• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اپنے بس کی بات ہی کیا ہے ہم سے کیا منواؤگے۔محمد ہاشم خان

اپنے بس کی بات ہی کیا ہے ہم سے کیا منواؤگے۔محمد ہاشم خان

شٹ اپ مسٹرکمل ہاسن! تم جھوٹ بولتے ہو ،فی الحال تو سپریم کورٹ کے پے در پےفیصلوں نے ہمیں اتنا عاجز کردیا ہے کہ ہم قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے لہٰذا صرف اس خواہش کا اظہار کرسکتے ہیں کہ کاش تم بدتمیز،زبان دراز،منہ زور،سرکش ،ناشکرے اور نافرمان کا کوئی منہ نوچ لیتا، تھوپڑے پرتھوک دیتا، ’سرمئی آنکھیں ‘ نکال کراس میں دیش بھکتی کا سرمہ بھر کرگدھےپر بیٹھا کر چنئی کی گلیوں میں اس طرح گھماتا کہ روسیاہی کی خاک اڑکر چہار دانگ عالم پھیل جاتی اورنچنِّیوں اورگوَیّوں کے لئے درس عبرت ہوتی لیکن وائے حسرت  کہ فی الحال ایسا نہیں ہوسکتا لیکن خوش ہونے کی ضرورت نہیں کہ اب تم ہمارے راڈار پر ہو اوراب بخشے نہیں جاؤگے۔ تمہارے خلاف وارانسی میں ہتک عزت اور مذہبی منافرت پھیلانے کا معاملہ درج کروادیاگیا ہے۔ اب ہم تمہیں بتائیں گے کہ ملک سے غداری کی سزا کیا ہوسکتی ہے؟

تم حیران و پریشان ہورہے ہوگے کہ تم نے صرف اپنے خیال کا اظہار کیا ہے اور خیال کا اظہارملک سے غداری کے مترادف کیسے ہوسکتا ہے تو ہم تمہیں بتادیں کہ مسلمانوں کی زبان بولنا ملک سے غداری ہے۔  ۸۰ کروڑ ہندؤں کی محبت کو دہشت گردی کہنا ملک سے غداری ہے۔کاش تم نے زبان کھولنے سے پہلے ایک بار بھی سوچا ہوتا ۔ یقین نہیں آتا کہ اس ملک کے اسی کروڑ ہندؤں کی محبت کا جنازہ تم ناسپاس نے ’ہندو دہشت گردی‘ کی شکل میں نکال دی کہ نہ اگلتے ہوئے بن رہی ہے اور نہ ہی نگلتے ہوئے۔ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ تمہارے ذہن میں یہ خناس پیدا کہاں سے ہوا کہ ہندو دہشت گرد ہوتے ہیں۔یہ خیال آتے ہی تمہارا دماغ مفلوج کیوں نہیں ہوا، یہ الفاظ تمہارے لب پر آتے ہی زبان شل کیوں نہ ہوئی؟

سماجی انحراف کے کچھ واقعات کو تم نےدہشت گردی کا نام دیا ہمیں افسوس ہوتا ہے تمہاری کج فہمی، کم علمی اوربیمار ذہنیت پرکہ اقلیتوں کو سبق سکھانے کے لئے تشدد کا استعمال دہشت گردی کیسےہوسکتا ہے؟ہم تو بھول ہی گئےتھے کہ تم اگر بیمار ذہن نہ ہوتے تو ’ہے رام‘ جیسی فلم کیوں  بناتے بلکہ کوئی ایسی قاعدے کی فلم بناتے جس میں گرو گولوالکر اور ساورکر کو جنگ آزادی کا عظیم ہیرو بناکر پیش کیا جاتا تاکہ آج ہم تمہیں اپنے بھکتوں کے عتاب سے بچاسکتے۔ تم نے تو ایسے شخص کو مہاتما بنادیا جسے قاعدے سے چرکھا گھمانا بھی نہیں آتاتھا اور یہی وجہ ہے کہ آج تک ہم اس کے چرکھے میں گھوم رہے ہیں۔

مسلمانوں کے سوت کو اس پیرہن سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہاتھ زخمی ہوجاتے ہیں،دھاگے الجھ جاتے ہیں اور ذہن شل ہوجاتا ہے۔اب تم کور چشم کو کیا کیا بتاؤں اور کہاں تک سمجھاؤں کو ہندو راشٹر کے نام پر ظلم و تشدد کو دیش بھکتی کہا جاتا ہے دہشت گردی نہیں۔بابری مسجد کہ شہادت،گجرات میں نسلی تطہیر، مغلوں کی باقیات کی صفائی ،سادھوی پرگیا، اسیمانند، مالیگاؤں کی مسجد اور سمجھوتہ ٹرین میں بم دھماکے یہ دہشت گردی نہیں بلکہ ہندوراشٹرکی استھاپنا(قیام)کی مساعی جمیلہ ہیں اور تم سرخوں سے متاثر دو کوڑی کے نچنئےچونکہ خود کوکچھ زیادہ ہی روشن خیال سمجھتے ہو سو اسےدہشت گردی کہنےکے بجائے سماجی ا نحراف کے کچھ قابل نظرانداز واقعات کہہ کر صرف نظر کرسکتے تھے ، جیسا کہ سپریم کورٹ نے کیا ہے ۔

سپریم کورٹ سماجی انحراف کو سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس انے ضمانت دی اور یہ کہتے ہوئے ایک عرضداشت کو مسترد بھی کردیا کہ جب اسی معاملے میں کچھ لوگوں کو ضمانت دے چکا ہوں تو پھر سادھوی پرگیا کو کیوں نہیں۔کاش تم کوڑھ مغز اگر خودسے نہیں سمجھ پائے تھے اور تمہاری عقل گھاس چرنے گئی تھی تواتنا ہی دیکھ لیتے کہ اگر واقعی مذکورہ بالاواقعات دہشت گردی کے زمرے میں شمار کئے جاتے تو پھر ضمانت منظور کیوں ہوتی۔کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کس طرح سپریم کورٹ نے اجتماعی ضمیر کے نام پر افضل گرو کو پھانسی دی تھی۔تم آخر چاہتے ہو کیا ہو کہ اسی اجتماعی ضمیر کو تمہارے اوپر بھی منطبق کردیا جائے۔ ہماری دیش بھکتی شروع سے ہی تمہاری آنکھوں میں شہتیربنی ہوئی تھی اور اب کھل کر سامنے آگئی ہے۔ تمہیں الگ سے سیاسی جماعت بناکر خوار ہونے کی خواہش کیوں ہے؟

اگر راجیہ سبھا میں جانا چاہتے تھے ،وزیر بننا چاہتے تھے تو ہم سے کہہ دیتے، تمہاری کون سی ایسی خواہش تھی جو ہم پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ تعمیر سے لے کر تخریب تک سب پر یکساں قدرت رکھتے ہیں یہ ایک الگ بات ہےکہ فی الحال ہم تخریب میں ہی خود کو ضائع کررہے ہیں لیکن اس تخریب میں بھی تعمیر کی صورت مضمر ہے۔ غالبؔ نام کا کوئی ایک انگریز خور شاعر تھا وہ ایسا ہی کہہ کر گیا ہے۔ جب تک اقلیتوں اور دلتوں کو ہم پست نہیں کردیتے تعمیر کا امکان وجود میں نہیں آسکتا۔ملک کو ہندوراشٹر بنانے سے بڑا اور تعمیری کام بھلا کیا ہوسکتا ہے؟

بہرحال اب تم کم فہم کو سمجھانے کا کیا فائدہ اور یوں بھی ہم ان لوگوں میں سے ہیں کہ جب بچہ پیشاب و پاخانہ کپڑے میں کردیتا ہے تو ہم کپڑا صاف نہیں کرتے اس جگہ کو ہی کاٹ کر پھینک دیتے ہیں۔اس ملک کے ۸۰ کروڑ ہندوؤں نے تمہیں اتنی محبت دی کہ تم کم ظرف سنبھال ہی نہیں سکے۔تم حافظ سعید کی زبان بولنےلگے ، تم مسلمانوں کی زبان بولنے لگے جنہیں ہم نے سبق سکھانے کا عزم بالجزم کررکھا ہے۔ ان چوہوں کو کھدیڑ کر ہم نے واپس ان کے بلوں میں مقید کردیا ہے۔

کمل ہاسن! کیا واقعی تم اندھے ہو؟ پہلے کیوں نہیں بتایا تھا؟ ہٹلر کی آنکھیں ہمارے پاس موجود ہیں جب چاہنا بتادینا ہم اسکرو ااور پانا کے ساتھ آئیں گے اور فٹ کردیں گے۔افسوس ہے کہ تمہیں کچھ نظرنہیں آرہا ہے۔افسوس ہے کہ چوہے کو بل سے کبھی نکلتے ہوئے تم نے نہیں دیکھا ۔ٹھیک ہے چنئی میں سڑکوں میں کچھ کم سوراخ ہیں لیکن ممبئی اور دہلی میں بہت ہیں۔ سوراخ بھی اور چوہے بھی، چوہے کچھ زیادہ صحت مند ہیں۔ وہاں جب بالی ووڈ میں کسی گدھے پر کالک پوت کر تمہارا پریڈ کرایا جائے گا تو اس وقت دیکھ لینا کہ چوہے جب اپنی سوراخ سے باہر نکلتے ہیں تو کیسے ادھر ادھر کچکُچوا(الو) کی طرح دیکھتے ہیں۔

یہی حال ہم نے مسلمانوں کا کررکھا ہےجن کی زبان آج کل تم بول رہے ہو ۔ افسوس ہے کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کو جو کہ پچیس کروڑ کے آس پاس ہیں ہم نےان کو سوراخ میں بند کردیا ہے اور پھر بھی تم نے کوئی عبرت حاصل نہیں کی۔ تم کیا یہ سمجھتے تھے کہ تم ہندو ہوتو تم کو ہم معاف کردیں گے؟ تم نے ایسا کیسے سمجھ لیا؟ کیا ہم نے ان ہندؤں کو معاف کیا جو ہماری آئیڈیالوجی کے مخالف تھے؟ نہیں نا؟ ہم کسی بھی ایسے شخص کو معاف کرنے والے نہیں جو ہمارے نظریات و فرمودات پر ایمان نہیں لاتا۔ جارج بش جونیئر کا بیان تمہیں یاد نہیں’ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھردہشت گردوں کے‘ یہی ہمارا بھی عقیدہ ہے اگرآپ ہمارے ساتھ نہیں تو آپ کا ہندو ہونا ہمارے لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔

تم سوچ رہے ہو کہ یہ کس مودی بھکت یا ہندو بھکت سے پالا پڑگیا ہے جو انسانوں جیسی بات کررہا ہے۔ تم ٹھیک سمجھتے ہوکبھی کبھی انسان نظرآنا ہماری فطری مجبوری ہوتی ہےاور فی الحال اسی مجبوری کا پابند ہوں کہ تم زبان دراز اور بدتمیز کا منہ نوچ نہیں پارہا ہوں۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ یوگی اور مودی کے جلوہ افروز ہونے کے بعد کس طرح مسلمان واپس اپنے بلوں میں گھس گئے ہیں، کہیں کوئی احتجاج و مظاہرہ نظر آتا ہے؟ اور اگر آتا بھی ہوگا تو کیا اس میں تمہیں لمبی داڑھی اور گول ٹوپی والے چہرے نظرآتے ہیں؟ کچھ یونیورسٹیوں کےگم کردہ نوجوان ہیں جو یہاں وہاں آزادی اور ہپ ہپ ہرا کے نام پر اپنے غم کا بخار نکال رہےہیں۔ سرخے چلے گئے ہیں لیکن کچھ سرخیاں چھوڑ گئے ہیں ، وقت نے کچھ اور مہلت دی تو ان سرخیوں پر ہمیشہ کے لئے سرخ روشنائی پھیر دیں گےاور تمہارے منہ پر کالک بھی۔

افسوس ہے کہ تم بہت کم ظرف نکلے۔اردو کا کوئی ایک شاعر ہے مرزا غالبؔ۔ اس نے تم جیسے کم ظرفوں کے بارے میں ٹھیک کہا تھا ’دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر‘۔ ؔ ( انگریزوں کے دور اقتدار میں جب ملک میں دیش بھکت مارے جارہے تھے تو وہ بدتمیز بادہ خوارانگریز حاکموں کی مدح سرائی کررہا تھا کہ’ ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘۔ تاج محل سے نجات حاصل کرنے کے بعد اس دیش دروہ اور انگریز حاکم کے وفادار کو بھی سبق سکھائیں گے۔ کہہ رہا تھا کہ دلی چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔دہلی میں اس کی تربت ہمارے دیش بھکتوں کے لمس کو ترس رہی ہےاور ہم اس تربت کو اکھاڑ کر دریائے گنگا میں نہیں پھینکے تو پھر ہم بھی اصل مودی بھکت نہیں۔

فی الحال تمھاری کم ظرفی ہمیں مارے جارہی ہے سو پہلے تم کو جب تک جہنم زاد نہیں بنادیں گے ہمیں سکون نہیں ملنے والا۔ اب اپنے رزق خاک اور روسیاہ ہونے کے دن گنو۔تم سوچ رہے ہوگےکہ میں کیسا جن سنگھی ہوںکہ انگریزوں کاوفادار نہیں ہوں۔ تم غلط سمجھتے ہوہم انگریزوں کے کبھی وفادار نہیں تھے ہم شروع سے ہٹلر کے پرستار تھے۔بہرحال مجھے جو کہنا تھا کہہ دیا ہے اور اگر کوئی بات ناگوارخاطر ہوئی ہو تو بتادینا۔ ہمارے دیش بھکت تیار بیٹھے ہیں۔اور ہاں فیض احمد فیض نام کا بھی کوئی ایک شاعر ہے،وہ پاکستانی ہے پھربھی اس کے ایک شعرکے ساتھ نصیحت کرنے کا سلسلہ بند کررہا ہوں۔
عہد وفا یا ترک محبت جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے ہم سے کیا منواؤگے

معزز قارئین !اوپر جو کچھ آپ نے پڑھا ہے وہ میرے اپنے خیالات نہیں ہیں بلکہ آرایس ایس کی فکر پر طنزیہ یلغار ہے کہ فی الحال مودی بھکت کمل ہاسن کے بیان سےکہ ملک میں ہندو دہشت گردی موجود ہے اسی طرح اندر ہی اندر جل بھن رہے ہیں اور انہیں حافظ سعید سے مشابہ قرار دے رہے ہیں۔راقم کمل ہاسن کے بارے میں ایسا کوئی خیال نہیں رکھتا بلکہ ان کو ایک ذہین و فطین اداکار سمجھتا ہے جو سیاسی و سماجی بصیرت بھی رکھتے ہیں۔راقم تو ان کی’ سرمئی اکھیوں میں ننھا منا اک سپنا ‘ دیکھتا ہے۔کمل ہاسن بھی وطن عزیز کے حوالے سے ایسا ہی ننھا منا سپنا دیکھ رہے ہیں جس میں’ سرودھرم سمبھاؤ‘(تمام مذاہب کا یکساں احترام) زیست کرتا ہوا نظرآئے لیکن ملک کی سخت گیر ہندوانتہا پسند تنظیم آر ایس ایس اس اور اس کا پریوارخواب کی تکمیل کی راہ میں ’ہندو راشڑ‘ کا سنگ لئے کھڑی ہے۔

میں بھی آر ایس ایس بھکت کی طرح کمل ہاسن صاحب سے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ یہ آپ کس عذاب میں پھنس گئے ہیں۔ بھائی دہشت گرد صرف مسلمان ہوسکتا ہے یا پھر دلت اور آدیواسی۔ ہندو، عیسائی ،یہودی اور بدھشٹ نہیں۔ ہندو دہشت گرد نہیں ہوسکتا یہی عہد مابعد جدید کا قاعدہ کلیہ اور نیا بیانیہ ہے۔، ہندو کبھی دہشت گرد نہیں ہوسکتا خواہ وہ ہر ہر مہادیو کا نعرہ لگاتے ہوئے بابری مسجد کو شہید کردے ، خواہ وہ ’گائے مقدس ‘کے گوشت کے نام پر کسی کے بھی بدن سےکبھی بھی اور کہیں بھی گوشت چھیل لے۔عیسائی دہشت گرد نہیں ہوسکتے کیوں کہ ان کے پاس جمہوریت ہے ، روشن خیالی اور جدید علم سائنس ہے۔ ان کے پاس بموں کو استعمال کرنے کا عالمی حق حاصل ہے اور ان کے افراد کو تنہائی کے نام پر۶۷ لوگوں کو لقمہ شوق وصال بنانے کا پروانہ حاصل ہے۔

امن پسند بدھشٹوں کے دہشت گرد ہونے کا سوال اگر ذہن میں پیدا ہوتا ہے تو پھرآپ کو اپنےنظام اعتقاد پر پھر سےغور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب اگر غلطی سے آپ کا ذہن روہنگیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف چلا جاتا ہے تو آپ کو حرف ملامت زبان پر لانےکی اجازت نہیں کہ وہ امن پسند لوگ ہیں جو دہشت گردوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے تشدد پر اترآئے ہیں۔ یہ تشدد ان کے خمیر میں شامل نہیں بلکہ جزوقتی انحراف ہے۔
بشکریہ: www.humaap.com

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply