• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کشمیری لیڈروں سے مودی کی ملاقات :منظر اورپس منظر (2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

کشمیری لیڈروں سے مودی کی ملاقات :منظر اورپس منظر (2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

اس میٹنگ میں گو کہ ان جماعتوں نے ریاستی درجہ اور خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ تو کیا، مگر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے دوٹوک الفاظ میں ان کو بتایا کہ دفعہ 370اور 35اے کا معاملہ تو اب عدالت کے سپرد ہے، اسلئے اسکے فیصلہ کا انتظار کیا جائے۔ مگر ریاستی درجہ کی بحالی کیلئے امیت شاہ نے ایک روڈ میپ ان کے گوش گزار کر دیا۔ مارچ 2020میں جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں ایک حدبندی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے، جو اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی کریگا اور بعد میں اس نئی حد بندی کے تحت اسمبلی کے انتخابات منعقد ہونگے۔ پھر یہ اسمبلی ایک قرارداد پاس کرکے پارلیمنٹ سے ریاستی درجہ کی بحالی کی گزارش کریگی۔ جس کے بعد ہی وزرات داخلہ اس پر قانون سازی کرنے کا کام شروع کرسکتی ہے۔ مودی حکومت کی سب سے بڑی حصولیابی یہ رہی کہ نیشنل کانفرنس نے اس حد بندی کمیشن میں شرکت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس سے قبل اس نے اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ چونکہ نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے لوک سبھا کے تین اراکین اس کے ایکس آفیشیو Ex-officioممبران ہیں، اسلئے ان کی عدم موجودگی کہ وجہ سے کمیشن اپنا کام نہیں کر پا رہا تھا۔ جس وقت یہ کمیشن ترتیب دیا گیا تھا تو اس وقت اسکے دائرہ اختیار میں جموں و کشمیر کے علاوہ آسام، منی پور، ارونا چل پردیش اور ناگالینڈ میں اسمبلی حلقوںکی بھی حد بندی کرنی تھی ۔ مگر اس سال مارچ میں جب اسکی ٹرم کو ایک سال اور بڑھا دیا گیا، تو اسکے دائرہ اختیار سے شمال مشرقی صوبوں کو نکال دیا گیا۔ ان کی حد بندی اب بھارت کے دیگر صوبوں کے ساتھ 2026میں ہی ہوگی۔ آخر اگر جموں و کشمیر اب ملک کے دیگر صوبوں کی ہی طرح ہے تو صرف اسی خطے میں ہی الگ سے حد بندی کیوں کرائی جا رہی ہے؟ اسکی وجہ بس یہی لگتی ہے کہ کمیشن اسمبلی نشستوں کو کشمیر اور جموں کے ڈویژنوں میں برابر تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ یعنی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وادی کشمیر کو اسمبلی میں جو برتری حاصل تھی، اس کو ختم کیا جائے۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر کی آبادی 68.8 لاکھ اور جموں کی 53.7لاکھ تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وادی کشمیر کی اسمبلی نشستوں کی تعداد 46اورجموں کی 36تھی۔ مگر کمیشن کے سامنے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نمائندے مرکزی وزیر جیتندر سنگھ نے دلیل دی ہے کہ آبادی کے بجائے رقبہ کو حد بندی کا معیار بنایا جائے۔ چونکہ جموں کا رقبہ 26,293مربع کلومیٹر اور کشمیر کا 15,520مربع کلومیٹر ہے، اسی لئے ان کا کہنا ہے کہ جموں کی سیٹوں میں اضافہ ہونا چاہئے۔ نئی اسمبلی میں اب 90نشستیں ہونگی۔ مگر جغرافیہ کو معیار بنانے کے بعد ان کی پارٹی کو ادراک ہوگیا کہ جموں خطے کی سیٹیں تو بڑھ جائیگی ، مگر اس سے تو مسلم اکثریتی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی کو فائدہ ہو رہا ہے، کیونکہ ان کا رقبہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقے سے زیادہ ہے۔ چت بھی میری اور پٹ بھی میری کے مصداق اب نئے فارمولہ کے تحت کل 90نشستوں میں 18سیٹیں درج فہرست ذاتوں یعنی دلتوں اور درج فہرست قبائل کیلئے مختص ہونگی ۔ اس کے علاوہ جموں میں رہنے والے پاکستانی مہاجرین اور کشمیری پنڈتوں کیلئے بھی سیٹیں مخصوص رکھنے کے مطالبات پر غور ہو رہا ہے۔ دونوں خطوں کو برابر 45سیٹیں دی جائینگی۔ پھر ان میں سیٹیں مخصوص ہونگی، تاکہ وادی کشمیر سے مسلمان ممبران کم سے کم تعداد میں اسمبلی میں پہنچیں۔ جس ریاست میں مسلم آبادی کا تناسب 68.5فیصد ہے ، وہاں اسمبلی میں ان کا تناسب 50فیصد تک رہ جائیگا۔ یہ فارمولہ کئی دہائیوں سے بھارت کی دیگر ریاستوں میں کامیابی کے ساتھ آزمایا جا چکا ہے۔ 2005میں حکومت کی طرف سے قائم جسٹس راجندر سچر کمیٹی نے اسپر خوب بحث کی ہے۔ جن سیٹوں سے مسلم امیدوار کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، ان کو دلتوں کیلئے مخصوص نشتوں کی فہرست میں ڈال کر وہاں سے کسی مسلم امیدوار کی قسمت آزمائی کے امکانات ہی ختم کر دئے گئے ہیں۔ اتر پردیش کے نگینہ میں مسلمانوں کا تناسب 43.21فیصد اور دلتوں کا 22.5فیصد ہے، مگر اسکو دلتوں کیلئے ریزرو کرنے سے کوئی مسلم امیدوار انتخاب لڑ ہی نہیں سکتا ہے۔ اس کے برعکس دھورریا میں جہاں دلت 30فیصد ہیں اور مسلمان کم ہیں ، کو جنرل نشستوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے ۔ سچر کمیٹی نے ایسی بہت سی نشستوںکی فہرست شائع کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ ان ہی نشستوںکو مخصوص کیا جائے ، جہاں دلت آبادی 30فیصد سے زیادہ ہے۔ اس فارمولہ کی وجہ سے قانون ساز اداروں میں مسلم نمائندگی قابو میں رہتی ہے اور چونکہ مسلمان ان سیٹوں کو ریزرو کرنے کی مخالفت کرتے ہیںتو ان کو دلتوں کے حقوق کے مخالفیں کے طو پر پیش کرکے ان دونوں طبقوں کو آپس میں لڑوانے کا بھی کام ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ اب جموں و کشمیر میں بھی دہرایا جانے والا ہے ۔ جموں خطے میں مسلمان 31فیصد، دلت 18فیصد، برہمن 25فیصد، راجپوت یا ڈوگرہ 12فیصد ، ویشیا یعنی بنیا 5 فیصد اور دیگر یعنی سکھ وغیرہ 9فیصد کے لگ بھگ ہیں۔ افسر شاہی میں تو پہلے ہی مقامی مسلمانوں کو پتہ کٹ چکا تھا۔ خود حکومت جموں و کشمیر کے ہی اعداد و شمار کے مطابق 24سیکرٹریوں میں بس 5مسلمان ہیں۔ 58اعلیٰ سرکاری افسران میں بس 12مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے افسران یعنی کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس میں بھی 42فیصد ہی مسلمان ہیں، جبکہ ان کی آبادی 68فیصد سے زائد ہے۔ پولیس کے 66اعلٰی افسران میں بس سات ہی مقامی مسلمان ہیں۔ سنکیانگ میں اوغور مسلمانوں پر مظالم کو مغربی دنیا چین کے خلاف ایک ہتھیار بنانے سے قبل بھارت کو ایک جمہوری اقدار والے ملک کے بطور پیش کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اس لئے امریکہ سمیت مغربی ممالک بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ کشمیر پر کچھ پیش رفت دکھا کر اپنے آپ کو چین کے مقابلے ایک فراخ دل پاور کے روپ میں پیش کرے۔ 24جون کی میٹنگ سے قبل برطانیہ میں منعقد گروپ 7کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے بھارت کو جمہوری اقدار اور آزادی کا محافظ قرار دیا۔ مذاق ہی سہی۔ مگر اس مذاق کو حقیقت کا روپ ڈھالنے کیلئے بھارت سے مطالبہ کیا جانا چاہئے تھا کہ ان جمہوری اقدار اور جموری آزادی کا اطلاق کشمیر میں بھی کرے اور کم از کم سیاسی قیدیوں کی رہائی ہی یقینی بنائی جاتی۔ شاید 24 جون کی اس میٹنگ میں آنے سے قبل نیشنل کانفرنس اور بیک چینل سے جاری مذاکرات میں پاکستان اسکو پیشگی شرط کے طور پر پیش کرسکتا تھا۔ مگر کیا کیا جائے، ناز ک اوقات میں نیشنل کانفرنس کے لیڈراپنی بدھی کھو کر اقتدار کی نیلم پری سے بوس و کنار کرنے کیلئے بے تاب ہوکر قوم کو ارزاں فروخت کرکے پھر انہی طاقتوں کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیں، جن کے خلاف برسرپیکار ہوتے ہیں۔ (ختم شد)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply