(Gett: The trial of Viviane Amsalem)اسرائیلی فلم/تبصرہ:ذوالفقار علی زلفی

“میں تیرے حمل کی تکلیف کو بہت بڑھاؤں گا۔ تو درد کے ساتھ بچے جنے گی، تیری توجہ اپنے شوہر کی جانب ہوگی اور وہ تجھ پر حکمرانی کرے گا” (توریت)

یہودیت، مردانہ برتری پر قائم خانہ بدوش قبائلی نظام کے بطن سے نکلا مذہب ہےـ قدیم مصری، شامی، عراقی اور اسرائیلی تہذیبوں سے اس نے صرف وہ عقائد اور اساطیر مستعار لیے جو مردانہ برتری اور نجی ملکیت کے تصور کو تحفظ فراہم کرسکیں ـ ان اساطیر میں اہم ترین حوا کا آدم کو ورغلا کر جنت سے نکلوانا ہےـ آدم حوا کے اس اسطورہ نے آگے چل کر یہودی سماج میں عورت کی حیثیت متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا بالخصوص شادی کے سماجی ادارے پر اس روایت نے گہرے اثرات مرتب کیے ـ

یہودیت میں شادی بظاہر دو طرفہ معاہدہ ہے لیکن باریکی سے دیکھا جائے تو یہ یکطرفہ اور مرد کی جانب سے عورت پر مسلط کردہ جبری معاہدہ ہےـ یہودی نکاح کے بعد عورت کا شوہر سے طلاق لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہےـ مرد البتہ جب چاہے طلاق دے سکتا ہےـ طلاق کا عمل چونکہ شرعی لحاظ سے ناپسندیدہ ہے اور اساطیری روایات کے مطابق ناپسندیدہ حرکت کا محرک عورت ہے اس لیے سماج میں مطلقہ عورت کی حیثیت کسی فاحشہ جیسی ہوجاتی ہےـ یہودی مذہبی روایات کے مطابق:

“وہ (مرد) کسی فاحشہ یا ناپاک عورت سے بیاہ نہ کریں اور نہ اس عورت سے بیاہ کریں جسے اس کے شوہر نے طلاق دی ہے (بائبل، کتابِ احبار)

اسرائیلی آئین کے مطابق اسرائیل ایک یہودی جمہوری ریاست ہےـ یہودیت کی مرکزیت کے باعث اسرائیل میں فرد کی زندگی میں ریاستی مذہب کا عمل دخل قابلِ ذکر حد تک اثر انداز ہوتا ہےـ شادی اور طلاق بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے جسے یہودی مذہبی روایات کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے ـ

2014 کی اسرائیلی فلم “Gett: The Trial of Viviane Amsalem” اسی پسِ منظر میں بنائی گئی ہے ـ فلم میں خاتون کردار “ویویان” اپنے شوہر “امسالیم” سے طلاق (gett: یہودی طلاق) چاہتی ہے ـ مذہبی قانون کے مطابق وہ شرعی عدالت (Beth din) میں اپنے وکیل کے توسط سے دعوی دائر کرتی ہے ـ سہ رکنی بنچ شوہر کو حاضر ہونے کا حکم دیتی ہے ـ شوہر اپنے ربّی (مذہبی پیشوا) بھائی کو وکیل بنا کر حاضر ہوتا ہے ـ شرعی عدالت کے طریقہِ کار کے مطابق عدالت میاں بیوی پر جرح کرتی ہے، گواہ بلائے جاتے ہیں تاکہ سماجی، مالی اور مذہبی حالات و واقعات کا جائزہ لے کر یقینی بنایا جاسکے کہ طلاق عورت کا حق ہے یا نہیں ـ
ویویان کے مطابق اس کی شادی اس کا آزادانہ فیصلہ نہیں تھا ـ اس نے گیارہ سال تک ازدواجی زندگی کے نام پر عذاب برداشت کیا ہے چوں کہ شادی کا مقصد افزائشِ نسل ہے اور وہ اپنے شوہر کو چار بچے دے چکی ہے لہذا اسے اب اس ناپسندیدہ رشتے کے بندھن سے آزاد کیا جائے ـ عدالت کے مطابق شوہر سے محبت نہ کرنے جیسی دلیل کوئی اہمیت نہیں رکھتی ـ

گواہوں کے بیانات کو سنا جاتا ہے ـ یہ گواہ قریبی رشتے دار، ہمسائے اور دوست احباب ہوتے ہیں ـ بیشتر گواہوں کے مطابق امسالیم مذہبی احکامات پر کاربند ایک نیک اور پرہیزگار مرد ہے ـ وہ نہ صرف نان نفقے کی ذمہ داری ادا کرتا رہا ہے بلکہ اس نے کبھی بیوی پر ہاتھ بھی نہ اٹھایا جو اس کا حق بنتا ہے ـ ایک دلچسپ گواہی یہ بھی دی جاتی ہے کہ امسالیم نے کبھی ویویان کو زبردستی پردہ بھی نہیں کروایا ـ اس موقع پر کیمرہ بار بار عورت کی اسکرٹ سے نکلتی ننگی ٹانگیں دکھاتا ہے ـ

ویویان پر زبردست جرح کی جاتی ہے ـ اس کے کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں ـ بعض سوالات پر اس کا چہرہ شرم اور جذبات کے ملے جلے احساسات سے کھنچ جاتا ہے ـ دوسری جانب امسالیم پر نرم ہاتھ رکھا جاتا ہے ـ امسالیم واضح طور پر کہتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے گا اور گزشتہ تین سال سے میکے میں بیٹھی بیوی کو دوبارہ گھر آجانا چاہیے ـ عدالت اور اکثریتی گواہوں کے نزدیک امسالیم ایک جنٹلمین ہے ـ

پانچ سال کے طویل عرصے پر محیط مقدمہ عورت کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے ـ وہ روتی ہے، چیختی ہے، گڑگڑا کر آزادی کا مطالبہ کرتی ہے ـ ایک وقت ایسا آتا ہے وہ شدید دباؤ میں آکر شرعی عدالت کے ججز کو بھی بے نقط سنانے لگ جاتی ہے ـ

فلم میں جگہ جگہ اسرائیل کے مذہبی نظام اور شرعی عدالتوں پر سخت تنقید کی گئی ہے ـ اس پورے قدامت پسند نظام کو ایک اسرائیلی عورت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ـ عورت؛ جس نے آدم کو ورغلا کر جنت سے نکلوایا ـ

فلم مکمل طور پر کمرہِ عدالت میں فلمایا گیا ہے ـ 1957 کی شہرہ آفاق امریکی فلم “12 Angry Men” یاد آجاتی ہے البتہ امریکی فلم کی نسبت اس میں نہ صرف کردار کم ہیں بلکہ اس میں ایک بھی آؤٹ ڈور سیکوینس نہیں ہے ـ بس کمرہِ عدالت ہے اور کرداروں کے درمیان شادی، مذہب اور طلاق کے موضوع پر پر اثر مکالمے ـ

اس پُرمغز تنقیدی فلم کی ہدایت کارہ اور اسکرین رائٹر رونیت الکبز (Ronit Elkabetz) ہیں جنہوں نے فلم میں ویویان کا جاندار کردار بھی نبھایا ہے ـ رونیت نے مذہبی روایات کا بوجھ اٹھاتی اسرائیلی عورت کی زبردست ترجمانی کی ہے ـ ان کے چہرے کے متغیر تاثرات، گلوگیر لہجے میں ادا کیے گئے مکالمے فلم کو مزید بلندی عطا کرتے ہیں ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ فلم یہ بھی سکھاتی ہے کہ ایک اچھی فلم بنانے کے لیے بڑا سرمایہ اہم نہیں ہے ـ کم سرمائے پر ایک بہترین اسکرین پلے کو لے کر ماہرانہ ہدایت کاری سے بھی ایک بڑی فلم بنائی جاسکتی ہے

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply