نایا ب ہے اک اک بوند۔۔خنساء سعید

اللہ تعالی نے انسان کے لیے بے شمار نعمتیں پیدا کی ہیں، اُن تمام نعمتوں میں ایک ایسی نعمت بھی ہے جو انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے اور وہ بے رنگ ،بے بو، بے ذائقہ نعمت “پانی” ہے ۔پانی زندگی ہے، یہ انسانی جسم میں دوڑنے والا لہو اور اعضا کو متحرک رکھنے والا مادہ ہے ۔شبنم کی ٹھنڈک ،ہوا کی خنکی ،کلی کی مہک ،شگوفے کی چٹک ، سبزے کی لہک، بلبل کی چہک ،اور لہروں کی روانی پانی ہی کے دم سے قائم دائم ہے  ۔پانی انسان کا حیات بخش سرمایہ ہے اور اس قیمتی سرمائے کو انسان اس طرح بے دریغ استعمال کر رہا ہے کہ اس کرہ ارض پر موجود ہر ذی روح کو اپنی زندگی خطرے میں محسوس ہو رہی ہے ۔ان قیمتی بوندوں کا ضیاع کرنے والے انسان کی عقل نا رسا نے جب حال کے پردوں کے اُس پار دیکھا تو اُس کو آنے والی نسلوں کا نوحہ سنائی دینے لگا !!وہ آج کے انسان پر روتی ہوئی نظر آئیں ۔یوں محسوس ہوا جیسے وہ سوال کر رہی ہوں ؟ کہ اے مستقبل سے نظریں چرانے والے حال کی مستی میں مگن رہنے والے کم اندیشو! !تم نے آنے والی نسلوں کی بھلائی کے لیے کچھ بھی سوچا تھا ؟وہ زمین جو کبھی فرحت آمیز فضاؤں کا مسکن تھی ،اُس زمیں کو انسان نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے اتنی بے دردی سے نوچا کہ یہاں کھلنے والی کلیاں پانی کے چند قطروں کے انتظار میں دم توڑ رہی ہیں ۔زمین تو آپ اور ہم سب کی مادرِ مہربان تھی ،انگاروں کی طرح دہک رہی ہے ۔یہ زمین زہریلی گیسوں اور فرسودہ مادوں کا مجموعہ بن چکی ہے یہاں پانی نہیں ملتا بلکہ ہر طرف زہریلی گیسوں کا مجموعہ ہے ۔

پانی کے بحران سے اب صرف پاکستان ہی دو چار نہیں بلکہ اب یہ ایک عالمگیر مسئلہ بن چکا ہے اور اقوام کے درمیان تنازعات اور کشیدگی کا سبب بن رہا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پانی کی سنگین کمی سے دوچاردس ممالک میں شامل ہو چکا ہے،اور پاکستان میں نئے آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21 ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے ۔پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30 دن کی ہے جبکہ دوسری طرف دنیا بھر میں دستیاب پانی کا 40 فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے اور پاکستان صرف موجودہ پانی کا 10 فیصد ذخیرہ کر سکتا ہے تو ایک طرف تو پاکستان اربوں ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں پھینک رہا ہے تو وہیں دوسری طرف آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو پانی کے ایک بڑے بحران کا سامنا ہے ۔پانی نا پید ہوتا جا رہا ہے ۔دریا اور نہریں خشک ہو رہی ہیں ،زیر زمین آبی ذخائر دن بدن ختم ہو رہے ہیں چشمے اور کنویں ختم ہو رہے ہیں بڑھتی ہو ئی آبادی کی وجہ سے صاف پانی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے ۔زرعی زمینیں چلو بھر پانی کو ترس رہی ہیں ،ہم نے جدید ترین مشینری سے زراعت کے عمل کو آسان تو بنا لیا ہے لیکن یہ نہیں سوچا کہ کھیتوں کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے پانی کہاں سے آئے گا ؟ہم نے فیکٹریاں اور کارخانے لگا کر یہ اطمینان تو کر لیا ہے کہ ہم خوشحال ہو جائیں گے لیکن یہ نہیں سوچا کہ ان سے نکلنے والا دھواں کہا ں جائے گا ؟ہم نے پٹرول اور گیس پر چلنے والی گاڑیاں چلا کر یہ گمان تو کر لیا ہے کہ ہم ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں مگر یہ نہیں سوچا کہ ان کے سلینسروں سے نکلنے والا زہریلا مادہ ماحول کو آلودہ کر رہا ہے اور ان سب کے نتائج میں کرہ ارض کا ٹمپریچر بڑ ھ رہا ہے ۔کارخانوں کا دھواں اور زہریلی گیسیں اس زمین کو آگ بگولے میں تبدیل کر رہی ہیں بلکہ پانی کی قلت کا باعث بھی بن رہی ہیں گلیشیئر پگھل رہے ہیں درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے بارشیں کم ہو رہی ہیں اس مہلک اور خطر ناک کھیل میں ہم سب برابر کے شریک ہیں ۔فطرت سے کھیل کر نباتا ت اور جمادات کو تباہی کے دھانے پر لا کر اس زمین کو پانی جیسی نعمت سے محروم کر کے ہم نا جانے انسا نیت کی کون سی خدمت کر رہے ہیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors

اب سوال یہ ہے کہ ان نایاب بوندوں کو کیسے سنبھال کر رکھا جائے ، ذخیرہ کیسے کیا جائے ؟تو پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے منگلا ڈیم جیسے تین بڑے ڈیمز کی ضرورت ہے ۔ہمیں زمین سے اُٹھنے والی زہریلی گیسوں اور مادوں سے فضا کو ایک مرتبہ پھرپاکیزہ بنانا ہو گا ۔آبادی پر قابو پانے سے پانی کی مانگ میں کمی آجائے گی ۔گھروں میں پانی کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا ۔وضو کے لیے پانی کم کم بہانا ہو گا ۔کیوں کہ پانی کی ایک ایک بوند نعمت ہے اور ہماری آنے والی نسلوں کی امانت ہے ہمیں زیر ِ زمین آبی ذخائر کی خفاظت کرنا ہو گی تا کہ ہم آنے والی نسلوں کی بقاکو داؤپر نہ لگا ئیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply