پشتون ولی:ایک وقتی زوال۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

اگر آپ کسی پشتون کو کہے کہ آپ افغان نہیں ہو تو اسے آپ کی غلط فہمی سمجھ کر شاید وہ مسکرا دیں اور درگزر کردے۔ لیکن اگر آپ کسی پشتون کو یہ کہے کہ آپ میں تو سرے سے “پشتو” ہی نہیں ہے تو لازم ہے کہ وہ بحث و تکرار کے علاوہ آپ سے باقاعدہ لڑائی پر اتر آئے۔ کیوں؟ اس لیے کہ پشتو کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پشتون ولی سے عاری ہیں۔ پشتون ولی کیا ہے؟ یہ وہ نا تحریر شدہ آئین ہیں جسے پشتون اپنے معاشرے میں صدیوں سے نسل در نسل منتقل کرتے چلے آرہے ہیں۔ پشتون ولی پشتونوں کے اس ضابطہ اور آئین کا نام ہے جس پر ان کی معاشرتی زندگی، تہذیب اور اقدار وروایات کی اساس ہے۔ پشتون ولی کے تحت پشتون مہمان نواز ہوتے ہیں۔ پشتون ولی کے تحت اگر کوئی کسی کو پناہ دے تو سب پشتون اس کی پاسداری کرتے ہیں۔ پشتون ولی کے مطابق ہر پشتون”بدل” یعنی انتقام لینے میں آزاد ہوتا ہے لیکن یہ بدل صرف انتقام کے مفہوم میں نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کا ایک اعلیٰ معنی یہ بھی ہے کہ” نیکی کا بدلہ نیکی” اگر بوقت ضرورت کوئی آپ کے ساتھ نیکی کریں تو آپ پر اس کا بدل قرض ہو جاتا ہے جیسا کہ مشہور ہے (دہ فلانی پہ ما بدل پورے دے) فلاں کا مجھ پر بدل قرض ہے۔ پشتون ولی کا ایک دستور ” ننواتے” (مخالف کے گھر میں داخل ہونا) ہے ۔ مخالف کا اپنے کیے پر پشیمان ہو کر آپ کے گھر آنے کو پشتو میں ننواتے کہتے ہیں۔ اس دستور کے مطابق ننواتے کو تسلیم کرنا اور آنے والے کو معاف کرنا لازمی ہوتا ہے چاہے وہ قاتل ہی کیوں نہ ہو۔ پشتون ولی کے دستور میں حجرہ، جرگہ، سپرد کردہ زمین کی آخری دم تک حفاظت کرنا، عورت اور بچوں کو قتل نہ کرنا، مجرم خاندان کے کسی عورت کی درخواست پر لڑائی بند کرنا، بد کار کو سزا دینا، اور جو ہتھیار ڈال دے اس کی جاں بخشی کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاو پشتون ولی کی وہ روایت جس کی پشتون سب سے بڑھ کر پاسداری کرتے ہیں وہ یہ کہ جب بھی کسی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو پھر اس پر مکمل طور پر یقین اور اعتماد کرتے ہیں۔ لیکن پشتون ولی کی یہ روایت اکثر وقتی زوال کا سبب بنتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک تاریخی واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ 15ویں صدی عیسوی میں میں جب مرزا الغ بیگ ماوراء النہر سے شکستہ خوردہ حالت میں کابل آیا تواس وقت” ملک سلیمان شاہ یوسف زئی” سے ان کا تعلق پیدا ہوا۔ تاریخی طور پر یوسف زئی وہ قبیلہ ہے جس نے پشتونوں کی سیاسی وحدت اور حب الوطنی کا پرچار سب سے پہلے شروع کیا۔ ابتداء میں یہ قبیلہ افغانستان میں آباد تھا اور اپنے اندرونی اتفاق، مستحکم فوجی قوت اور معاشی خوشحالی کے باعث ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ اسی لیے مرزا الغ بیگ نے ملک سلیمان شاہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور دونوں کے درمیان اعتماد کی فضاء پیدا ہوگئی۔ ملک سلیمان شاہ نے مرزا کی پرورش بالکل اپنے بیٹوں جیسے کی۔ اور سوچا کہ یہ تیموری شہزادہ جب بادشاہ بنے گا تو سلطنت میں یوسف زئی جاہ و حشمت کے مالک بن جائیں گے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ بادشاہ بننے کے بعد اگر چہ کابل مرزا کے زیرِ اثر تھا لیکن عملی طور پر اس کے پشتون قبائل آزاد حیثیت سے زندگی گزارتے تھے۔ اور اپنے قبائلی نظام میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے تھے۔ کابل میں یوسفزئیوں کی سیاسی طاقت مرزا کی حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا۔ اسی لیے مرزا کسی بھی قیمت پر ان کی بیخ کنی کے درپے ہوگیا۔ ایک دفعہ مرزا نے گگیانیوں کے ساتھ ملکر خفیہ طریقے سے فوج منظم کی اور پوری قوت کے ساتھ غفلت میں پڑے یوسفزئیوں پر حملہ کیا لیکن یوسف زئی بھی تو بہادری میں ممتاز تھے۔ انہوں نے ایسے ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ دونوں فوجوں کو شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ اس شکست کے بعد کابل کا مغل بادشاہ اپنی کمزور سیاسی اور فوجی حالت کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ یوسف زئی کو میدا میں شکست دینا ناممکن ہے۔ مرزا نے پشتون ولی کے دستور کے مطابق یوسف زئی کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا اور اپنے کیے پر پشیمانی ظاہر کی۔ نتیجتاً یوسفزئیوں نے صلح قبول کر لی۔ اور مرزا کے پرزور اصرار پر یوسف زئی اس بات پر بھی راضی ہوگئے کہ کابل جا کر بادشاہ کے محل میں حاضر ہوجائیں۔ چناں چہ سات سو کے قریب یوسف زئی سرداران اور جنگجو کابل پہنچ گئے۔ منصوبہ کے تحت مرزا کے آدمیوں نے روایات کے مطابق باہر ہی اسلحہ چھوڑنے کو کہا۔ لہٰذا تمام سرداران اور جنگجوؤں نے اسلحہ وہی چھوڑا اور شہر میں داخل ہوگئے۔ محل پہنچنے پر بادشاہ نے ان کا پر جوش استقبال کیا اور بڑے اکرام کے ساتھ ان سے پیش آیا۔ اور اپنے امراء میں یوسف زئیوں کو تقسیم کیا کہ ان کی اچھی مہمان نوازی کی جائیں۔ جب گروہوں میں تقسیم ہو کے یوسف زئی مہمان بنے تو منصوبے کے مطابق بادشاہ نے قتل کا حکم دیا۔ ملک سلیمان شاہ کے پاس اب اپنے باقی قبیلے کو بچانے کا صرف ایک ہی راستہ بچا تھا اور وہ تھا ملک احمد کی زندگی۔ جس کے لیے ملک سلیمان شاہ نے بادشاہ سے التجاء کی کہ میرے سابقہ خدمات کے عوض میری ایک درخواست قبول فرمائیں۔ ملک احمد کی جان بخش دیں اور بدلے میں میری جان لے لیں۔ بادشاہ ملک سلیمان شاہ کی جان لینے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا لیکن وہ ملک احمد کو بھی چھوڑنے پر راضی نہ تھا۔ چناں چہ ملک سلیمان شاہ نے بادشاہ کو یہ باور کرایا کہ ملک احمد باقی قبیلے کو لیکر یہاں سے ہجرت کر لیں گا آپ سے اور آپ کی سلطنت سے کوئی سروکار نہیں رکھے گا۔ نا چاہتے ہوئے بھی مرزا نے یہ قبول کر لیا اور ملک احمد کو چھوڑ کر باقی تمام سرداران اور جنگجوؤں کو شہید کردیا۔
عزیزانِ من۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اگر ملک احمد اپنے قبیلے کو لیکر پشاور کی طرف ہجرت نہ کرتے تو آج پشتونوں کی تاریخ مختلف ہوتی آج پشتونوں کے سارے قبائل خانہ بدوشوں کی طرح زندگی گزار رہے ہوتے۔ ملک احمد خان یوسف زئی ہی پشتونوں کا قومی اور سیاسی لیڈر تھا جس نے پشتونوں کے لیے ایک علیحدہ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کی بنیاد فراہم کی۔ اس لیے ملک احمد خان کو بجا طور پر پختون خواہ کا بانی کہا جاتا ہے۔ ان کی سیاسی بصیرت، بلند پایہ منصوبہ سازی اور جنگی صلاحیتوں نے اس وقت کے تمام منتشر پشتون قبائل کو یک جا کر کے پختون خوا کی بنیاد رکھی۔ آج چوں کہ الیکٹرونک میڈیا کا دور ہے اگر آج ملک احمد کی زندگی اور جدو جہد پر ڈرامہ بنایا جائے تو مجھے یقین ہے کہ کم از کم پشتون قوم ارطغرل اور عثمان کے بجائے اپنے بزرگوں اور لیڈروں کو یاد کرے گی بلکہ فخر کرے گی۔ اور باقی دنیا بھی ان کی سیاسی بصیرت اور جنگی صلاحیتوں کی داد دیے بغیر نہیں رہے گی۔ لیکن افسوس آج تو ہمارا یہ حال ہے کہ ملک احمد اور احمد شاہ تو دور ہم موجودہ دور کے اپنے پشتون بھائیوں کے کارناموں کا انکار کرتے ہیں۔ ہماری اکثریت آج بھی افغان پشتونوں کی روس کے خلاف فتح کو امریکہ کی فتح کہتے ہیں۔ میرا ان سے سوال ہے کہ اگر امریکہ ہی نے روس کو شکست دی تھی تو آج امریکہ خود 20 سال افغانستان میں لڑنے کے بعد کیوں ذلت اور رسوائی کے ساتھ بھاگ رہا ہے؟ عجیب بات ہے کہ اس امریکہ نے تو سپر پاور روس کو پاؤں تلے روند ڈالا اور ان چند افغان پختونوں سے 20سال لڑنے کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں کر سکا۔ اور یہ جو عام لوگوں کا خیال ہے کہ افغان طالبان کی مدد پاکستان کی حکومت کرتی تھی تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پھر آئیں سب ملکر حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے افغانستان میں امریکہ کو شکست دی اسی طرح آپ کشمیر میں انڈیا کو شکست کیوں نہیں دیتے؟ انڈیا تو امریکہ سے بڑھ کر طاقت ور نہیں ہے۔
عزیزانِ من۔ یہ ہم پشتونوں کی اپنی بے وقوفی ہے ہم خود اپنوں کے کارناموں پر غیروں کے لیبل چسپاں کرتے ہیں۔ اگر روس اور امریکہ کو کسی دوسرے قوم نے شکست دی ہوتی تو وہ قوم ہر سال اس دن کو مناتی اور اس پر فخر کرتی۔ لیکن پشتونوں کو چھوڑیں کہ چاپلوسی کرتے رہیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ اگر انڈیا کے پنجابی سکھوں نے جس دن بھی انڈیا سے الگ اپنا ملک بنالیا تو آپ دیکھیں گے کہ پاکستانی پنجابی کیسے ان کی خوشی میں شریک ہوتے ہیں اور حکومت ان سے کیسے سفارتی اور برادرانہ تعلقات استوار کرتی ہے۔ حالاں کہ وہ سکھ ہے اور یہ مسلمان لیکن ان کی اس قربت کی وجہ صرف زبان ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا تھا کہ “نوجوت سنگھ سدھو” جب ایک لشکر جرار لیکر کرتار پور کے راستے پاکستان آیا تھا تو ریاستی طور پر ان کا کیسا شاندار استقبال ہوا تھا اور ہمارے وزیراعظم تک سارے لوگ ان کی پنجابی میں تقریر کو کتنے ادب واحترام کے ساتھ سن رہے تھے۔ اور روس میں بنائی گئی وہ ویڈیو تو ساری دنیا دیکھ چکی ہے جس میں انڈیا اور پاکستان کے فوجی پنجابی گانے پر ناچ رہے ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کے خون کی پیاسی فوج ملکر ناچ رہے تھے کیوں؟ اسی لیے کہ وہ ہم زبان تھے۔ اگر پاکستانی پنجابی انڈیا کے پنجابیوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کر سکتا ہے تو پاکستانی پشتون بھی افغانستانی پشتونوں کے لیے امن کی بات کرسکتا ہے۔ پاکستان پر جتنا حق پنجابیوں کا اتنا ہی حق پختونوں،سندھیون اور بلوچوں کا ہے۔ ہم پاکستانی ہیں اور رہیں گے۔ لیکن افسوس کہ ایک طرف تو ہمارے وزیراعظم صاحب امریکہ کو اڈے نہ دینے اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں غیر جانبدار رہنے کے بیانات دے رہے ہیں تو دوسری طرف پختون خواہ اور افغانستان میں امن اور غیروں کی مداخلت بند کرنے کی بات پر پشتون لیڈروں کو شہید کیا جارہاہے۔ جس کی تازہ مثال عثمان خان کاکڑ کا واقعہ ہے۔ اور میری ایک گزارش لر او بر کے پختون سیاسی رہنماؤں سے یہ ہے براہِ کرم امریکہ کی صلح پر پشتون ولی کے دستور کے مطابق اعتماد نہ کریں اور تھوڑا سا ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا کریں ایسا نہ ہو کہ کہیں دوبارہ یوسف زئیوں کے قتلِ عام کی تاریخ دہرائی جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply