چترال اور اہلیان چترال کا درد…

1947 میں جب آزادی کا اعلان ہوا تو شمالی سرحدات پر کچھ آزاد ریاستیں بھی اپنا وجود رکھتی تھیں…
صوبہ خیبر پختون خواہ کا حسین ترین حصہ چترال بھی ایک آزاد ریاست تھی…چترال شمالی ریاستوں میں پہلی ریاست ہے جس نے غیر مشروط طور پر پاکستان سے الحاق کیا… چترال کا کل رقبہ 14850 کلو میٹر( 5730 مربع میل ) ہے..چترال کا اکثر حصہ وا خان کی پٹی( افغانستان ) سے ملتی ہے…اندرونی طور پر ایک طرف سے گلگت سے، دوسری طرف سے باجوڑ اور دیر بالا سے جا ملتی ہے… چترال کو ایک ضلع قرار دیا گیا ہے… انتظامی طور پر مالاکنڈ ڈویژن کے تحت صوبے سے منسلک ہے…
چترال اپنی قدرتی حسن اور امن کی وجہ سے غیرملکی سیاحوں کے لئے ہمیشہ پرکشش رہا ہے… قدرتی چشموں اور گلیشئرز کی وجہ سے اس علاقے میں بجلی پیدا کی جاتی ہے جو ملکی ضروریات کا ایک بڑا حصہ پورا کرتی ہے…بجلی گھروں کےکئی پراجیکٹ تکمیل کے مراحل میں ہیں… جیسے گولین پراجیکٹ وغیرہ… اور کئی پراجیکٹ اب زیر غور ہیں جن کی تکمیل کے بعد پاکستان کی ساٹھ فیصد بجلی کی ضروریات پوری ہونگی…
چترال، افغانستان اور پھر سویت یونین کے آزاد ریاستوں کے لئے مختصر ترین راستہ بن سکتا ہے… غرض چترال اپنے محل وقوع اور قدرتی وسائل کی بناء پر پاکستان کے لئے نہایت اہم ہے… چترال کا امن اور اسکے لوگوں کی نرم مزاجی تو ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے…
چترال پاکستان سے، چار( تین زمینی اور ایک ہوائی) راستوں سے منسلک ہے…جو کہ معروف راستے ہیں اور آمدورفت کے لیے استعمال ہوتے ہیں…

1=براستہ دیر لواری ٹاپ ہل، جو معروف ترین راستہ ہے چترال کی %98 آمدورفت کے لئے یہ راستہ زیر استعمال رہتا ہے…
2=براستہ باجوڑ… یہ قدرے غیر معروف راستہ ہے.. کبھی کبھار ہی یہ راستہ استعمال کیا جاتا ہے…لیکن یہ دیر(لواری ٹاپ ہل)والے راستے کا متبادل راستہ ہے… کوئی مستقل چترال تک کا راستہ نہیں…
3=براستہ گلگت شندور پاس.. یہ راستہ صرف چترال سے گلگت اور وہاں سے چترال آنے کے لئے استعمال ہوتا ہے… جو شندور کے مقام سے ہوتی ہوئی چترال اور گلگت کے درمیان زمینی رابطہ قائم رکھتی ہے…
4=ہوائی سفر…
چترال میں 1984 میں ہوائی اڈہ تعمیر کیا گیا… یہ چھوٹا سا ہوائی اڈہ ہے…جہاں سے صرف پی آئی اے ہوائی سفر کی سہولت مہیا کرتی ہے…

دسمبر میں عموماً چترال میں برف باری شروع ہو جاتی ہے… اور پاکستان کا یہ قطعہ عضو معطل بن کر رہ جاتا ہے… زمینی رابطے کلی طور پر منقطع ہو جاتے ہیں… 10,230 فٹ بلندی رکھنے والا لواری ٹاپ پر تین فٹ برف عموماً پہلی ہی برف باری میں پڑ جاتی ہے.. موسم منفی سینٹی گریڈ پر دن میں ہوتا ہے.. رات کو سردی کس پوائنٹ پر ہوگی.. آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں..
شندور والی سڑک چترال کو صرف گلگت سے ملتا ہے… اسکو آمدورفت کے لئے استعمال کرناممکن نہیں وہاں بھی لواری ٹاپ ہل جیسی صورتحال ہوتی ہے…

باجوڑ کے راستے کی صورتحال بھی یہی ہے وہاں سے بھی آمدورفت ممکن نہیں.. کیونکہ یہ ایک ذیلی سڑک ہے…
لے دے کہ ہمارے پاس ہوائی سفر کی سہولت باقی رہتی ہے… اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں….
پشاور اور اسلام آباد سے ہفتے میں تقریباً 11 پروازوں کا شیڈول طے ہے… پی آئی اے ہی سروس مہیا کرتی ہے…لیکن پروازیں منسوخ ہونا معمول کی بات ہے… مزے کی بات یہ ہے کہ چترال جانے کے لئے ریٹ پی آئی اے کی جانب سے فکس ریٹ( اکانومی تقریباً 7000)ہیں ان میں اونچ نیچ نہیں ہوتی… جبکہ سفر 45 منٹ کا ہوتا ہے… اور پشاور سے کراچی پونے دو گھنٹے کا سفر بھی 7000 میں آسانی سے ہو جاتا ہے…اگرچہ طیارہ حادثہ کے بعد ریٹ کم کیے گئے ہیں مگر موسم کی خرابی اب بھی مانع ہے…
سردیوں میں بارش، برفباری، طوفانی ہواؤں کی بدولت پی آئی اے کا یہ چھوٹا فوکر طیارہ ہفتے میں ایک یا دو دفعہ ہی جا پاتا ہے…
حالیہ طیارہ حادثہ کے بعد اس میں سفر بڑی حد تک ناقابل قبول ہو گیا ہے…

ان راستوں کے علاوہ چترال جانے کا ایک راستہ افغانستان سے ہو کر چترال پہنچتا ہے..
یہ راستہ پشاور سے تورخم اور وہاں سے افغانستان میں سے ہوکر چقان سراے تک پہنچتا ہے… اور چترال( پاکستان ) میں داخل ہو جاتا ہے… افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں پاکستانی حکومت افغان حکومت سے باقاعدہ معاہدہ کرتی اور اپنے مسافروں کی حفاظت کی گارنٹی لیتی تھی اورپھر پاکستانی سرحد( تورخم )پر مسافروں کا اندراج ہوتا پھر چترال(پاکستان) میں داخلے کے وقت جانچ پڑتال ہوتی… طالبان کے دور حکومت کے بعد وہاں وار لارڈز سے معاہدہ ممکن نہ تھا اسلیے پاکستانی حکومت “اپنی حفاظت آپ کرو ” کے پالیسی کے تحت افغانستان میں داخلے کی اجازت دیتی… پھر چترال میں داخلے کے وقت گنتی پوری کرنے کے لئے جانچ پڑتال ہوتی…مبادا کوئی حادثے کا شکار تو نہیں ہوا. البتہ اس دورانیہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن لوٹ مار کے واقعات بہت پیش آئے…
لواری ٹاپ ہل پر برف باری کے بعد بھی مسافروں کا پیدل آمدورفت کا بھی رواج رہا ہے… جو سب سے خطرناک ترین سفر ہے… کیونکہ اس پہاڑ پر کب برف باری ہوگئ… کب مطلع صاف رہے گا… کچھ معلوم نہیں… پاکستان بننے سے پہلے سے اب تک ہزاروں افراد اس پہاڑ کو عبور کرتے ہوئے برفانی تودوں کا شکار ہوے…..

غرض چترال سردیوں کے پانچ مہینے پاکستان سے بالکل کٹ کر رہ جاتا ہے… یہی وجہ ہے کہ
چترالیوں کی اکثر مرد حضرات سردیوں میں روزگار کے لئے پشاور، کراچی اور دوسرے شہروں کا رخ کرتی ہے..
اگر آپ پشاور کے علاقے “وزیر باغ” جائیں تو آپ کو وہاں بڑے بڑے قبرستان ایسے ملیں گے جو صرف چترالی بھائیوں کی ملکیت ہیں جو انہوں نے اپنی مزدوری کے پیسے جوڑ جوڑ کر خریدے ہیں.. صرف اور صرف اس لئے کہ سردیوں میں اگر کوئی چترال باسی پشاور میں فوت ہوگیا تو اسے اس قبرستان میں دفنایا جاسکے.. کیونکہ چترال کے راستے تو برف میں دفن ہو چکے ہیں…اب وہاں لاش کی منتقلی ناممکن ہے…

سب سے پہلے بھٹو دور میں اس روٹ کا سروے ہوا… اور ٹنل کی تجویز پاس ہوئی… ایک کلومیٹر تک کام ہوا مگر پھر اس حکومت کے ساتھ یہ منصوبہ بھی دفن ہوگیا…
سن دو ہزار میں جنرل پرویز مشرف کی چترال پر توجہ کو دیکھتے ہوئے چترال باسیوں نے اس ٹنل کی کے لئے تحریک چلائی… اس دوران کئی دفعہ پشاور میں بھوک ہڑتالیں کی گئی…پھر 2002
میں ایم ایم اے کی مدد سے اس مطالبے کو قومی اسمبلی کے فلور پر اٹھایا گیا… کوہاٹ ٹنل کے افتتاح پر یہ تحریک زور پکڑ گئی… جولائی 2005 کو جنرل پرویز مشرف صاحب نے اس منصوبے کو ری اوپن کرنے کا حکم دیا بالآخر اکتوبر 2005 کو کام شروع ہوا..
آج 2017 میں جتنا کام ہوا ہے… اسکی تفصیل درج ذیل ہے..
صرف ٹنل بنائی گئی ہے جو جنرل مشرف دور میں بنی تھی اس ٹنل کی لمبائی 8.5 کلومیٹر ہے…
1=اسکی صفائ،
2=روڈ بنانا،
3= اسمیں آکسیجن کا انتظام،
4=گاڑیوں کے دھوئیں کے اخراج کا پلانٹ،
اب بھی یہ سب مرحلے باقی ہیں…

اب پاکستان اور چترال کے درمیان صرف یہ ایک سرنگ زمینی رابطے کا زریعہ ہے…البتہ کسی حد تک یہ ٹنل قابل استعمال ہے… 2007 سے اب تک سردیوں میں یہ ٹنل محدود پیمانے پر ہی سہی مگر تمام چھوٹی بڑی گاڑیوں کے لیے زیر استعمال رہی ہے…ٹنل میں آکسیجن کی اگرچہ کمی ہے… لیکن اندر پانی کے چشموں کی موجودگی اور اسکے بہاؤ کے ساتھ آکسیجن بھی کافی مقدار میں موجود ہوتی ہے…جو ایک ناقابل یقین امر ہے… میں خود اس ٹنل سے ایک دفعہ گزرا ہوں… اگرچہ اس ٹنل پر اب بھی بہت سارا کام باقی ہے…
لیکن یہ راستہ اہلیان چترال کے لئے کتنی اہمیت کا حامل ہے آپ گزشتہ سطور سے اندازہ لگا چکے ہونگے…

یہ ٹنل صرف سردیوں میں پورے ہفتے میں صرف جمعے کے روز صبح سات بجے سے لیکر رات بارہ بجے تک کھولی جاتی ہے… اب پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ضلعے کی تمام تر ضروریات اشیاء خورد و نوش سے لیکر دواء تک، کاغذ سے لیکر کمبل تک، سب چیزیں اور دو طرفہ لوگوں کی آمدورفت اس دن اس ٹنل سے گزرنی ہوتی ہے… آپ اندازہ لگائیں کہ برف کی اس وادی میں جہاں گزشتہ رات منفی بیس سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے کتنا رش ہوگا… جبکہ وہاں دور دور تک ہوٹل تو کیا آبادی کا بھی نام و نشان بھی نہیں ہے… ہر طرف برف ہی برف ہے…

Advertisements
julia rana solicitors

میرے ان سطور کے لکھنے کا سبب گزشتہ روز(جمعہ) کے روز پیش آنے والا واقعہ ہے…
جمعرات کے دن ہی سے ٹنل کے اس پاس راستوں پر سے اتنی برف ہٹائی گئی کہ صرف ایک وقت میں ایک گاڑی اس راستے سے گزر سکتی ہے اگر سامنے سے گاڑی آگئی تو کسی ایک کو تو ریورس جانا ہی پڑے گا… راستہ آئینے کی طرح چکنااور برف کی تہوں کی وجہ سے پھسلواں تھا پوری طرح صفائی نہیں کی گئی…
ایک ٹرک کا ایکسیڈنٹ بھی ہوا…
سردی کی شدت سے ارسون سے تعلق رکھنے والا دو سالہ بچہ جاں بحق ہو گیا…
کتنے مریض آہیں بھرتے انتظار کی گھڑیاں گنتے رہے…
کتنی مائیں اپنے بلکتے بچوں کو اپنے باہوں میں لیے سینے سے لگا کر جھوٹی تسلی دیتی رہیں…
کتنے بوڑھے ضعیف کپکپاتے اپنی ناکردہ گناہوں پر اللہ کے سامنے آنسو بہاتے رہے…
یاد رہے اس وقت گھروں سے صرف بیمار اور اشد ضرورت مند ہی نکلتے ہیں… یہ سب کچھ برف کی وادی میں فلائنگ کوچ( ہائی ایس بغیر ہیٹر /اے سی ) میں صرف شیشے چڑھاے ان پرامن وادی کے باسیوں پر گزری… جس کا تصور گرم کمبل میں لیٹے ممکن بھی نہیں…
ٹنل کی دوسری طرف( چترال سائٹ)زیارت چیک پوسٹ سے دروش بازار تک( جو شاید میرے اندازے سے آٹھ کلومیٹر سے کسی طرح سے بھی کم نہیں )گاڑیاں کھڑی تھیں جو اس پار( دیر)جانا چاہتی تھیں…. جنہیں رات گئے واپس چترال بھیج دیا گیا…
ان سب صورتحال میں ضلعی انتظامیہ کو دوش دینا بھی مناسب نہیں( اگرچہ دروش کے انتظامیہ کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رہا ہے)
اس صورت حال میں…
میں بالخصوص وفاقی حکومت سے( سامبو کورین کمپنی کا معاہدہ اور پروجیکٹ کی نگرانی وفاقی حکومت کے ذمہ ہے) اور صوبائی حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ
1= وہ اس صورت حال پر توجہ دیں… اور c130 جہاز کے زریعے وہاں سے مریضوں اور عمر رسیدہ حضرات کے لئے نقل و حمل کی سہولت پیدا کریں…( گزشتہ کچھ حکومتوں نے ایسی صورت حال میں c130 (فوجی نقل حمل کے لئے مستعمل جہاز) کے زریعے وہاں کے عوام کی مدد کی تھی… )
2=اشیاء خورد و نوش کی ترسیل کے لئے منظم سسٹم بنائیں…
3=ٹنل کو ہفتے میں کم از کم تین دن کھولنے کی ترتیب بنائیں…
4=ٹنل اور وہاں کا انتظام چترال اسٹکاؤٹ( پاکستان آرمی کا ایک شعبہ )کے حوالے کر دیں… تاکہ عوام مزید قیمتی جانیں نہ گنوائیں..
5=روڈ سے برف ہٹانے کے لئے بلڈوزر اور دوسرے مشینری کی سخت کمی ہے… اس ضرورت کو پورا کریں…
6=سب سے بڑھ کر میں جناب وزیراعظم میاں نواز شریف سے استدعا کرتا ہوں کہ اس ٹنل پر کام کو پورا کروائیں.. اسلام آبادمیں میٹرو کی صورت میں اگرچہ آپ نے ایک بہترین سہولت فراہم کی ہے لیکن اہلیان چترال بھی آپ کے توجہ کے منتظر ہیں..کہ آپ انکے اس سنجیدہ ترین مسئلے پر کب توجہ دیتے ہیں…
( ان سطور کے لکھنے تک ٹنل کو عوام کے لئے جمعہ اور منگل کے دن کھولنے کی تجویز زیر غور ہے )

Facebook Comments

ثناءاللہ
چترال، خیبر پختون خواہ سے تعلق ہے... پڑھنے اور لکھنے کا شوق ہے... کچھ نیا سیکھنے کی جستجو...

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”چترال اور اہلیان چترال کا درد…

Leave a Reply