• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان میں جمہوریت پہ کرپشن الزامات کی تاریخ ۔۔محمد منیب خان

پاکستان میں جمہوریت پہ کرپشن الزامات کی تاریخ ۔۔محمد منیب خان

سیاست امکانات کا نام ہے اور یہی امکانات سماج میں نئی راہیں پیدا کرتے ہیں۔ سیاست کے تال میل سے جمہوریت وجود میں آتی ہے۔وہی جمہوریت کہ  جس میں حق رائے دہی کی بنیاد پہ عوام اپنے حکمران چنتے ہیں۔ اور اس اجتماعی دانش کے نتیجے میں چنے گئےحکمرانوں کے ہاتھ میں ملکوں کی باگ دوڑ ہوتی ہے۔ جدید دنیا نے جمہوری نظام کو عوام کی ترجمانی کے نمائندہ نظام کے طور پہ لیا   ہے۔ البتہ پاکستان میں حالات کے جبر کے نتیجے میں جمہوری نظام میں سے استثنا برآمد ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت دامے درمے سخنے اپنے قدم جمانے کے لیے کوشاں رہی ہے۔ لیکن بارہا جمہوریت کا چہرہ مسخ کر کے دکھایا جاتا رہا ہے۔ جمہوریت کے  بطن سے غیر جمہوری رویوں کو مضبوط کیا جاتا رہا ہے بلکہ جمہوریت سے عوام کا اعتماد کم کرنے کے لیے بارہا جمہوریت کی عمارت میں نقب زنی کی گئی اور چند ایک مواقع پہ تو باقاعدہ ڈاکہ ڈالا گیا۔ اس نقب زنی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہیجان کی وجہ سے جمہور کی آواز کو سنی ان سنی کر دیا جاتا رہا ہے۔ اور مال غنیمت کی اس چھینا جھپٹی سے محض الزام تراشی نمودار ہوتی ر   ہی۔ نظام کی عمر کا انسان کی عمر سے کوئی تقابل نہیں ہوتا۔ جس طرح بیج پھوٹنے کے بعد ایک ننھے پودے کو چند ماہ تک تند و تیزہواؤں سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے ، جیسے ایک انسانی بچے کو چند سال تک والدین کے مربوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے ہی پاکستان میں جمہوری نظام کے پودے کو بھی ابتدا ء سے ہی نامساعد حالات کا سامنا رہا ہے اور بچپن سے ہی جمہوریت کسی مربوط سہارے کےبغیر ڈولتی رہی۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی یہ لڑکھڑاہٹ ستر سال گزرنے کے بعد بھی جاری ہے اور کہیں سے کوئی خوشگواربات سننے کے لیے کان ترس گئے ہیں۔

گزشتہ تیس سال میں جمہوریت کے چہرے پہ سب سے زیادہ کرپشن کی کالک ملی گئی ہے۔ 1990 میں پیپلزپارٹی کی کرپشن پہ ختم کی جانے والی حکومت سے لے کر 2017 میں نواز شریف کی برطرفی تک پاکستانی جمہوریت نے جو طعنہ سب سے زیادہ سنا وہ سیاستدانوں کی کرپشن کا تھا۔ حیرت انگیز طور پہ 90  کی دہائی سے پہلے جب بھی جمہوریت پہ شب خون مارا گیا تو اس کی وجہ کرپشن نہیں تھی۔ سکندر مرزا نے ملک میں سیاسی عدم استحکام کو وجہ بنا کر آئین معطل کیا اور چند روز بعد ایوب خان نے سب کوگھر بھیج دیا۔ محض سیاسی عدم استحکام کو جواز بنا کر جمہوریت کا دفتر ہی لپیٹ دیا گیا۔ 1947 میں قائم ہونے والی نوازئیدہ جمہوریت نے گیارہ سال میں سات وزرائے اعظم دیکھے۔ جو کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی۔ برطانیہ کی جمہوری سیاسی تاریخ میں1928 میں اکیس سال تک کی عمر والوں کو ووٹ کا حق  ملنے کے بعد بھی چند ایسے وزرائے اعظم گزرے جو محض ایک سال سے بھی کم برسراقتدار رہے اور کسی کو محض دو سال کے اندر گھر جانا پڑا۔ لیکن جمہوریت کا دفتر لگا رہا۔ اس کے برعکس  پاکستان میں1956 سے 1958 کے درمیان چار وزرائے اعظم کا آنا ایک ایسی در اندازی کا پیش خیمہ ثابت ہوا جو اکیسویں صدی کے اکیسویں سال گزرنے تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ۱۹۵۸ کا مارشل لا ء جب ملک کے دو لخت ہونے پہ اپنے اختتام کو پہنچا اس وقت بھی جمہوریت کےبحال ہوتے ہی ہزاروں قیدی ہندوستان کی جیلوں سے رہائی پا کر واپس لوٹے۔

البتہ 1971 سے از سر نو شروع ہونے والا جمہوریت کا یہ سفر بھی کچھ دیر پا نہ رہا اور 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات   کے  نتیجے میں پی این اے کی تحریک شروع ہوئی۔ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف شروع ہونے والی تحریک نے لوگوں کا لہو گرمانے کےلیے مذہب کا لبادہ بھی اوڑھ لیا۔ جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہو رہی تھی تو اس وقت بھی سیاستدانوں  پہ ہوشرباکرپشن کے کوئی قابل ذکر الزامات نہ تھے۔ اس کے بعد جب 90  دن میں الیکشن کروانے کا وعدہ کرنے والے ضیا الحق گیارہ سالہ دوراقتدار کے بعد غیر طبعی طور پہ اپنے سفر آخرت پہ روانہ ہوئے تو ایک بار پھر سیاستداں اور جمہوریت نے انگڑائی لی۔

اس انگڑائی  کے نتیجے میں جب جمہوریت بحال ہوئی تو وہ آمریت کے سائے میں غیر جماعتی انتخابات کی تجربہ گاہ سے گزر چکی تھی۔  1988 قائم ہونے والی بینظیر کی حکومت کو جب اڑھائی سال بعد گھر بھیجا گیا تو یہ پہلا موقع تھا کہ حکومت مالی کرپشن کےالزامات پہ برطرف ہوئی اور یہی وہ دور تھا جب آصف علی زرداری “ٹین پرسنٹ” کا لقب حاصل کر چکے تھے۔ اس کے بعد  1990 میں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو کئی برس بعد جا کر کہیں عوام کو پتہ چلا کہ کرپشن پہ ایک حکومت ختم کرنے بعد ایک دوسری سیاسی حکومت کو لانے کے لیے جو نو جماعتی اتحاد بنایا گیا تھا اس میں فیصلہ سازوں نے مالی مدد کی تھی۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ جس وقت اڑھائی سال بعد نوازشریف کی حکومت بھی کرپشن کے الزامات پہ برطرف کی گئی تو پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت کے خاتمےپہ “ٹین پرسنٹ” کا خطاب پانے والے آصف علی زرداری نگران وفاقی حکومت میں بطور وزیر شامل تھے۔ یعنی کرپشن کا جو جواز  نوئےمیں حکومت کو برطرف کرتے ہوئے  پیدا کیا گیا وہ محض  اڑھائی سال میں دوبارہ فیصلہ سازوں کے لیے قابل قبول ہوگیا۔

البتہ 1996 میں جب ایک بار پھر پیپلزپارٹی کی حکومت کو گھر بھیجا گیا تو اس حکومت کے خلاف چارج شیٹ میں کرپشن کے الزامات بھی شامل تھے۔ اس کے بعد 1999 میں نواز شریف کی حکومت بادی النظر میں کرپشن پہ نہیں ختم کی گئی، لیکن گزرے برسوں کےکرپشن مومنٹم کو برقرار رکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کی قیادت پہ کرپشن کے بہت سارے کیسز بنائے گئے جو شریف خاندان کےجلاوطنی کے دوران چلتے رہے اور عین مناسب وقت پہ ختم ہو گئے۔ 90  کی دہائی میں کار زار سیاست میں ایک بات بہرحال واضح ہوئی دنیا میں بڑھتی ہوئی معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے بڑھتی ہوئی طبقاتی تقسیم ابھرنے لگی۔ اس معاشی طبقاتی تقسیم کوتیسری دنیا کے ملکوں میں وسائل کھا کر ڈکار مارنے والوں نے کرپشن کرپشن کے شور میں دبا دیا۔

اسی لیے جب اکیسویں صدی کی پہلی دہائی پار ہوئی تو اس ملک کی عوام کو ایک ساتھ تینوں جھنجھنے پکڑا دیے گئے،

۱۔ کرپٹ سیاستدان جو عوام کے وسائل لوٹ گئے (حالانکہ 1988 سے 2008 تک محض چار جمہوری  حکومتیں آئی تھیں ان میں آنے اور جانےکے حالات کوئی اور کہانی سناتے ہیں, مسلم لیگ ق کی حکومت کو جمہوری نہیں شمار کیا جا سکتا)

۲۔ مذہبی شدت پسندی جس کےتڑکے کے بغیر پی این اے کی تحریک بھی بارآور ثابت نہ ہوتی

۳۔ انقلاب/ تبدیلی، یعنی نئے چہرے (تاکہ عوام کی توجہ اصل حقائق پہ نہ  جائے)۔

ان تینوں کی بنیاد پہ عوام کی اجتماعی توجہ کو ایسے واقعات کی طرف مبذول کروایا گیا جس سے ملک میں موجود جمہوریاداروں اور جمہوری روایات کو زک پہنچی۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے کی جمہوریت سے وابستگی بھی محض رسمی ہوگئی۔ مخالف کی آواز دبانے کی خواہش آمرانہ خُو سے پیدا ہوئی اور معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب سیاسی مخالفت محض مخالفت تک نہیں بلکہ معذور جمہوریت کو آمرانہ بیساکھیوں سے چلانے کی کوشش میں معاشرے کا اجتماعی رویہ شدت پسندانہ اوربے رحمانہ ہو گیا۔ اب اس ملک میں محض تیس سال سے کرپشن کرپشن کا شور ہے اور کوئی کسی دوسرے کی بات کو سمجھنے کوتیار نہیں۔ تقسیم ہند کے وقت کیکر کے کانٹوں سے صفحات نتھی کرنے والی سیاسی اور سرکاری اشرافیہ نے اس ملک میں بڑے بڑےپراجیکٹس کی داغ بیل ڈالی۔ البتہ اداروں کے مفادات کے تصادم سے جو نقصان ہوا ہے اس کا ایماندارانہ جائزہ لینے کو کوئی تیارنہیں ہے۔ اسی لیے ہم بہت کچھ کرنے کے بعد بھی خطے میں بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں کُل سے زیادہ جزو عزیز ہیں۔ جمہوریت کُل ہے،جسم ہے۔ اور سیاسی جماعتیں جزو ہیں۔ ادارے اس جسم کے اعضا ہیں، لیکن کیا کریں جب جسم کے اعضا ہے جسم کو کاٹنے لگیں۔

ساحر لدھیانوی نے نجانے کن لمحوں کے تاثرات غزل میں لکھ دیے تھے۔

لب پہ پابندی تو ہے احساس پر پہرا تو ہے

پھر بھی اہل دل کو احوال بشر کہنا تو ہے

خون اعدا سے نہ ہو خون شہیداں ہی سے ہو

کچھ نہ کچھ اس دور میں رنگ چمن نکھرا تو ہے

اپنی غیرت بیچ ڈالیں اپنا مسلک چھوڑ دیں

رہنماؤں میں بھی کچھ لوگوں کا یہ منشا تو ہے

ہے جنہیں سب سے زیادہ دعویٰ حب الوطن

آج ان کی وجہ سے حب وطن رسوا تو ہے

بجھ رہے ہیں ایک اک کر کے عقیدوں کے دیے

اس اندھیرے کا بھی لیکن سامنا کرنا تو ہے

جھوٹ کیوں بولیں فروغ مصلحت کے نام پر

Advertisements
julia rana solicitors london

زندگی پیاری سہی لیکن ہمیں مرنا تو ہے

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply