سیانا سلیپر۔۔آنسہ رانا

میں جوتوں کے ایک بڑے برینڈ کے شوکیس میں پچھلے چھ ماہ سے سجا ہوا ہوں ۔ لوگ مجھے دیکھ کر چلے جاتے ہیں مگر مجھے خریدتے نہیں ہیں ۔ شاید میں انکی خوبصورتی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ایک دن ایک امیر عورت آئی اور اس نے چار پانچ سلیپرز اکٹھے خریدے، جن میں ایک میں بھی تھا۔

میں اس شوکیس سے جان چھوٹنے پر خوش تھا۔اب میں بھی باہر کی دنیا دیکھ سکوں گا۔۔

میں ان کے ساتھ ان کے گھر پہنچ گیا یہاں مجھے ان کے واش روم میں رکھ دیا گیا اور میں اپنے فرائض سر انجام دینے لگا ۔ایک صبح بیگ صاحب تیار ہو رہے تھے تو اچانک آفس سے کال آگئی کچھ ایمرجنسی ہو گئی تھی وہ جلدی میں جوتے بدلنا بھول گئے اس طرح میں ان کے ساتھ آفس پہنچ گیا۔ بیگ صاحب اکثر آفس میں مجھے پہنے رکھتے اور یوں میں ان کی کاروباری میٹنگز اور سودوں کا گواہ بن گیا ۔۔

تب میں نے دیکھا کہ انسان اپنے مفاد کے لیے کیسے جھوٹ بولتا ہے میں نے انہیں انشورنس پالیسی کے حصول کے لیے اپنی ہی فیکٹری کو آگ لگانے کا منصوبہ بناتے سنا اور پھر جب جلتی ہوئی فیکٹری کے ساتھ ساتھ 20 مزدور بھی جل گئےتو میں نے دیکھا کہ وہ بالکل مطمئن تھے ۔مجھے لگا شاید انسانوں کو جلنے کی تکلیف نہیں ہوتی مجھے تو یاد پڑتا ہے کہ جب جوتے بناتے ہوئے چمڑا پگھلانے کے لیے آگ سے گزارا کیا تو مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی۔۔۔مگر بیگ صاحب کا اطمینان بتاتا تھا کہ انسانوں کا جلنا کچھ خاص نہیں۔  انہوں نے ان کے خاندانوں کو ایک ایک لاکھ دے کر خاموش کروا لیا ۔

مگر اگلے ہی دن ان کو گھر سے کال موصول ہوئی کہ ان کے بیٹے پر ابلتی ہوئی چائے گر گئی ہے، تو وہ سلیپروں میں ہی بھاگتے ہوئے آفس سے نکلے اور ہاسپٹل پہنچے وہاں اپنے بیٹے کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے  لگے۔ ان کے اس طرح رونے سے مجھے سمجھ آئی کہ انسانوں کو بھی جلنے کی بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے اگر کوئی اپنا جلے تو۔۔۔۔مزدوروں سے تو بیگ صاحب کا کوئی تعلق نہ تھا اور پھر وہ غریب آدمی تھے انکی زندگی کی کیا اوقات۔

بیگ صاحب ڈاکٹر کو کہہ رہے تھے کہ میرے بیٹے کی تکلیف بڑھنی نہیں چاہیے ۔پیسے کی فکر نہ کریں جتنا پیسہ لگے گا میں دوں گا شاید اسی کام کے لیے انشورنس کے پیسے کی ضرورت تھی  ۔تب مجھے پتہ چلا کہ انسان کتنے خود غرض ہوتے ہیں اپنی اولاد کے لئے تڑپتے ہیں اور دوسرے کی اولاد کو خود پلاننگ کر کے مروادیتے ہیں۔  انسان کو ایسی دولت کی بھوک ہے کہ ہر الٹا سیدھا کام کر گزرتا ہے ۔۔۔ بیگ صاحب اپنے والد صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور اپنے شدید دکھ کا اظہار کر رہے تھے تو ان کے والد نے ان سے کہا کہ مسجد میں جاؤ اور اللہ کے سامنے اپنے بیٹے کے لئے شِفاء کی دعا کرو۔ تو انہوں نے اپنے ابو سے درخواست کی کہ آپ میرے بیٹے کے لیے دعا کریں تب ان کے والد نے ان سے سلیپر مانگے اور یوں میں انکے والد کے قدموں میں آ گیا ۔

وہ مجھے پہن کر مسجد گئے اور پھر مجھے باہر اتار کر اندر چلے گئے ۔شاید مسلمانوں کو لگتا ہے کہ ہم گندے جوتے مسجد میں  کیوں لے کر جائیں اللہ کے گھر کی بے ادبی ہوگی ۔۔ مگر وہ خود جو اپنے گندے تن  اور کالے من لے کر مسجد میں جاتے ہیں کیا تب اللہ کے گھر کی بے ادبی نہیں ہوتی  ۔؟

خیر میں وہیں باہر پڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا میرے ارد گرد بہت سے سلیپر تھے کچھ اچھے تھے اور کچھ ہلکے تھے جیسے ہی نماز شروع ہوئی اور جماعت کھڑی ہوئی ۔۔ تو ایک اجنبی آیا اور اس نے وہاں پڑے دو تین سلیپر اٹھا کر شاپر میں ڈالے اور چل پڑا میں اس اجنبی کے ساتھ اس کے گھر پہنچ گیا وہ غریب آدمی کی  کُٹیا تھی، اس نے ایک جوتا بیوی کو دیا ایک بیٹے کو اور ایک خود پہن کر کام پر چلا گیا وہ اناج کی بوریاں ٹرک میں بھر رہا تھا وہ مالک کے سامنے صحیح سےکام کرتا رہا ،تب مالک اس کے کام سے مطمئن ہو کر دور اپنے آفس میں جا کر بیٹھ گیا تو اس نے   بہت مہارت سے ایک بوری کا منہ کھولا اور اس میں سے اناج نکال کر ایک شاپر میں بھرا ،اسی طرح چار پانچ بوریوں سے تھوڑا تھوڑا کرکے پانچ شاپر بھر لیے اور پھرانکو چھپا دیااور خود دوبارہ سے بوریاں ٹرک میں لاد نے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے اس غریب آدمی کو بھی چوری کرتے ہوئے دیکھا اور اس سے پہلے ایک امیر آدمی کو بھی، میں حیران ہوں کہ انسان رب کی تقسیم پر راضی نہیں ہے ۔۔ وہ اپنے حصے سے بڑھ کر حاصل کرنے کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنے لیے مال جمع کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ۔  تومجھے خیال آیا کہ ان انسانوں سے تو ہم پاؤں کی جوتیاں ہی اچھی ہیں، کم از کم ہم اپنے مفاد کے لیے کسی کو نقصان تو نہیں پہنچاتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply