• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ٹک ٹاک پر انسانیت سوز نعرے- “فلاں فلاں “زندہ باد۔۔محمد وقاص رشید

ٹک ٹاک پر انسانیت سوز نعرے- “فلاں فلاں “زندہ باد۔۔محمد وقاص رشید

“فلاں فلاں” زندہ باد۔  مجھے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا۔۔یوں لگا جیسے میرے کانوں میں کسی نے سیسہ پگھلا کر ڈال دیا ہے جس نے اندر جا کر بچے کھچے دماغ کو جلا کر کوئلہ بنا دیا اور رگ و پے کو راکھ میں تبدیل کر دیا ہے ۔میں نے فوراً ٹک ٹاک کو بند کیا ۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔۔ آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی تیرنے لگی تو یوں لگا جیسے وہی لاوہ آنکھوں کو خاکستر کیے جا رہا ہے ۔دل سینے کی دیواروں سے ٹکرانے لگا ۔ ہاتھوں میں لغزش سی چھانے لگی۔۔۔۔پورے وجود میں غم و غصے کی ایک لہر نے گویا آگ لگا دی ۔۔۔ میں نے موبائل فون کو ایک طرف رکھا اور سر دیوار سے لگا کر آنکھیں موند لیں۔ ۔ز ندہ باد  کے اس نعرے کے ایک ایک حرف نے جو مردنی آج میرے دل پر نقش کی بیان سے باہر ہے۔

چشمِ تصور میں اسلام کے نام پر بننے  والی اس ریاست میں روزانہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے وہ 8 عدد بچے آ گئے جو یہاں مسجدوں اور مدرسوں تک میں محفوظ نہیں ۔ جن کی کبھی تو لاشیں  پانی  کی ٹینکیوں سے ملتی ہیں ۔ مسجدو مدرسہ کی چھتوں سے ملتی ہیں۔ کبھی  جنگلوں ویرانوں میں جنسی درندوں سے کم درندگی کا شکار حیوانوں کی نوچی ہوئی ملتی ہیں ۔آنے والی نسل کے وہ چشم و چراغ جن کو انسانیت کی تذلیل کرتے ،اس مکروہ اور ناپاک ترین اقدام کے بعد مارا نہیں جاتا، بلکہ اس ملک کے انصاف کے نظام پر پورے اعتماد کی وجہ سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔  وہ بھی زندہ لاشوں جیسے ہوتے ہیں جن کی ذہنی صحت اور نفسیاتی توازن ایک لمحے کی وحشت کے لیے تہس نہس کر دیا جاتا ہے۔۔۔ جنہیں ٹھیک سے یہ بھی نہیں پتا ہوتا کہ انسانی ہئیت میں موجود بے شرم جنسی درندہ ان سے چاہتا کیا ہے۔ اس درندے کی ان سے طلب کیا ہے۔  جن کا بچپن اور معصومیت ایک مکروہ لمحے کے اندر رگید دیے جاتے ہیں۔۔ اور وہ عمر بھر کے لیے نا جانے کیسی کیسی نفسیاتی بیماریوں کا شکار رہتے ہیں یہ جہنمی یہود و نصاریٰ ہم جنتیوں کو تحقیقات کے ذریعے بتاتے ہیں۔

وہ جن سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے ان ناپاک ترین درندوں کے چنگل میں وہ بچے سوچتے کیا ہونگے۔ پاکستان کا مطلب کیا۔۔ ۔ انکے لیے کیا ہوتا ہو گا۔۔ کیسے کسمساتے ہونگے۔۔۔ روتے چلاتے ہوں گے۔  لرزتے تڑپتے ہونگے اور سسکتے بلکتے ہونگے ۔ انکے ننھے ذہنوں میں اپنے کارٹون ،کہانیوں کی طرح یہ آتا ہو گا کہ ابھی خدا کوئی غیبی مدد بھیج دے گا ہمارے امی ابو کسی طرح پہنچ جائیں گے۔  کاش کہ پولیس آ جائے یا اس بھیڑیے کو ہماری منت سماجت اور التجاؤں کے نتیجے میں رحم ہی۔۔۔  لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ۔کچھ بھی نہیں۔

2020 میں لا الہ الا اللہ کی دھرتی کی کل کو باگ ڈور سنبھالنے والے معصوم بچوں سے زیادتی کے 2960 کیس سامنے آئے،صد حیف کہ کہ اس معاشرتی ناسور میں 2019 کی نسبت چار فیصد اضافہ ہوا ہے۔ روزانہ آٹھ بچے۔ ۔او خدایا 8 بچوں کو اس جنگل نما ریاست میں پیدا ہونے کی وہ سزا ملتی ہے،روئے زمین پر جس سے بھیانک کوئی سزا نہیں ہو سکتی۔  2960 مظلوم فرشتوں / بے چارے معصوم بچوں میں سے 1450 لڑکے اور 1510 وہ معصوم بھولی بھالی اس قوم کی بیٹیاں ہیں جنہوں نے کل اس قوم کی مائیں بننا ہے۔۔ ان لڑکیوں کے ساتھ یہ بربریت کی انتہا برتی گئی جبکہ خدا کے باغ کے 673 پھولوں کو اغوا کر کے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔

189 لڑکوں اور 98 لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی طور پر اس انسانی ذہن کی آخری درجے کی پراگندگی کا مظاہرہ کیا گیا۔۔کانپ جانا چاہیے اس سرزمین کو جسے 72 بچوں پر یہ ظلم ڈھانے کے بعد انکے معصوم لہو سے رنگ دیا گیا۔سب سے زیادہ کیس پنجاب اور سندھ میں رپورٹ ہوئے، پنجاب میں 1707 اور سندھ میں 861 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ باقی صوبوں میں یہ نہیں کہ یہ حشر سامانی ہوتی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رپورٹ نہیں ہوتی۔

میں ایک چھوٹا سا سوشل میڈیا کارکن ہوں۔۔ایک چھوٹا سا شاعر اور ادیب ہوں جس نے زینب قتل کیس کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ مل کر ایک سماجی آگاہی مہم چلا رکھی ہے جسکا نام ہے “شیطان کو پہچان او بچے دشمن ہے شیطان “۔۔ ۔ ہم اس سلسلے میں بچوں کو آگاہی دینے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہیں۔۔یہ کوئی معرکہ نہیں۔۔ جس سر زمین پر اوسطا روزانہ 8 بچوں کو اس حیوانی بربریت کا شکار بنایا جائے وہاں ہر شخص کا فرض ہے کہ اس معاشرتی ناسور کے خلاف اپنا کردار ادا کرے۔ ۔

مگر رکیے۔ ۔ میں نے اپنی اس تحریر کا آغاز ٹک ٹاک پر موجود جس “فلاں فلاں زندہ باد” کے انسانیت  سوز نعرے پر ماتم سے کیا تھا ۔ یہ کون لوگ ہیں۔۔۔ جو اس معاشرتی کلنک کے ٹیکے پر زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں ۔کیا کوئی انسان اس درجہ نفسیاتی تنزلی پر بھی ہو سکتا ہے۔  بیمار ذہنیت کے اس گھٹیا ترین درجے پر بھی فائز ہو سکتا ہے۔۔۔ کہ ایسا قبیح فعل سر انجام دینے والوں کو زندہ باد کے نعروں سےیاد کرے۔؟

پوچھتا ہوں میں اپنی ریاست سے اور اس کے حاکموں سے کہ کیوں ان مجرموں کو اس قدر بے خوفی ہے کہ یہ ببانگِ دہل بچوں سے جنسی درندگی کرنے والوں کو زندہ باد کے نعروں سے ہلہ شیری دے رہے ہیں ؟

میں ایسے کم ازکم دس ٹک ٹاک اکاؤنٹس رپورٹ کر چکا ہوں انہیں بلاک کر چکا ہوں لیکن جب بھی ٹک ٹاک کھولتا ہوں روزانہ کوئی ویڈیو سامنے آتی ہے جس میں اس طرح کے اخلاق باختہ نعرے لگائے جا رہے ہوتے ہیں۔۔جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے

مدینے کی ریاست کے والی ص نے فرمایا تھا اس قسم کی بد فعلی اور بربریت پر خدا کا عرش ہل جاتا ہے۔۔اسے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔۔۔اس مدینے کی ریاست کی تقلید کی دعوی دار حکومت کے ایوان کب اس ارتعاش کو محسوس کریں گے جب مجرم ریاست کے زیرِ انتظام چلنے والے سوشل میڈیا پر پاکستانی بچوں سے بد فعلی کرنے والوں کے لئے زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں ۔ جن کے لیے لغت میں مزمت ،لعنت اور ملامت کے جتنے بھی الفاظ ہیں وہ انہیں دیکھ کر اور زندہ باد کے نعرے سن کر میرے ذہن میں پیدا ہونے والی کیفیات اور احساسات کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں ۔

خدا نے اپنے نائب کی ہدایت کے لیے اتاری گئی کتاب میں قومِ لوط کے کردار و اطوار سے ہمیں عبرت حاصل کرنے کے لیے انکا انجام مردہ باد بتلایا۔۔۔ اور یہاں یہ اس قوم کی شرمناک اور قابلِ مزمت باقیات زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔۔۔۔ او قرآن سے جنگ کرنے والو خدا سے ڈرو۔۔۔

یہ ایک ہمہ جہتی جنگ ہے۔۔اس میں من حیث المعاشرہ ہمیں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔۔حکومت کا دائرہ کار قانون کا نفاذ ہے جو کہ یقینی طور پر بنیادی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن فرد کا کردار ہر سماجی بہبود میں ایک مسلمہ حقیقت ہے۔۔ ہم میں سے ہر کسی کو اسے جہاد سمجھ کر ادا کرنا ہو گا۔۔خدا ہر بچے کا محافظ ہو ہمیں ان آٹھ بچوں کو اپنے بچے سمجھنا ہو گا۔۔ ایسے اکاؤنٹس کو بلاک کریں۔۔رپورٹ کریں۔۔حکومتی اداروں کو مطلع کریں۔۔الغرض یہ کہ ایسے بھیانک کرداروں کو ہم نے یہ باور کرانا ہے کہ ہمارا احساس ایک چھلنی بن چکا ہے اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے ان گندے کرداروں اور ذہنوں سے معاشرے کو پاک کرنے کے لیے ایک زندہ قوم کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے ہیں

آخر میں،میں انتہائی دکھے ہوئے دل کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر یہ درخواست کرتا ہوں اس ملک کے فیصلہ سازوں سے ،حکمرانوں ،قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کہ ریاست تو جرم کی سرکوبی کے لیے مجرموں کا پیچھا کرتی ہے۔۔۔یہاں کا نظام کیا نظام ہے کہ مجرم سوشل میڈیا پر آکر ریاست کے سینے پر انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ زندہ باد کے نعروں کے ساتھ مونگ دل رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔

سچ پوچھیں تو اب یہ دعا مانگتے ہوئے بھی دل زبان کا ساتھ نہیں دیتا کہ “خدا ہمارے حال پر رحم فرمائے”
یا خدایا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ! اپنے پڑھنے والوں کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے پوری تحریر میں اس مکروہ ترین نعرے کے الفاظ درج نہیں کیے ہیں۔ سماج کے اس گرے ہوئے طبقہ میں بچوں سے زیادتی و بد فعلی جیسا قبیح فعل سر انجام دینے والے نا پاک کرداروں کو جس نام سے پکارا جاتا ہے ٹک ٹاک پر یہ شرمناک نعرے اسی نام سے لگتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply