منظر نامہ، میری موت کے بعد کا ۔۔۔ ستیاپال آنند

صحن میں رینگتی، مسکین سی، مَیلی سی دھوپآ
اور منڈیر پر اک کوے کی کائیں کائیں
عود، اگر بتّی جلاتا ہوا بوڑھا پنڈت
زیر لب باتوں میں مصروف کچھ گائوں کے لوگ
سر کو نیوڑھائے ہوئی عورتیں دالان کے اک کونے میں
بیچ دالان میں رکھی ہو ئی
(بھگوے کپڑے سے ڈھکی)۔۔۔۔شاید  ارتھی
میری ارتھی کہ جسے۔۔۔ بے سکت پائوں مرے
عمر بھر ڈھوتے رہے ہیں کسی گٹھری کی طرح
آج لپٹے ہوئے چادر میں پڑے ہیں یہ پائوں
اور جل جائیں گے آرام کے ساتھ!
دان  پُن، کریا کرم، پھول، اچارج، مرگھٹ
( موت کا’گھاٹ‘  ) ، فنا کا وہ کنارہ کہ جہاں
سب پہنچتے ہیں مگر لوٹتا کوئی بھی نہیں!)
سنسکرت کے بہت اشلوک جنہیں پڑھتے ہوئے
اک ’اچارج‘ہے پجاری جسے خود علم نہیں
ایسے اشلوکوں کا مطلب کیا ہے!,
کیا یہی ہو گا مری موت کا منظر نامہ؟
کیا یہی ہو گا مرا  ا نت، کہو؟
کیا مرے بعد یہ اشلوک پڑھے جائیں گے
جن کے مطلب کا کسی کو بھی کوئی علم نہیں؟

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply