اورنج ٹرین میں واردات کی تیاری۔۔۔ محمد اشفاق

اورنج لائن میٹرو ٹرین لاہور کے بارے میں دو روز قبل ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کی موٹی موٹی باتیں پہلے سن لیجئے۔

رپورٹ کے مطابق ماس ٹرانزٹ اتھارٹی لاہور کا کہنا ہے کہ مر گئے، لٹ گئے، برباد ہو گئے۔ یعنی اورنج لائن کی کل ماہانہ آمدنی چھکروڑ ہے جبکہ ماہانہ اخراجات چون کروڑ ہو رہے ہیں۔ گنجائش ڈھائی لاکھ مسافروں کی ہے۔ سفر ایک لاکھ لوگ کر رہے۔ لگ بھگپچاس کروڑ کا ماہانہ خسارہ ناقابل برداشت ہے۔ اس لئے صوبائی وزیر بلدیات جناب عبد العلیم خان کے وژن کے تحت اورنجلائن کے تمام سٹیشنز اور ٹرینیں ایک نجی کمپنی کے حوالے کی جا رہی ہیں جو انہیں تشہیری مقاصد کیلئے استعمال کر کے اتھارٹی کوبیس کروڑ روپے ماہانہ ادا کیا کرے گی۔

اب ان اعدادوشمار کا پوسٹ مارٹم کرنے سے پہلے ذرا ایک بات اور سن لیں۔

جب سپریم کورٹ کے حرام خور جج بائیس ماہ تک اس پراجیکٹ کی فائل پہ ناگ بن کر بیٹھے رہے۔ تب کسی کو خیال نہ آیا کہپراجیکٹ کی لاگت میں تیس ارب کا اضافہ ظلم ہے۔

جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جانے کے بعد بھی بزدار حکومت صرف سات فیصد بقایا کام کو دو سال میں مکمل کرنے میں ناکام رہی توکسی نے پروا نہیں کی کہ اس سے صوبے کو کتنے ارب کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

مگر جیسے ہی عوام کو بالآخر منصوبے تک رسائی ملی۔ ان کی لٹ گئے، برباد ہو گئے کی دہائی شروع ہو گئی۔ یہ بدنیتی بھی نہیں سیدھاسیدھا ح پن ہے۔ کیسے؟

پہلے آپ ذرا ان اعداد و شمار کو سمجھیں۔ کچھ اعداد و شمار ایسے بھی ہوتے ہیں جو درست یعنی accurate تو ہوتے ہیں مگر حقیقی یعنیرئیل نہیں ہوتے۔ یہی جھوٹ کی اعلیٰ ترین قسم کہلاتے ہیں۔ یعنی ریاضیاتی یا شماریاتی اصولوں پر تو یہ پورا اتر رہے ہوتے ہیں مگرزمینی حقائق کی ایک مکمل غلط تصویر پیش کرتے ہیں۔

ماس ٹرانزٹ اتھارٹی بھی ایسا ہی  آدھا سچ اور پورا جھوٹ بول رہی ہے۔

سب سے پہلے آپ اس مدت کو دیکھیں جس کے اعداد و شمار اٹھائے گئے ہیں۔

جناب عثمان بزدار نے 25 اکتوبر 2020 کو اس منصوبے کا افتتاح فرمایا اور 25 جون 2021 کو ماس ٹرانزٹ اتھارٹی نے ہاتھ کھڑےکر لئے کہ خسارہ بہت ہو رہا ہے۔

اگر یہ صرف نارمل قسم کے غیرت سے عاری بھی ہوتے تو جس منصوبے کو عدلیہ اور صوبائی حکومت سے مل کر سوا تین ساللٹکائے رکھا ہے اس کی کارکردگی کا جائزہ بھی کم سے کم تین سال بعد لیتے۔ انہیں مگر آٹھ ماہ میں خسارہ دکھائی دینے لگا۔

دوسری بات، ان آٹھ ماہ کی صورتحال دیکھ لیجئے۔ کبھی لاک ڈاؤن اور کبھی سمارٹ لاک ڈاؤن کے چکر میں ٹرینیں کئی کئی روزسٹیشنوں پر کھڑی رہیں۔ یعنی اخراجات اتنے ہی مگر آمدنی صفر۔ جن دنوں ٹرین چل بھی رہی تھیں، اکثر سٹیشنز سمارٹ لاک ڈاؤنکی زد میں تھے۔ جب مسافر گھروں سے نہ نکل پائیں تو ظاہر ہے خسارہ ہی ہونا ہے۔ وہ پیریڈ جس میں آدھا وقت پراجیکٹ آپریشنلہی نہیں تھا، اسے منصوبے کی کارکردگی کے جائزے کی بنیاد کیسے بنایا جا سکتا ہے؟

اب آ جائیں آمدنی کی طرف۔ خود اتھارٹی کا یہ کہنا ہے کہ ایک لاکھ لوگ روزانہ سفر کر رہے۔ چالیس روپے ٹکٹ کے حساب سے یہروزانہ چالیس لاکھ اور ماہانہ بارہ کروڑ کی آمدنی بنتی ہے۔ جبکہ اتھارٹی کہہ رہی کہ آمدن نصف یعنی چھ کروڑ ہے۔ اس سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ آٹھ ماہ میں سے چار ماہ تو ٹرین چلی ہی نہیں۔ آپ چار ماہ کی آمدنی کو آٹھ ماہ پر تقسیم کر کے دکھا رہے ہیں۔

یعنی اتنا تو طے ہے کہ اخراجات بھلے چون کروڑ ہوں، آمدنی بھی بارہ کروڑ ماہانہ ہے۔ اب آپ فرما رہے کہ خسارہ کم کرنے کیلئےپراجیکٹ ایک نجی کمپنی کو سونپ دیں گے جو آپ کو بیس کروڑ ماہانہ دیا کرے گی۔

جو تھوڑا بہت میں سرکاری ٹھیکوں کو سمجھتا ہوں۔ جو کمپنی حکومت کو بیس کروڑ ماہانہ دینے کو تیار ہے۔ اسے کم از کم پچاس کروڑآتے دکھائی دے رہے ہوں گے۔ کمپنی نے سرکاری مگرمچھوں کو بھی خوراک پہنچانی ہوتی ہے۔ اپنے اخراجات بھی منہا کرنےہوتے ہیں، اور پھر حکومت کو بیس کروڑ ادا کرنے کے بعد اتنے ہی خود بھی نہ کمائیں تو فائدہ ہی کیا ٹھیکہ لینے کا؟

یعنی خود ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے اپنے ہی بیان سے ہمیں یہ پتہ چل گیا کہ پراجیکٹ کا تشہیری آمدنی کا پوٹینشل کم سے کم پچاس کروڑماہانہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ پچاس کروڑ خود کماتے ہوئے اتھارٹی کو موت کیوں پڑتی ہے؟

آپ تمام سٹیشنز اور تمام ٹرینیں ایک نجی کمپنی کے حوالے کرنے کی بجائے اسی نجی کمپنی کو بطور کنسلٹنٹ رکھ کر انڈسٹری میں رائجپندرہ سے بیس فیصد کمیشن دیں اور اشتہارات کی تمام آمدنی اپنے پاس رکھیں۔

پچاس کروڑ اشتہارات اور بارہ کروڑ کرائے سے کما کر آپ خود اپنے ہی بیان کردہ جعلی اعداد و شمار کے مطابق بھی آٹھ کروڑ روپیہماہانہ نفع کما رہے ہوں گے۔ بھلے مسافر ایک لاکھ ہی رہیں۔

اب مسافروں پہ بات کر لیں۔ چالیس روپے کرایہ مقرر کرنے کا مقصد ہی مسافروں کو سروس سے متنفر کرنا ہے۔ سٹاپ ٹو سٹاپ،حتیٰ کہ دو تین سٹاپس تک سفر کرنے والے مزدوروں اور طالب علموں کو روزانہ دو طرفہ اسی روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہےجبکہ وہ کچھ خوار ہو کر موٹر سائیکل رکشوں میں یہی سفر صرف بیس روپے میں طے کر سکتے ہیں؟

عوام معاشیات کا علم بھلے نہ رکھتے ہوں۔ وہ معاشیاتی اصولوں پہ لاشعوری طور پہ عمل پیرا رہتے ہیں۔ یہ ایک لاکھ مسافر وہی ہیںجنہیں چالیس روپوں میں سفر کرنے میں بچت دکھائی دیتی ہے۔ یعنی طویل فاصلے کے مسافر۔

آپ تین چار سٹاپس تک کرایہ بیس روپے رکھیں، اس کے بعد تیس اور اس کے بعد چالیس۔ کچھ انتظامی اخراجات ضرور بڑھیں گےمگر آمدنی اس سے کہیں زیادہ بڑھے گی۔

ٹرینیں اپنی پوری استعداد پہ کام کریں۔ ڈھائی لاکھ مسافر روزانہ ہوں اور اوسط کرایہ تیس روپے تو بھی آپ بائیس تئیس کروڑ ماہانہ کمارہے ہوں گے۔ اشتہارات کی آمدن کے علاوہ۔

لیکن اتنے جھنجٹ میں کون پڑے۔ آپ ایک نجی کمپنی کو ٹھیکہ دیں۔ وہ پچاس کروڑ ماہانہ کمائے گی۔ بیس کروڑ حکومت کے کھاتےمیں اور دس آپ کے کھاتے میں ماہانہ منتقل کروائے گی۔ آپ بھی خوش، عوام بھی اور حکومت بھی۔

آخر میں فقط یہ بات رہ گئی کہ بھلے پچاس کروڑ ماہانہ خسارہ بھی ہوتا رہے۔ اورنج لائن اگر اس گئی گزری حالت میں بھی تیس لاکھمسافر ماہانہ اور ساڑھے تین کروڑ سالانہ کو سستی اور معیاری سہولت چھ ارب کے خرچ پر مہیا کر رہی ہے تو اس میں ہاتھ پاؤںپھولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

پاکستان ریلوے لگ بھگ اتنے ہی مسافروں کو سفری سہولیات مہیا کر کے چالیس ارب کا خسارہ کیے بیٹھی ہے۔ اس پہ آپ کےماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اوپر ایماندار آدمی ہونے کا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ نیچے سب کھل کھلا کر چوکے چھکے لگاتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply