اینستھیزیا۔۔وہاراامباکر

اگر آپ نے کبھی سرجری کروائی ہے تو آپ کو شاید یاد ہو کہ آپ الٹی گنتی گن رہے ہوں۔ دس، نو، آٹھ، سات، چھ۔۔۔۔ اور پھر کسی آپ کی آنکھ کھلی تو سرجری مکمل ہو چکی تھی۔ ایسا لگا کہ آپ سو گئے تھے لیکن نہیں، ایسا نہیں تھا۔ یہ مصنوعی بے ہوشی یا اینستھیزیا تھا جو نیند کے مقابلے میں خاصا پیچیدہ ہے۔ آپ بے ہوش تھے اور حرکت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ نہ ہی کوئی یادداشت بنا سکتے تھے یا تکلیف محسوس کر سکتے تھے۔ ایسے پراسسز کو اکٹھا بلاک کئے بغیر بہت قسم کی سرجری کرنا ممکن نہ ہوتا۔
مصر، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے قدیم طبی ٹیکسٹ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر جگہ پر ابتدائی anesthetics استعمال کئے جاتے تھے۔ اس میں افیون، مینڈریک کا پھل، الکوحل جیسی چیزیں استعمال کی جاتی تھیں۔
آج اینستھیزیا کرنے والے مقامی، سونگھنے والے یا رگوں میں ڈالنے والے ایجنٹ کا کمبی نیشن استعمال کرتے ہیں تا کہ سرجری کے حساب سے ٹھیک توازن مل سکے۔
مقامی (regional) اینستھیزیا میں کسی خاص حصے سے درد کے سگنل کو بلاک کیا جاتا ہے کہ وہ دماغ تک نہ پہنچے۔ درد کے یا پھر دوسرے پیغامات نظامِ اعصاب میں برقی سگنلز کے طور پر سفر کرتے ہیں۔ مقامی اےنستھیٹک ایک برقی رکاوٹ کھڑی کر دیتے ہیں۔ یہ نیورون کے خلیوں کی باہری جھلی کے ساتھ چپک جاتے ہیں جہاں سے چارجڈ ذرات اندر اور باہر جاتے ہیں اور مثبت چارج والے ذرات کا اندر آنے کا راستہ مقفل کر دیتے ہیں۔ نتیجے میں یہ نیورون پیغام رسانی نہیں کر پاتے۔
ایسا ایک کمپاونڈ کوکین ہے جس کے تکلیف رفع کرنے کے اثرات کی دریافت اتفاقی طور پر ہوئی تھی۔ اس مقصد کے لئے اب اس کا استعمال بہت کم کیا جاتا ہے۔ لیکن جو کمپاونڈ مقامی انیستھیزیا کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان کا کیمیائی سٹرکچر اسی قسم کا ہے اور ویسے ہی کام کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن بڑی سرجری کے لئے یہ کافی نہیں، بے ہوش کئے جانا ضروری ہے۔ آپ کو ایسی شے درکار ہے جو دماغ سمیت پورے اعصابی نظام پر اثر کرے۔ سونگھنے والے اینستھیٹک ایسا کام کرتے ہیں۔ مغربی میڈیسن میں ڈائی ایتھائل ایتھر ایسا پہلا عام کیمیکل تھا۔ یہ تفریح کے لئے استعمال ہونے والی منشیات میں سے ایک تھی۔ ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کہ اس کے زیرِ اثر لوگوں کو کوئی بھی چوٹ لگ جائے، تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔
انیسویں صدی کے وسط میں اسے دانت نکالنے کے دوران اور سرجری کے وقت استعمال کیا جانے لگا۔ اس کے بعد مقبول ہونے والی نائیٹرس آکسائیڈ تھی۔ یہ آج بھی استعمال ہوتی ہے لیکن زیادہ استعمال ایتھر سے اخذ کردہ کیمیکلز کا ہے جیسا کہ سیووفلورین۔
سونگھنے والے اینستھیزیا کے ساتھ ہی عام طور پر رگوں میں ڈالنے والا اینستھیزیا بھی دیا جاتا ہے۔ اس کا آغاز 1870 کی دہائی میں ہوا تھا۔ اس میں sedative جیسا کہ پروپوفول ہوتے ہیں جن کا کام بے ہوشی ہے اور opioid جیسا کہ فینٹانل شامل ہوتے ہیں جن کا کام تکلیف کم کرنا ہے۔ یہ جنرل اینستھیٹک اعصابی نظام میں برقی سگنلز پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
عام طور پر دماغ کے برقی سگنل ایک chaotic chorus ہے۔ اس میں دماغ کے مختلف حصے ایک دوسرے سے رابطہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ ہمیں جاگا ہوا اور ہوشیار رکھتا ہے۔ لیکن انستھیزیا میں یہ سگنل زیادہ پرسکون اور منظم ہو جاتے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ دماغ کے الگ حصے ایک دوسرے سے بات چیت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بارے میں بہت سی چیزیں ہیں جن کا ہم کو ٹھیک علم نہیں کہ یہ کیسے ہوتا ہے۔ کئی انیستھیٹک دماغی نیورون کے GABA-A ریسپٹر سے چپک جاتے ہیں۔ اور گیٹ کھول دیتے ہیں، جن سے منفی چارچ والے پارٹیکل کو بہنے کا راستہ مل جاتا ہے۔ یہ منفی چارج ٹریفک جام کر دیتا ہے۔ جس وجہ سے نیورن اپنا برقی سگنل آگے منتقل نہیں کر پاتا۔ اعصابی نظام میں ایسے بہت سے گیٹ والے چینل ہیں، جو حرکت، ہوش اور یادداشت کے پاتھ وے کنٹرول کرتے ہیں۔ زیادہ تر انیستھیٹک غالباً ایک سے زیادہ پر اثر کرتی ہیں۔
اور یہ صرف اعصابی نظام پر اثر نہیں کرتیں۔ کئی دل، پھیپھڑوں اور دوسرے اعضائے رئیسہ پر اثر کرتی ہیں۔ جس طرح قدیم انستھیٹک میں عام زہر (جیسا کہ ہیملاک اور اکونائیٹ) شامل تھے، ویسے ہی جدید ڈرگز کے بھی سنجیدہ سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اینستھیزیا کے ماہر کو ان ڈرگز کا ٹھیک توازن پیدا کرنا ہے تا کہ انستھیزیا کے تمام فیچر مل سکیں اور اسے مریض کی حالت کو بہت احتیاط سے دیکھنا ہے۔ اور اس مکسچر کو اس کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہے۔ یہ آسان کام نہیں، پیچیدہ عمل ہے۔ اس میں تربیت یافتہ ماہر یہ کام کرتے ہیں۔ اس کی ڈویلپمنٹ نے نئی اور بہتر سرجیکل تکنیک ممکن بنائی ہیں۔ ان سے سرجن روٹین میں اور محفوظ طریقے سے سی سیکشن یا بند شریان کو کھولنا یا جگر اور گردوں کی مرمت یا کئی دوسرے جان بچانے والے آپریشن کر سکتے ہیں۔
ہر سال اینستھیزیا میں نئی دریافتیں ہو رہی ہیں۔ تکنیک بہتر کی جاتی ہیں۔ جن کا مقصد یہ ہے کہ سرجری کو کم تکلیف دہ اور محفوظ بنایا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دس، نو، آٹھ، سات، چھ، پانچ ۔۔۔۔۔۔ اور اب مریض کی جان بچانے کے لئے اس پر اہم کام کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ہوش کچھ دیر کو بجھا دئے کے بغیر ایسا کئے جانا ممکن نہیں تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply