• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خاندانی نظام, ریاست و حکومت کے اقدامات اور ہم۔۔ بلال شوکت آزاد

خاندانی نظام, ریاست و حکومت کے اقدامات اور ہم۔۔ بلال شوکت آزاد

حقوق نسواں بل, حدود آرڈیننس, تحفظ والدین بل اور فیملی لاء وغیرہ وغیرہ لانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اگر اسلامی حدود اور قوانین کو من وعن تسلیم اور اپلائی کردیا جائے۔ہر نفس اپنی حد میں رہے گا اور دوسرے کا جائز مقام اور حق ادا کرے گا۔

لیکن جب چیزیں اس قدر بگڑ چکی ہیں ،ہماری خود ساختہ شریعت اور شریعی حدود کی تشریح  پر   تھوڑا بہت  ڈرامہ   ریاست اور حکومت نے  رچا  لیا تو کیا قیامت آگئی؟

میں زیادہ منہ نہیں کھولنا چاہتا ورنہ ان ناچیز آنکھوں اور کانوں سے اسی معاشرے میں وہ کچھ دیکھا سنا اور برداشت کیا ہے کہ مجھے حکومت کا یہ نئی طرز کا ڈنڈا پروگرام بھلا معلوم ہوتا ہے۔آپ غیرت کے نام پر قتل, رسم و رواج کے نام پر انسانی حقوق کی پامالی, نام نہاد مذہبی فقہ کے نام پر نفسیاتی, روحانی, جسمانی استحصال اور رشتوں کی حدود و قیود کی خلاف ورزی نہ تو مذہب و شریعت سے اور نہ ہی معاشرتی و اخلاقی دباؤ سے ا ب تک روک پائے اور نہ کم کر پائے  ہیں ،پھر بغاوت کے اٹھنے پر شور و غوغا کیسا؟

مغرب مغرب کرکے آپ اپنی من حیث القوم کرتوتوں پر پردہ مت ڈالیں۔ ۔ ۔ یہ مکافات عمل ہے۔مغرب میں اور ہم میں یہی فرق ہے کہ وہ اپنے آپ سے ایماندار اور مخلص ہیں لیکن ہم خود اپنے آپ سے بھی منافقت کرتے ہیں, نظریں چراتے ہیں۔مجھے اس سے سروکار ہے کہ ہمارے معاشرتی بگاڑ کو لیڈ کرنے والے عناصر کو لگام ڈالی جائے۔ ۔ وہ خواہ رائٹسٹ کی محنت سے شریعت کے نفاذ سے ڈالی جائے یا پھر لیفٹسٹ کی محنت سے طرح طرح کے قوانین اور بلز لا کر ڈالی جائے۔

مدعا یہ ہے کہ گھر کی چار دیواری, خاندان, قبیلہ اور برادری کی حدود میں روا خانگی جرائم, انسانی حقوق کی پامالی اور شرعی و معاشرتی حدود کے متضاد افعال کی روک تھام ہونی چاہیے۔ہم میں سے کوئی چنا منا کاکا نہیں کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ جن باتوں اور جرائم یا خلاف معاشرہ باتوں کو ہدف بناکر قوانین بنائے جاتے ہیں، وہ سراسر جھوٹ ہیں۔

کس خاندانی نظام کی جنگ لڑ رہے ہیں آپ؟

ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت برصغیر کا خاندانی نظام ریت کی بنیادوں پر کھڑا ہے ،جو بس تھوڑا سا بھی سخت جھٹکا لگا تو ڈھیر ہوجائے گا ۔خاندانی ریخت و تاراج میں نہ تو جدت اور قدامت کی جنگ کا کردار ہے اور نہ ہی ریاست و حکومت کے اقدامات کا  ۔اس میں صرف اناؤں کی جنگ, سربراہی کی دوڑ اور بہتر و بدتر کی مخاصمت کا کردار ہے۔

ہم جس فرسودہ بالخصوص مشرقی نا کہ اسلامی خاندانی نظام کو بچانے کی باتیں کر رہے ہیں وہ محض ہماری خود سے منافقت ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم وہ کبوتر ہیں جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں موند  لے کہ خطرہ یوں ٹل جائے گا۔

اگر اسلامی خاندانی نظام کو اڈاپٹ کیا جاتا تو یہ جن قباحتوں کی بدولت ہم معاشرتی بگاڑ دیکھ رہے  ہیں ،اور ان پر ریاست و حکومت کا قوانین لانا دیکھ رہے    ہیں  ،یہ نوبت ہی نہ  آتی۔۔لیکن میں نے کہا نا کہ خود ساختہ شریعت اور شرعی تشریحات کی بدولت ہم نے خود موقع دیا ہے ،نئی نسل اور ریاست و حکومت کو وہ اب ہمیں خود نکیل ڈالے ورنہ ہم ڈانگ پھیرنے لگے معاشرتی منجھی تھلے۔

دنیا میں بہت سے بحران چل رہے ہیں    لیکن جنریشن ایکس, وائے اور زی کا بحران اس صدی میں بہت زیادہ سر اٹھانے والا ہے کیونکہ جنریشن ایکس کے نفوس اپنی مدت زندگی پوری کرکے راہی عدم ہونے والے  ہیں جبکہ  اصل خطرہ جنریشن وائے اور جنریشن زی کے مابین تضادات, اختیارات کی کشمکش اور غیر ہم آہنگی ہے جو معاشرتی بگاڑ کو بڑھا رہی اور تمام ریاستیں اور حکومتیں جو بھی قوانین بنا رہی اور اصلاحات لارہی ہیں ان کا تعلق براہ راست جنریشن وائے اور جنریشن زی سے ہی ہے تا کہ ان کے مابین متوقع تہذیبی و معاشرتی تصادم کو روکا یا کم سے کم اسکی شدت کو کم کیا جاسکے۔

خیر یہ جو خاندانی فلسفہ ہمارے یہاں رائج ہے یہ قطعی قطعی اسلامی نہیں لہذا مجھ جیسے اسلامسٹ لبرل کو اس کی رتی بھر پروا ہ نہیں کہ یہ بچتا ہے یا تباہ ہوتا ہے۔اسلام مساوات کا دین ہے جس میں ہر نفس پر کچھ فرائض اور کچھ حقوق واجب ہیں لیکن فوقیت کسی کو بھی ان فرائض یا حقوق کی وجہ سے نہیں بلکہ تقویٰ  اور ان کی بروقت اور بغیر کسی لیت و لعل ادائیگی کی وجہ سے حاصل ہوگی۔

بہرکیف ہم برصغیر والے اسلام کا بس نام جانتے ہیں جبکہ درحقیقت جس پر ہم عمل پیرا ہیں وہ ہندوتوا کا عریبک ورژن ہے۔ہندوتوا کے سنسکرت ورژن اور عریبک ورژن میں بس کلمہ, نماز, روزہ, ذکوۃ  اور حج کا ہی فرق ہے باقی تقریباً سب ایک سا ہے بالخصوص  خاندانی نظام تو مکمل ہندوانہ یا عرف عام میں مشرقی ہے, یاد رہے مشرقی نہ کہ اسلامی۔  ۔

قصہ مختصر یہ کہ خاندانی نظام ہمارا مقامی ہے اسلامی نہیں، تو پھر ایک جمہوری و نیم اسلامی ریاست و حکومت کے اقدامات پر ہم کس طرح معترض ہوسکتے ہیں۔ ۔ ۔ اسلامی و شرعی قوانین اور نظام سے چھیڑ ہوتی تو یہ چیز باعث تکلیف ہوتی لیکن یہاں نشانہ برصغیر کا رائج مقامی خاندانی نظام اور معاملات ہیں تو ہم کیوں ریاست و حکومت کو ڈکٹیٹ کریں اور کس لیے چیں بہ جیں ہوتے پھریں؟

شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

وَمَا عَلَيۡنَآ إِلَّا ٱلۡبَلَٰغُ ٱلۡمُبِينُ

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: یہ ایک فرمائشی تحریر ہے کیونکہ بار بار کہا گیا کہ آپ ضرور  اپنا موقف دیں ،لہذا اپنی خاموشی توڑ کر فی الحال 25 فیصد  موقف بیان کیا ہے۔ اختلاف والے سر آنکھوں پر اور اتفاق والوں کو درخواست کہ ان ابہام کو عوام میں کلیئر کرنے پر زور دیں۔ شکریہ

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply