اب ڈر نہیں لگتا

اب ڈر نہیں لگتا
ایک ڈر تھا تنہا ئی کا
ایک ڈر تھا جدائی کا
جو مسلسل میرے ساتھ رہتا تھا
کل کا دن جو گذر گیا
بہت بھاری لگتا تھا
لگتا تھا کسی ایسے دن کا بوجھ اٹھا نہ پاﺅں گی
آدھے ادھورے راستے میں ہی مر جاﺅں گی
مگر” کل”کا دن بھی آ ہی گیا
اور ریت کا وہ گھر وندہ ساتھ ہی بہا لے گیا
جس میں رکھے تھے میں نے
رنگ بر نگ کے پیارے پتھر
تتلیوں کے پر اور مو ر کے پنکھ
پھولوں کے سب رنگ
اور آسمان کی دھنک
گلہری کا ادھ کھایا اخروٹ
ماں کے پروں تلے بیٹھے مر غابی کے بچے
اس گھروندے پر اتری دھوپ جس نے مجھ سے میرا سایہ جدا کر دیا تھا
کل جب وہ سب بے رحم وقت کی موجوں کے ساتھ بہہ گیا
اور چار سو قبرجیسا اندھیرا پھیل گیا ۔۔۔
تو سفید دھوپ جاتے جاتےایک احسان کر گئی
وہ مجھ کو میرا سایہ لوٹا گئی
اور میں مرتے مرتے بچ گئی ورنہ
میں تو ایسے” کل “میں مر ہی جاتی
آوازوں کے بچھڑنے
جسموں کے کھو جانے
اور رویوں کے بد لنے کے کر ب نے مجھے تمام عمر
اندیشہ زیاں میں ہی مبتلا رکھا
کل کے دن نے سب خوف قتل کر دئے
میرے سائے کومجھ میں جگا دیا
اب !!
وہ میرا ہاتھ تھامے بیٹھا ہے
وہی مورپنکھ ، وہی جھیل ، وہی مرغابی کے بچے
اخروٹ کھاتی گلہری اور رنگ بکھیرتی تتلی
وہی سب پرانے مناظر دکھلا رہا ہے
سب مردہ مناظر کو میرے اندر حنوط کر کے بیٹھ گیا ہے
اب اپنے ہی سائے کی پناہ میں ہوں
جو نہ بدلے گا ۔ نہ بچھڑے گا
ایک سا ، بس مجھ میں ہی رہے گا
اب تنہائی سے ڈر نہیں لگتا
اب جدائی سے ڈر نہیں لگتا ۔۔۔۔۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply