فلسطین (29) ۔ حماس/وہاراامباکر

حماس 1987 میں قائم ہوئی تھی اور اس نے شہرت نوے کی دہائی میں اسرائیل کے شہروں پر کئے گئے خودکش حملوں سے پائی۔ جو فتح کی الاقصٰی بریگیڈ اور اسلامی جہاد سے زیادہ تھے۔ اگرچہ اس کی شہرت اس وجہ سے ہے لیکن یہ تنظیم بہت کچھ اور بھی کرتی ہے۔
حماس سوشل سروس مہیا کرنے والی اور فلاحی تنظیم بھی ہے۔ مقامی آبادی کو میڈیکل، تعلیمی اور خیراتی خدمات دی ہیں۔ حماس نے لنگرخانے، یتیم خانے، طبی مراکز، ڈینٹل کلینک، سکول، ڈے کئیر سنٹر، یوتھ کلب اور سپورٹس کلب فنڈ کئے ہیں اور چلا رہی ہے۔ اس کی مدد ایران اور عرب ممالک سے سرکاری اور نجی ذرائع اور بیرونِ ملک مقیم فلسطینی کرتے رہے ہیں۔اس کا عسکری ونگ “کتائب الشہید عز الدین القسام” ہے۔ خدمات کا ونگ “دعوہ” ہے اور ایک سیاسی جماعت ہے۔
سیاست میں اس کا مقابلہ فتح سے ہے جو یاسر عرفات کی قائم کردہ پارٹی تھی۔ ان دونوں کا آپس میں بڑا عسکری مقابلہ 2007 میں ہونے والی “غزہ کی جنگ” میں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزہ کی سرحد مصر کے ساتھ لگتی ہے اور مصر کی اخوان المسلمین کا اس علاقے پر کچھ اثر تھا۔ حماس اسی سے نکلی۔ اخوان نے اس کو سپورٹ کیا۔
جب غزہ کا علاقہ مصر کے پاس تھا تو مصر کی حکومت نے اسلامی گروہوں کی سرگرمیوں کو سختی سے دبایا تھا۔ 1967 میں جب یہ اسرائیل کے پاس آ گیا تو اس نے یہ پابندیاں ہٹا دیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کی توجہ پی ایل او اور فتح کی طرف تھی جو سیکولر نیشنلسٹ تھی (جس سے یاسر عرفات تعلق رکھتے تھے) یا پھر پاپولر فرنٹ کی طرف جو کمیونسٹ تھی (جس کی مشہور شخصیات میں جارج حبش اور لیلیٰ خالد ہیں)۔ اسرائیل کے خیال میں اسلامسٹ اس کا زور توڑ سکتے تھے۔
شیخ یاسین غزہ میں مجامع الاسلامیہ کے نام سے خیراتی ادارہ چلاتے تھے جو 1973 میں قائم ہوا تھا۔ یہ مہاجرین کو بیرونِ ملک پڑھنے کے لئے تعلیمی سکالرشپ، کلینک، لنگر، ورزش کے کلب سمیت کئی ادارے چلاتا تھا۔ اس نے مساجد، کلب، سکولوں کے علاوہ لائبریری بھی تعمیر کروائی۔ 1978 میں غزہ اسلامک یونیورسٹی کے بانیوں میں بھی اس تنظیم نے کردار ادا کیا، جہاں پر میڈیکل، انجینیرنگ، کامرس سمیت دس شعبے ہیں اور انیس ہزار طلبا زیرِ تعلیم ہیں۔
اسرائیل کی طرف سے غزہ کے گورنر اسحاق سجیو تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ خیراتی ادارہ مفید ہے۔ اس کے اسرائیل کے خلاف عزائم نہیں ہیں۔ علاقے میں فلسطینیوں کو ضروری سہولیات کے لئے ضروری ہے اور ایسا کرنا فلسطینیوں کو فتح میں جانے سے روکنے میں مددگار بھی رہے گا۔ اس وقت بھی اسلامسٹ اور سیکولر فلسطینیوں کے آپس میں مسلح تصادم ہوا کرتے تھے۔ ان میں اسرائیل کا جھکاوٗ اسلامسٹ گروہوں کی طرف تھا۔ جب شیخ یاسین کی تنظیم کے اسلحے کا بڑا مرکز پکڑا گیا تھا تو یاسین نے یہ کہا تھا کہ یہ سیکولر گروپس کے خلاف لڑنے کے لئے اکٹھا کیا گیا ہے۔ اس پر انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔ اسرائیل نے اس تنظیم کی براہِ راست مدد نہیں کی (اگرچہ شیخ یاسین اور اسرائیلی حکام کے براہِ راست روابط تھے) لیکن مصری قبضے کے وقت کی پالیسی کے برعکس غزہ کے علاقے میں اس کو کام کرنے کے لئے محفوظ جگہ دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آٹھ دسمبر 1987 کو غزہ کے علاقے میں ایک ٹرک کی ٹکر دو گاڑیوں سے ہوئی۔ اس میں جبالیا مہاجر کیمپ سے تعلق رکھنے والے چار فلسطینی مزدور ہلاک ہو گئے۔ ٹرک ڈرائیور اسرائیلی تھا۔ اس واقعے کے بعد غزہ میں احتجاج شروع ہو گئے۔
فتح کی قیادت جلاوطن تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب حماس کا نام پہلی بار سامنے آیا۔ ابتدائی برسوں میں اس کا تاثر امن پسند مزاحمتی جماعت کا رہا۔ حماس نے اسرائیل کے خلاف پہلی عسکری کارروائی 1989 میں کی جب دو فوجیوں کو اغوا کر کے قتل کر دیا۔ اس نے باقاعدہ عسکری ونگ پہلی بار 1991 میں قائم کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حماس نے فلسطین میں منعقد ہونے والے پہلے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اس وقت یہ اتنی مقبول نہیں تھی کہ انتخاب میں فتح کا دوبدو مقابلہ کر سکے۔ 2004 میں ہونے والے لوکل انتخابات میں پہلی بار انتخابی سیاست میں آئی۔ جب تک یاسر عرفات تھے، فلسطین میں کسی اور تنظیم کے لئے زیادہ اثر حاصل کرنا مشکل تھا۔ ان کے انتقال کے بعد سیاسی خلا پیدا ہوا تھا، جس میں یہ جگہ بنا سکتی تھی۔ دسمبر 2004 میں ہونے والے انتخابات فتح نے جیت لئے لیکن حماس نے اچھی کارکردگی دکھائی۔
جنوری 2006 کے الیکشن میں حماس نے 74 سیٹیں جیت کر پارلیمان میں اکثریت حاصل کر لی۔
اور یہاں پر ایک مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہو گئی۔ ان انتخابات کو منعقد کروانے کے لئے سب سے زیادہ زور امریکہ نے لگایا تھا۔ اس وقت جارج بش کی انتظامیہ مشرقِ وسطٰی میں جمہوریت پھیلانے کے مشن پر تھی۔ اور اسی انتظامیہ کے لئے یہ جماعت دہشتگرد جماعتوں کی فہرست پر تھی۔
عالمی مبصرین کے لئے انتخابی کامیابی غیرمتوقع تھی۔ یہ نتیجہ فلسطینی اتھارٹی کی کرپشن، نااہلی اور اقربا پروری کے خلاف غصہ تھا۔
حماس نے انتخاب اسلامی نظام پر نہیں بلکہ دیانتدار قیادت کے نعرے پر لڑا تھا۔ اس کے نعروں میں صحت اور صفائی کے پروگرام، تعلیم اور رہائشی منصوبے، غربت اور کرپشن کا خاتمہ تھے۔ ایگزٹ پول کے مطابق حماس کی کامیابی کی بڑی وجہ تبدیلی کی خواہش تھی۔ فلسطین کی کرسچن آبادی نے بھی بڑی تعداد میں حماس کو ووٹ ڈالے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی کمیونیٹی نے حماس سے تسلیم کئے جانے اور مالیاتی امداد کے عوض تین شرائط قبول کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبات “کوارٹٹ” کی طرف سے کئے گئے تھے۔ (جس میں امریکہ، روس، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ تھے)۔ ان میں اسرائیل کو تسلیم کرنا، تشدد کا راستہ چھوڑنا اور پی ایل او کے کئے گئے معاہدوں کو تسلیم کرنا تھا۔
حماس نے ان کو مسترد کر دیا۔ اور فتح سے ملکر حکومت بنانے کی کوشش کی جس کو فتح نے مسترد کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حماس نے مارچ 2006 میں خود اپنی حکومت بنا لی جس میں اسماعیل ھنیه وزیرِ اعظم بنے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے فلسطین کو ملنے والا کسٹم کا محصول روک لیا جو پانچ کروڑ ڈالر ماہانہ کی رقم تھی۔
حماس اور فتح میں اختیار کے لئے لڑائی چھڑ گئی کہ پولیس کس کے کنٹرول میں ہو گی۔ ایک طرف فتح کے صدر تھے، دوسری طرف حماس کے وزیرِاعظم۔ جس طرح اس کشیدگی کی شدت میں اضافہ ہوا، ساتھ ہی ایک دوسرے پر برسنے والی گولیاں بھی بڑھنے لگیں۔ آپس کے مذاکرات ناکام رہے۔ سعودی عرب نے مصالحت کروائی اور فروری 2007 میں مکہ معاہدہ ہوا۔ اس کے تحت مارچ میں قومی حکومت قائم ہوئی لیکن جماعتوں کے درمیان آپس میں کشیدگی مزید بڑھتی گئی۔ جون 2007 میں غزہ کی جنگ چھڑ گئی جس میں دونوں اطراف سے درجنوں ہلاکتیں ہوئی اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ حماس نے ایک ہفتے میں ہی فلسطینی سیکورٹی فورسز کو شکست دے دی اور غزہ کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حماس کا غزہ کا کنٹرول لے لینے کے بعد صدر محمود عباس نے قومی حکومت برخواست کر دی اور وزیرِاعظم اسماعیل ھنیہ کو برطرف کر دیا۔ نئے وزیرِاعظم سلام فیاض بنے۔ ان کی حکومت کو فوری طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ فلسطین اتھارٹی پر لگائی پابندیاں ہٹا دی گئیں اور اسے ٹیکس اور محصول دوبارہ ملنا شروع ہو گیا۔
فلسطین دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ غزہ میں حماس کی ڈی فیکٹو حکومت بن گئی۔ اس کا بائیکاٹ جاری رہا۔ اسرائیل نے غزہ کا ستمبر 2007 میں محاصرہ کر لیا، جو تاحال جاری ہے۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ لگی تصویر اسلامک یونیورسٹی آف غزہ کی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply