• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افغانستان میں ائیر بیس اگر خالی کر دئیےگئے ہیں تو حالیہ ڈرون حملہ کہاں سے آپریٹ ہوا؟۔۔ غیور شاہ ترمذی

افغانستان میں ائیر بیس اگر خالی کر دئیےگئے ہیں تو حالیہ ڈرون حملہ کہاں سے آپریٹ ہوا؟۔۔ غیور شاہ ترمذی

امریکی افواج کی طرف سے افغانستان میں موجود تمام زمینی اور فضائی اڈوں کو خالی کر دینے کی اطلاعات کے بعد پچھلے 2 دنوں میں افغانستان میں ایک ڈرون طیارہ حملہ کے نتیجہ میں کافی طالبان مارے گئے ہیں۔ تکنیکی طور پر یہ ممکن ہی نہیں کہ اگر افغانستان سے زمینی اور فضائی اڈے خالی کر دئیے گئے ہوں تو ڈرون طیارے بحیرہ ہند میں موجود امریکی بیڑہ، آذر بائیجان میں امریکی اڈوں یا انڈین اڈوں سے اڑائے جا سکیں۔ ایران سے امریکی ڈرون طیارہ اڑنے کے امکانات نہیں ہیں۔

اس لئے سوال تو بنتا ہے کہ پھر یہ ڈرون طیارہ کہاں سے اڑا ؟۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ڈرون طیارہ پاکستانی سرزمین سے نہیں اڑا تو پھر یہ آخر کہاں سے اڑا؟۔ غالب امکان یہی ہے کہ ابھی بھی کچھ اڈے افغانستان میں ایسے ہیں جو امریکی افواج کے کنٹرول میں ہیں۔

افغانستان سے زمینی اور ائیر Bases سے امریکی افواج کے انخلاء کی کچھ تفصیلات درج ذیل ہیں۔
1):۔ اپریل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے انخلا کے لئے ستمبر کا ہدف مقرر کیا تھا۔ اس دوران افغانستان میں مقیم تمام 2،500 امریکی فوجیوں اور 16 ہزار کے قریب سویلین کنٹریکٹرز کو ملک سے باہر نکالنا ہے تاکہ امریکی فوج کو دو دہائیوں پر مشتمل اس جنگ سے نکالا جا سکے۔

2):۔ امریکہ نے یکم مئی سے پہلے 6 فوجی اڈے افغان افواج کے حوالے کردیئے تھے۔

3):۔ مئی کے وسط میں جنوبی افغانستان میں قندھار ایئر فیلڈ سے انخلا کو بھی مکمل کیا جو اس وقت ملک کا دوسرا سب سے بڑا غیر ملکی فوجی اڈہ تھا۔

4):۔ اسی مہینہ یعنی 2 جون کو امریکی وزارت دفاع کے ترجمان نے اعلان کیا کہ امریکی فوج کے افغانستان سے جاری انخلا کے آخری مرحلے میں امریکہ دہائیوں سے اپنے زیر استعمال ملک کے سب سے اہم اڈے بگرام ایئر بیس کو چند روز میں افغان حکومت کے حوالے کر دے گا۔اس انخلاء کے لئے آخری تاریخ 22 جون مقرر کی گئی تھی لیکن اسے 16/17 جون کو ہی خالی کر دیا گیا تھا۔ بگرام ایئربیس گذشتہ دو دہائیوں سے امریکی فوج کے لئے زمینی اور فضائی کارروائیوں کا مرکز تھا۔ اس اڈے میں ایک جیل بھی قائم کی گئی تھی جس میں ہزاروں طالبان اور دیگر قیدی گذشتہ کئی برسوں سے قید ہیں۔

5):۔ پینٹاگون نے اسی مہینہ کے شروع میں اعلان کیا تھا کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کی رفتار بڑھا رہا ہے۔ امریکہ پہلے ہی 300 سی 17 ٹرانسپورٹ طیاروں کے ذریعے اپنا فوجی ساز و سامان افغانستان سے نکال چکا ہے۔

دہشت گردی کے واقعہ نائن الیون کے بعد امریکہ کو افغانستان میں دہشت گردوں پر حملوں کے لئے فضائی اور زمینی مدد کی ضرورت تھی جس کے لئے پاکستان اور امریکہ کے درمیاں دو معاہدے ہوئے تھے۔ ان معاہدوں کے مطابق اے ایل او سی کے تحت امریکہ کو فضائی اڈے اور جی ایل او سی کے تحت زمینی راستے استعمال کرنے کی اجازت ملی تھی۔ یہ معاہدے دہشت گردی کی عالمی جنگ کے دوران ہوئے تھے اور اس دوران امریکہ بلوچستان میں خصدار کے نزدیک واشک کے علاقے میں قائم شمسی ائیربیس اور سندھ کے جیک آباد میں واقع شہباز ائیربیس کو استعمال کرتا رہا ہے۔ ان دونوں ہوائی اڈوں سے امریکہ کے طیارے اڑا کرتے تھے جبکہ شمسی ائیربیس کو امریکی ڈرون حملوں کے لئے بھی استعمال کرتے تھے۔ شہباز ائیربیس کو پیپلز پارٹی حکومت کو دور میں سنہ 2011 سے پہلے ہی بند کر دیا گیا تھا مگر شمسی ائیربیس امریکہ کی جانب سے نومبر 2011ء میں مہمند ایجنسی میں ہونے والے سلالہ حملے کے بعد پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی بند کیا گیا تھا۔اس کے بعد امریکہ پر پاکستان کے فضائی اور زمینی راستے استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ سلالہ حملہ کے بعد وقتی طور پر امریکہ کو افغانستان تک اپنی لاجسٹک پہنچانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی تھی تاہم بعد میں مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں امریکہ کو زمینی راستے فراہم کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی اور شمسی ائیربیس کو امریکہ سے خالی کروا لیا گیا تھا۔

نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ فوجی تنظیم کے افغانستان سے انخلا کا عمل درست سمت میں جاری ہے۔ تاہم ہر مرحلے میں ہمارے اہلکاروں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔ امریکی انخلا میں تیزی کے باوجود طالبان اور افغان افواج کے مابین ملک بھر میں خونی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے 2 ہفتوں کے دوران طالبان نے کابل میں مسافر بسوں پر حملوں کے علاوہ بھی کابل میں دہشت گردی کے کئی حملے کر کے درجنوں ہلاکتیں کیں۔ اگرچہ ابھی تک طالبان نے جاتی ہوئی امریکی افواج پر حملہ نہیں کیا لیکن امریکہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں سے اس کی پٹھو حکومت کا مورال ڈاؤن ہو گا۔ امریکی افواج اور نیٹو نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے عمل میں لاجسٹک سپورٹ کے لئے زمینی راستہ کے لئے پاکستان ۔ افغانستان کے چمن بارڈر اور فضائی ضروریات کے لئے کراچی ایئرپورٹ استعمال کرنے کی پاکستان سے اجازت حاصل کر رکھی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کی فضائیہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ وہ صوبہ بلوچستان میں ایک نیا فضائی اڈہ (ایئر بیس) بنانے پر غور کر رہی ہے جبکہ ضلع نصیر آباد کے ڈپٹی کمشنر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ پاکستان ایئرفورس نے اس سلسلے میں اراضی کے حصول کے لئےضلعی انتظامیہ سے رابطہ کیا تھا جس کے بعد انھیں نصیر آباد کے علاقے نوتال میں اراضی کا معائنہ کرایا گیا ہے۔دوسری طرف یاد رکھنا چا ہیے  کہ امریکہ کے انڈو پیسیفک افیئرز کے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈیوڈ ایف ہیلوی نے میڈیا کو بتایا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں موجود امریکی افواج کی سپورٹ کے لئے اپنی فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ضلع نصیر آباد میں تعمیر کیا جانے والا ایئر بیس درحقیقت امریکن فورسز کی درخواست پر بنایا جا رہا ہے اور یہ ایئر بیس امریکہ کے زیر استعمال ہو گا۔ تاہم پاکستانی فضائیہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں نیا فضائی اڈہ بنانے کی تجویز ایک معمول کی چیز ہے اور اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ فی الحال نہیں ہوا ہے۔ ترجمان کے مطابق ابھی اس فضائی اڈے کے لیے چار سائٹس (جگہیں) زیر غور ہیں مگر حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ویسے بھی فضائی اڈے پر کام شروع ہوا تو یہ راتوں رات تعمیر نہیں ہو جائے گا بلکہ حتمی فیصلے اور منظوری کے بعد اس کو مکمل ہونے میں آٹھ سے دس سال کا عرصہ لگ جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکہ چاہتا ہے کہ وہ افغانستان سے نکل کر پاکستان میں بیٹھ کر اپنے ہتھیار استعمال کرے۔یعنی افغانستان کی جنگ پاکستان میں بیٹھ کر لڑی جائے مگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کے امن و امان کے لئے تباہ جن ہو گا۔اس کے ردعمل میں طالبان ممکنہ طور پر افغانستان میں اپنی کاروائیاں روک کر پاکستان میں دہشت گردی شروع کر سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کسی حد تک دہشت گردی پر قابو پا چکا ہے اور افغانستان کی جنگ سے نکلنا چاہتا ہے۔افغانستان میں زمینی اور فضائی اڈے خالی کرنے کے باوجود بھی امریکہ کے انڈیا کے ساتھ کئی دفاعی معاہدے ہیں اور بحیرہ عرب میں بھی ان کا جنگی بیڑہ موجود ہے۔ اس لئے پاکستان کو چاہئے کہ وہ امریکہ کو فضائی اڈے فراہم نہ کرے۔ ایسا کرنے سے چین بھی ناراض ہو سکتا ہے۔اس خطہ میں تجارت کے حوالہ سے پاکستان اور چین کے مفادات مشترکہ ہیں۔ ایک ایسی صورتحال جس میں عالمی سطح پر امریکہ کھل کر چین کی مخالفت کر رہا ہو، ایسے میں پاکستان اپنے انتہائی قریبی دوست کی خواہش کے برخلاف امریکہ کو فضائی اڈے دینا بہت بڑی حماقت ہی ہو گی۔ عقل اور منطق بھی یہی کہتی ہے کہ چین اور روس کے مقابلے میں پاکستان کو کبھی بھی امریکہ کو ترجیح نہیں دینی چاہئے اور کھل کر خود کو چینی کیمپ کے ساتھ وابستہ کر لینا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply