عالمِ بالا سے کتابوں کا تحفہ(1)۔۔فیصل عظیم

وہ، جن سےآپ اس اعتماد کے ساتھ بات کرسکتے ہوں کہ اسے سمجھنے والا کوئی ہے، کہ دل سے نکلی، دل تک پہنچی۔ ایسے کم یابدوست آپ کی آواز کے لیے سماعت سےکم نہیں ہوتے، مگراس نعمت کا احساس تبھی ہوتا ہے جب یہ نہ رہے۔ محمد ظہیر الدین، یعنی ظہیر بھائی، میرےایسے ہی دوست تھے۔ جب کبھی اردگرد کی گھٹن کا جام لبریز ہوجاتا، ہم کسی’’ٹِم ہورٹنز‘‘(کافی شاپ) یا ان کے گھر پہ چائے، کافی کے ساتھ اسے چھلکا لیتےاوردل کی بھڑاس نکال لیتے۔ مگر اب وہ سماعت کہاں! وہ نہیں رہے تو’’وہ ٹم ہورٹنز‘‘بھی نہیں رہا۔اب وہ نئی نئی قسموں اور رنگوں کی چائے بھی نہیں رہی جو وہ بنا بنا کر پلاتے رہتے تھے۔ وہ وقت نہیں رہا جب رات رات بھر موسیقی کی دھنیں ہوتیں، گانوں کی کاٹ چھانٹ ہوتی،انگوروں کے گچھّے،گاٹھیا، نمکو اور میوے ہوتے اور ظہیر بھائی کے مزیدار قصّے اور جہان بھر کی باتیں ہوتیں۔

اکثر وہ فون پہ اپنے میٹھے حیدرآبادی لہجے میں ’’حضرت‘‘ کو کھینچ کر کہتے ’’اجی حضرت، کدھر ہیں آپ، بہت دن ہو گئے آواز نہیں سنی آپ کی‘‘ یا پھر ’’کہاں ہیں فیصل بھائی، بہت دن ہوگئے ملاقات نہیں ہوئی، چائے نہیں پی، چلیں چائے پیتے ہیں‘‘۔ اور اگر میں کبھی کہتا کہ ’’ظہیر بھائی پرسوں ہی تو ملے تھے، بہت دن کیسے ہوگئے‘‘ تو وہ ہنس کر کہتے ’’دو دن بہت ہوتے ہیں نا‘‘۔ مگر اس باریہ نہیں ہوا۔ اس بار انھوں نے دو دن کے بجائے مہینوں، بلکہ زمانوں بعد مجھے کچھ اور ہی طرح سے مخاطب کیا، وہ بھی عالمِ بالا سے!جب اُن کے گھر سے فون آیا مگر آواز ان کی نہیں تھی اور الفاظ یہ تھے’’فیصل بھائی، ظہیر نے آپ کے لیے کتابیں بھیجی تھیں، جو ابھی پہنچی ہیں‘‘۔ یہ ظہیر بھائی کے انتقال کے دو مہینے بعد ان کی طرف سے کتابوں کے تحفےکی اطّلاع تھی اور اطلاع دینے والی فرحت بھابھی تھیں، ظہیر بھائی کی، نفیس، شائستہ، نہایت مضبوط شخصیت اور اعصاب کی مالک اور محبّت  کرنے والی بیوی۔

ظہیر بھائی جنوری ۲۰۲۰ میں ٹورانٹو سے انڈیا جارہے تھے تو میں نے ان سے ایک کتاب لانے کی فرمائش کی تھی۔ اپریل میں ان کی واپسی تھی، باقی گھر والوں کو جلدی واپس آنا تھا اور چھوٹی بیٹی تبسّم کو ٹورانٹو سے پہلے کچھ عرصے کے لیے انگلینڈ،اپنے سسرال جانا تھا۔ مگر ظہیر بھائی نے انڈیا پہنچتے ہی میرے لیے کتابیں خریدیں اورمجھے پہنچانے کی تاکید کے ساتھ بیٹی کو دے دیں۔ پھر ظہیر بھائی کے علاوہ باقی سب گھر والے انڈیا سے چل دیے اورمارچ میں کووڈنے پروازیں بند کرادیں تو وہ انڈیا میں پھنس گئے۔ بالآخرحیدرآباد، جس سے انھیں عشق تھا، جس کے قصّے وہ سناتے رہتے تھے، اسی کی خاک کا جزو ہو گئے۔ ان کے انتقال کے کئی ہفتے بعد بیٹی ٹورانٹو پہنچی تو مجھے کتابیں دیتے ہوئے بتایا کہ ’’بابا نے سختی سے کہا تھا یہ کتابیں فیصل بھائی تک بحفاظت پہنچانا تمھاری ذمے داری ہے، انہیں سوٹ کیس میں مت رکھنا، ہینڈ کیری میں رکھنا اور اگر ہینڈ کیری جہاز والے لے لیں تو کتابیں نکال کر پرس میں رکھ لینا مگر کسی حال میں خود سے الگ نہیں کرنا‘‘۔عجیب بات تھی۔ کسے معلوم تھا کہ بے وقت کی تاکید، بروقت وصیّت ثابت ہوگی۔ اگر وہ یہ کتابیں پہلے سے نہ بھجواتے تو شاید مجھ تک کبھی نہ پہنچ پاتیں مگر انھوں نے میری کوئی بات نہ پہلے ٹالی اور نہ جاتے جاتے ٹالی۔ انتقال کے بعد بھی فرمائش پوری کردی اور شکریے تک کا موقع نہیں دیا۔

ظہیر بھائی کیسے تھے۔ چھوٹا نہیں درمیانہ قد کہہ  لیجیے، سر پہ اکثر فلیٹ کیپ (بیریٹ کیپ)، زندہ دل، منکسر المزاج، لوگوں کے کام آنے والےاور صاف دل۔باوجودیکہ انھیں لوگوں کی پہچان تھی، ان کی صاف طبیعت اور خلوص بازی لے جاتے اور وہ لوگوں کی زبان پر بھروسہ کر لیا کرتے کہ نیت پہ شک کرنے سے کتراتے تھے۔ کوئی بات ہوتی تو بس یہی کہتے کہ ’’چھوڑیں، جانے دیں، جی کو کیا جلانا‘‘۔ لوگ ان کی سادگی کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے تھے مگر وہ طبیعت مکدّر کرنے والی باتوں کو جی سے نہیں لگاتے تھے،نہ بدلہ لیتے اور نہ نقصان کی پرواہ  کرتے۔ہمیشہ میٹھا بولتے اور چھوٹے بڑے، ہر ایک سے کہتے تھے ’’میرے لیے دعا کریں‘‘۔

و ہ سرکاری طورپہ تو ہندوستانی تھے مگر سینے میں ہندوستانی کے ساتھ پاکستانی دل بھی رکھتے تھے۔ دونوں ملکوں کی سیاست اور فلم انڈسٹری انھیں ازبر تھی۔ وہ گلوکار بھی تھے، موسیقار بھی۔ وہ کینیڈا میں تھے اور میں کیلی فورنیا میں جب ہماری رسمی دوستی بذریعہ انٹرنیٹ ہوئی، غالباً کسی ای میل گروپ پہ (یاہو گروپ)، تب فیس بک نہیں تھی۔ ان کی موسیقی،میری شاعری اور میرے والد شبنم رومانی صاحب کی ویب سائٹ اس رابطے کا سبب بنی۔ کینیڈا آیاتو یہ تعلق باقاعدہ دوستی میں بدل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ظہیر بھائی اور فرحت بھابھی گویا ہمارے گھر کا حصّہ بن گئے۔ان کے دلچسپ جوڑے کی مزیدار نوک جھونک سے ہم بھی لطف اندوز ہوتے تھے اور وہ دونوں بھی۔ ہم سوچتے ہیں کہ دو اتنی مختلف شخصیتوں کے لوگوں میں اتنی محبت کیسے ہوگئی کہ وہ جیون ساتھی بن گئے۔مگر یہ جو اپنائیت کا احساس ہے، یہ مزاج اور شخصیت کی ہم آہنگی سے بڑھ کر کوئی شے ہے جو مختلف لوگوں کو ایک کر دیتا ہے۔ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کے ان زندہ دل والدین نے اپنے بچّوں کو بھی انسانیت سے محبّت ہی سکھائی۔یہی وجہ تھی کہ ان کے بیٹے نے معاشرے کی نسل پرستی کے رنگ بچپن میں دیکھے اور سہے مگر اپنے خلوص اور محبت پہ آنچ نہیں آنے دی۔انھوں نے اپنی چھوٹی بیٹی کی شادی کچھ ہی عرصے پہلے گھر میں سادگی سے کی تھی اور اگست میں دوستوں، رشتےداروں کو اس خوشی میں باقاعدہ شریک کرنے کا ارادہ تھا، جو نہ ہو سکا۔ظہیر بھائی اٹھتّر سال کی عمر میں بھی اتنے مستعد اور چاق و چوبند تھے کہ عمر کا اندازہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ بہت پیارے انسان تھے، رنگین مزاج، باذوق، تازہ فکر، توانائی سے بھرپور اور ہنس مکھ بلکہ کھل کر ہنسنے والے۔انگوٹھیوں اور پتھروں کا انھیں شوق بھی تھااور علم بھی۔ پتھروں کی یہ پہچان ان کے بڑے بھائی کی مرہونِ منّت تھی جو انڈیا میں قیمتی پتھروں کا کام کرتے تھے۔ ستاروں کے بارے میں ان سے جتنی دیر چاہیں بات کرلیں۔ وہ لوگوں کی سالگرہ تو بھول سکتے تھے مگر ان کے ستارے کبھی نہیں بھولتے تھے۔ میری تو خیر سالگرہ بھی کبھی نہیں بھولے، یہ تہمت ہمیشہ میری ہی یادداشت کے سر رہی۔

میں نے جب بھی ان سے کوئی کام کہا، کوئی مشکل بیان کی تو انھوں نے اسےاپناکام، اپنا مسئلہ، اپنی ضرورت بنا لیا۔ جب میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کیا کروں تو ان کو فون کرلیتا اور پھر وہ مسئلے کے حل تک بلامبالغہ میراساتھ دیتے اور جہاں جانا پڑتا، ساتھ جاتے۔ مجھے کسی پیچیدہ معاملے میں مشورہ چاہیے ہوتا تو ظہیر بھائی ہی یاد آتے، اور اب تو صرف یاد ہی آسکتے ہیں۔ ایک بار میں نےایک سرکاری ادارےکے زچ کرنے پر غصّے میں ایک حرکت کر  ڈالی جو اپنے گلے بھی پڑ سکتی تھی۔ واپسی پہ ظہیر بھائی کے گھر گیا تو انھیں سب رام کہانی سنائی۔مگر صرف تمہید سن کر انھوں نے کہا ’’فیصل بھائی آپ نے جو بھی کیا ہو، میں آپ کے ساتھ ہوں‘‘۔ پھر پوری بات سنی تو خوب ہنسےاور بولے’’جو کیا ٹھیک کیا، میں آپ کے ساتھ ہوں‘‘۔ مجھے ظہیر بھائی سے یہ اعتماد ہمیشہ ملا اور یہ کوئی لفّاظی نہیں تھی۔میں نے جب بھی مڑ کر دیکھا، انھیں بڑے بھائی کی طرح اپنے ساتھ پایا۔

ظہیر بھائی پیشے کے اعتبار سے ریئلٹر تھے۔ میرے گھر کی خریدوفروخت ہمیشہ انہی کے ہاتھوں ہوئی۔مگراس میں جس طرح بحیثیت دوست انھوں نے میری مدد کی، وہ ریئلٹر کا کام نہیں۔ اس پر ان کی یہ عادت کہ طریقۂ کارکے مطابق جو کمیشن ان کو جاتا، اس کا بڑا حصّہ بعد میں،کسی بہانے سے،کسی نہ کسی شکل میں مجھے لوٹادیتے۔ان کے خلوص اور ایمانداری پر اعتماد ہی تھا کہ ایک بار مجھے نوکری کے سلسلے میں امریکہ جانا پڑا۔ بے یقینی کی صورت حال تھی،معلوم نہ تھا کہ واپس آؤں گا یا کب آؤں گا۔ جاتے ہوئے میں اپنے مکانات کا مکمّل پاور آف اٹارنی ان کے نام بنوا گیا تاکہ بوقتِ ضرورت کام آسکے۔ اور وہ کام آئے، اور بغیر کسی معاوضے کے۔

ہماری بےتکلّفی کاایک واقعہ سنیے۔ ظہیر بھائی کے دستخط آسان نہیں تھے۔ وہ میرے ایک معاہدے میں گواہ تھےمگرمعاہدے پر ان کے دستخط ہونے سے رہ گئے۔جب مجھے یاد آیا تو وقت کم تھا اور کاغذات جمع کرانے تھے تومیں نے خود ہی ان کے دستخط کردیے اور کاغذات جمع کرادیے۔جب انھیں جاکر یہ بات بتائی تو پہلے تو وہ ہکّا بکّا رہ گئے اور پھر دیکھتے دیکھتے ان کی جو ہنسی چھوٹی تو دیر تک ہنستےرہے مگر برا نہیں مانا۔ وہ یونہی بچّوں کی طرح بے ساختہ، بغیر کسی کی پروا کیے کھل کراور دیر تک ہنسا کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply