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خصیص نظریہ بھی مختلف ممالک میں یہودی محنت کشوں کواپنا نشانہ بناتے ہوئے صیہونیت ہی کو تقویت پہنچاتا ہے ۔صیہونیت جہاں ایک طرف خود کو سام دشمنی کے ردِ عمل کی پیداوار کے طور پر پیش کرتی ہے وہیں یہ دنیا بھر بالخصوص یورپ و امریکا وغیرہ میں خود یا اسرائیلی ریاست پر ہونے والی ہر تنقید کو ”سام دشمنی “ کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے اپنے انسانیت کش جرائم کی پردہ پوشی کرتی ہے ۔

ہم جیسے سماجوں میںجارح اسرئیلی ریاست اور صیہونیت کے خلاف اٹھنے والی اکثر وبیشتر آوازیں اسی بورژواِ یہود مخالف سام دشمن نظریے کی بازگشت ہے جو منطقی طور پر صیہونیت کو ہی طاقتور کرتی ہے ۔یہ تاریخی جرم بھی ہمارے بزرجمہروں کا تخصص ہے کہ وہ آج فلسطین کے ان مسلم دہشت گرد بنیاد پرست گروہوں کی حمایت کرتے ہیں جنھوں نے خود فلسطین کی قومی آزادی کی تحریک میں سرگرم انقلابی ، وطن پرست اور سیکولر قوتوں کو کچلنے اورنقصان پہنچانے کوکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔صیہونی انتہا پسندی کی مخالفت میں فلسطین کے مذہبی انتہا پسند دہشت گردگروہوں کے ا قدامات کو سراہاتے ہوئے ہمارے سماج کے بنیاد پرست صیہونی جارحیت، بربریت اور وحشت کو جواز فراہم کرتے ہیں ۔

یہ اس حقیقت میں فرق کرنے کے اہل نہیں کہ ہر صیہونی یہودی ہوتا ہے مگر ہر یہودی صیہونی نہیں ہوتا ۔یعنی صیہونیت اور یہودیت دو الگ چیز یں ہیں جن کے درمیان بہت سے اختلافات ہیں۔ صیہونیت کے تمام پیروکار یہودیت کے پیروکار بھی ہیں۔ دوسری طرف ، یہودیت کے سبھی پیروکار صیہونیت کے پیروکار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام یہودی صیہونیت کے انتہا پسندانہ نظریات سے اتفاق نہیں کرتے ۔صیہونیت ایک انتہاپسند نظریہ ہے جو متشددہے۔ صیہونیت اور یہودیت کے مابین ایک اور اہم فرق یہ ہے کہ صیہونیت نسل پرستی کے علاوہ توسیع پسندی پر بھی مرکوز ہے۔جب کہ یہودیت نسل پرستی اور توسیع پسندی کی بجائے روحانیت پر مرکوز ہے۔یہودیت کے بموجب روحانیت اور تقویٰ خدا کے لوگوں یا دین کے پیروکاروں پر مقرر کردہ اہداف ہیں۔دیگر سماجوںکی طرح یہودیوں میں بھی آپ کو ہر قسم کے انسان ملیں گے ، انقلابی ، ترقی پسند ، لبرل ،جمہوریت پسند ،عام مذہبی لوگ ،لیکن ہماری اس کم بخت تربیت اور عقائد کا کیا کِیا جائے جس کے مطابق ہر یہودی کو اپنا دشمن سمجھنا ،ان سے نفرت کرنا اور ان کا ہمارا کبھی دوست نہ ہوناگویا جزو ایمان ٹھہرا ہے ۔بہر حال صیہونیت کی طرف مارکسزم کا رویہ وہی ہے جو دیگر رجعتی ،انتہا پسند نظریات کی جانب ہے ٹھیک اسی طرح یہودیت کی طرف بھی مارکسزم کا رویہ وہی ہے جو دیگر مابعد الطبعیاتی عقائد کی جانب ہے ۔

پاکستان کی بنیاد پرست اور شدت پسند قوتوں کو کبھی اپنی جارح صیہونی ریاست کے خلاف نہتے فلسطینی عوام کے قتل عام پر احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل کے انقلابی نظر نہیں آتے جنھوں نے یہودی گھرانوں میں جنم لیا ، وہ اسرائیل کے شہری ہیں ،وہ صیہونیت کے عملی مخالف ہیں اورمظلوم فلسطینیوں  کے ساتھ کھڑے ہیں۔وہ مارکسزم ۔لینن ازم اور دنیابھر کے محنت کشوں کے اتحاد کا پرچم اٹھائے ،اسرائیل ،فلسطین کے محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کے محاذوں پر سرگرم ہیں اور آئے روز صیہونی ریاست سے صیہونی انتہا پسندوں سے”وطن دشمنی “ اور ” غداری“ کے سرٹیفیکٹ وصول کرتے ہیں ۔ہر یہودی کو اپنا دشمن اور قابل گردن زدنی قرار دینے والی اس مخلوق کے احاطہ ءعلم سے یہ بات ہی خارج ہے کہ دنیا کے باقی انسانوں کی طرح ہر یہودی کا یہ بنیادی انسانی حق ہے کہ وہ اپنے عقائد وثقافت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے۔انھیں بھی اس دنیا میں رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا باقی انسانوں کا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہر کیف صیہونیت اورسام دشمنی دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ یہ دونوں عالمی سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے ستون ہیں ۔مارکسزم ان دونوں انتہاؤں کو مستردکرتے ہوئے اسرائیل سمیت دنیا بھر کے ممالک میں آباد یہودی محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کو نجات کی کنجی سمجھتاہے ۔ کمیونسٹ نقطہ نظر ہر اس مذہبی ، قومی ،نسلی،لسانی نظریے کو بورژوا طبقے کا ہتھیار سمجھتا ہے جو دنیابھر کے محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کو کند کرتا ہے اور انھیں تقسیم کرتا ہے ۔ صیہونیت اور نام نہاد سام دشمن نظریات کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد اور اسے تاریخ کے کوڑے دان میں اچھال پھینکنے کا فریضہ اسرائیل کے محنت کش طبقے اور کمیونسٹ پارٹی آف اسرائیل کو تاریخ نے سونپا ہے ۔ مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ ساتھ ہماری نیک تمنائیں اور یکجہتی اسرائیل سمیت دنیا بھر کے یہودی محنت کشوں اورکمیونسٹ پارٹی آف اسرائیل کے ساتھ ہے۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply