مبارک ہو” طالبان” آرہے ہیں۔ ۔منصور ندیم

یہ تصویر افغانستان کا حال بتارہی ہے، یہ وہ خاندان ہیں جن کے اپنے مکان ہیں مگر یہ اپنی جانوں کے خوف سے اپنے مکان چھوڑ   کر ہجرت کررہے ہیں، اب امریکا تو جارہا ہے ، اور طالبان کا خوف آرہا ہے، اس دیس سے پرے اس دیس کے کچھ لوگ خوشیاں منارہے ہیں، کہ امریکا ذلت آمیز شکست کے بعد جارہا ہے۔۔ کہ صاحب مبارک ہو طالبان آرہے ہیں۔

پچھلے چند ماہ کے اعداد وشمار دیکھ لیں، زنانہ زچہ و بچہ ہسپتالوں میں دھماکے، طالبات کے سکولوں میں دھماکے، نوکری کرنے والی صحافی خواتین کی باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ،حتی کہ پولیس میں نوکری کرنے والی خواتین کا باقاعدہ قتل عام ہوا، لیکن مبارک ہو کہ اب طالبان آرہے ہیں، اب نہ لڑکیاں سکول جائیں گی ، نہ نوکریاں کریں گی اور نہ ہی قتل ہوں گی۔

اس وقت افغانستان کے شمال میں طالبان اور افغان فوج کے درمیان حالیہ لڑائی کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں وہاں کے مقیم عام شہری خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔گزشتہ کئی دنوں سے شمالی صوبہ قندوز میں طالبان اور افغان فوج کے درمیان لڑائی جاری ہے جس کے باعث تقریباً پانچ ہزار مقامی خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ جانوں اور مال کا خوف ہے، کیونکہ طالبان نے قندوز شہر کو گھیرے میں لے رکھا ہے، قندوز کے کئی اضلاع کے علاوہ تاجکستان کے قریب سرحدی گزرگاہ بھی ان کے قبضے میں ہے۔

بلکہ چند سالوں میں طالبان دو مرتبہ قندوز شہر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ اور اس آنکھ مچولی کی قیمت مقامی لوگ ادا کرتے ہیں، انہیں ہر لمحہ اپنے اوپر غالب آنے والی قوت کا ساتھ دینا پڑتا ہے اور بعد میں مخالف قوت کے آنے پر مجبوری میں ساتھ دینے والوں کو جان کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے، لیکن صاحب مبارک ہو کہ طالبان آرہے ہیں، رواں سال مئی کے مہینے کی ابتداء سے طالبان کے کئی حملوں میں افغان افواج کو نشانہ بنایا گیا، اور طالبان کا دعویٰ ہے کہ چار سو سے زائد اضلاع میں سے ۹۰ اضلاع پر ان کا قبضہ ہے۔

اب تک مجموعی طور پر صوبے بھر سے ٓاٹھ ہزار خاندان بے گھر ہو چکے ہیں، ایک ہفتے سے زائد ان لڑائیوں کی قیمت اب تک ۲۹ شہریوں نے اپنی جان سے ادا کی ہے اور لگ بھگ ۲۲۵ شہری اس وقت زخمی ہیں۔ اپنی جان بچا کر ہجرت کرجانے والے ان خاندانوں میں سے دو ہزار خاندان کابل اور دیگر صوبوں کو نقل مکانی کر گئے اور بے گھر ہوجانے والے خاندانوں کی اکثریت نے شہر میں واقع ایک سکول میں پناہ لی ہوئی ہے، انہیں کسی قسم کی مدد نہیں فراہم کی گئی اور نہ ہی افغان حکومت تمام بے گھر ہونے والے افراد کو مدد فراہم کر سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بے گھر خاندان ایک سکول کے احاطے میں خیمے لگائے بیٹھے ہیں۔ اور جن کے پاس خیمے نہیں ہیں وہ خاندان اپنے بچوں کے ساتھ زمین کے اوپر بیٹھے ہیں۔ اور مبارک ہو کہ طالبان آرہے ہیں ، جب طالبان آجائیں گے تو یہ زمین کے اوپر بیٹھے بچے زمین کے اندر دفن ہوجائیں گے ، کیونکہ مبارک ہو طالبان آرہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply