• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • سابق امریکی وزیر دفاع نے پاکستان کو ”خطرناک ترین“ ملک قرار دیدیا

سابق امریکی وزیر دفاع نے پاکستان کو ”خطرناک ترین“ ملک قرار دیدیا

(رپورٹ آفاق فاروقی)
سابق امریکی وزیر دفاع جم میٹس کا پاکستانی ملٹری قیادت کے ساتھ ایک دہائی کا تجربہ ہے جسے انھوں نے اپنی کتاب میں خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ یہ کتاب اوریجنلی سال2019میں شائع ہوئی تھی، جو منگل کے روز بک سٹورز کی زینت بنی۔ اس کتاب کا عنوان ”کال سائن کیوس، لرننگ ٹو لیڈ“ ہے، اس میں انھوں نے پاکستان کواپنی ایٹمی صلاحیتوں ، حکومتی بے عملیوں اور مستقل بنیاد پرستی کی بنا پر دنیاکا خطرناک ترین ملک قرار دیا ہے۔

جم میٹس جنھوں نے نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کی قیادت کی تھی ، اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ پاکستانی عوام کیلئے یہ دوہرا سانحہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسا لیڈر موجود نہیں ہے جسے ان کے مستقبل کی پرواہ ہو اور بحیثیت سوسائٹی پاکستانی عوام نہایت خود غرض، بدعنوان اور ان پڑھ ہیں جس کی وجہ سے وہ خود بھی اپنی مدد نہیں کر سکتے۔

گزشتہ برس وزارت دفاع کے عہدے سے استعفیٰ دینے والے 68سالہ جم میٹس نے اپنی کتاب میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پاکستان کا سیاسی کلچر اپنے آپ کو تباہ کرنے کیلئے سرگرم عمل ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ پاکستان ایک ایسے ملک کے طور پر بنا تھا جسے خود اپنے آپ سے کوئی محبت نہیں تھی یہاں ہر کوئی ذاتی بھلائی اور ریاست کی قیمت پر اپنے لیے کام کررہا ہے۔ اب تک میں جتنے بھی ممالک کے ساتھ کام کر چکا ہوں ، ان میں سے میں پاکستان کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھتا ہوں، کیونکہ اس معاشرے میں بنیاد پرستی ، تعلیم کی کمی، جوہری ہتھیاروں کی دستیابی اور مذہبی انتہا پسندی عام ہے۔ انھوں نے خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دنیا میں تیزی سے بننے والے جوہری ہتھیار دہشت گرد پیدا کرنے والوں کے ہاتھوں میں نہیں دیے جا سکتے ، کیونکہ دنیا کیلئے اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔

انھوں نے اپنی اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہےکہ پاکستانی عوام کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پاس ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے جس پر بھروسہ کیا جا سکے یہی وجہ ہے کہ ان کے دوہرے معاملات کے سبب جب پاکستان میں اسامہ بن لادن کی نشاندہی ہوئی تو سابق امریکی صدرباراک اوباما نے اسے ہلاک کرنے کیلئے پاکستانیوں کو اطلاع کیے بغیر اپنی فوج بھیجی۔
مسٹر میٹس نے اپنی کتاب میں ان تبدیلیوں کے بارے میں بھی لکھا ہے جو انھوں نے افغانستان کے مواصلاتی نظام میں اس وقت کیں جب وہ یو ایس سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر تھے ۔

انھوں نے لکھا ہے کہ وہ اس وقت بہت بے چین ہوئے جب انھیں پتہ چلا کہ نیٹو فورسز کی 70فیصد لائف لائن لاجسٹکس کا دارومدار ایک ہی راستے پر منحصرہے ، اور راستہ بھی وہ جو ایک پیسے کے بھوکے اور غیر مستحکم ملک پاکستان سے گزرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ میں نے خطے کے نقشے کو دیکھا اور اس پر بچھی بساط میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا۔ مسٹر میٹس لکھتے ہیں کہ ستمبر 2011میں جب جنرل جان ایلن کی جگہ ڈیو پیٹریاس افغانستان میں نیٹو کمانڈر مقرر ہوئے تو انھوں نے پاکستانی فوج کو انتباہ کیا تھا۔ جن کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں محصور حقانی دہشت گرد گروپ کو جان چکے تھے جو ایک بڑے ٹرک بم کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔ اس پر اس وقت کے پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق کیانی نے ان سے کہا تھا کہ وہ اس کے خلاف ایکشن لیں گے لیکن انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔ دو دن بعد اس بم سے کابل کے قریب امریکی اڈے پر دھماکہ ہوا جس میں 77امریکی فوجی زخمی اور پانچ افغان شہری ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کے چند دن بعد حقانی گروپ کے دہشت گردوں نے کابل میں ہماری ایمبیسی پر حملہ کیا۔

اس کے بعد واشنگٹن میں ایک سفارتی تقریب کے دوران مسٹر میٹس نے اس وقت کے امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو سرزنش کی جسے انھوں نھے نامناسب پیغام کہا تھا۔ مسٹر میٹس نے حسین حقانی سے کہا تھا کہ جس شہر میں پاکستان آرمی کا ہیڈ کوارٹر ہے اسی شہر میں دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر ہے پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ لیکن اب انھوں نے آپ کی طرف سے سرحد پار سے ہمارے سفارتخانے پر حملہ کیا ہے ، آپ لوگ ان لوگوں کی حمایت کر رہے ہیں جو ایک دن آپ لوگوں کو مار ڈالیں گے۔

پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کے ساتھ تبادلہ خیال کے تلخ تجربے کا ذکرکرتے ہوئے مسٹر میٹس لکھتے ہیں ، کہ انھوں نے اپنے تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکی فوج کے باہمی روابط صرف لین دین تک ہی ہو سکتے ہیں ، جن کی بنیاد ایک مخصوص مسئلے پر ٹکی ہو، جس میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک سائیڈ دوسری سائیڈ کو کیا پیشکش کرتی ہے۔
انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان ہمارا دشمن نہ بننے کا انتخاب کر سکتا ہے، لیکن اسے اپنے گمراہ کن اعتقادات ، گہری ناقص اور متشدد نظریات کی بنا پر امریکہ یا نیٹو کا بھروسہ مند دوست یا اتحادی نہیں سمجھا جا سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بالآخر، یہ ہمارا مشترکہ مفاد تھا کہ ہم نے باہمی تعاون میں معمولی توقعات کے ساتھ محتاط تعلقات کو برقرار رکھا، جو ایسا ہی ہے کہ پیسہ دیں اور ان سے جو چاہیں وہ لے جائیں۔ وہ لکھتے ہیں ہم پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل حل کر سکتے تھے ، لیکن ہماری ڈویژنز بہت گہری تھیں، ہمارے اختلافات بھی بہت زیادہ تھے اور ان پر قابو پانے کیلئے اعتماد بہت کم تھا ، اور آج تک ہمارے تعلقات کی یہی حالت ہے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply