برانڈڈ کفن۔۔آنسہ رانا

اس نے شہر کی معروف مارکیٹ میں گاڑی روکی اور وہاں پرہجوم دیکھ کر ایک لمحے کو اس نے سوچا کہ واپس چلی جائے ۔ مگر پھر اسے والدہ کا خیال آیا ، جو پچھلے تین دن سے اس کو اٹھتے بیٹھتے سیزن ختم ہونے پر لگنے والی سیلز کا بتا رہی تھی اور اس سے اصرار کر رہی تھی کہ وہ بھی اگلے سیزن کے لیے کچھ کپڑے لے کررکھ لے، جب کہ وہ ہر قسم کا بہانہ بنا چکی تھی کہ اسے کسی طرح شاپنگ پر نہ جانا پڑے، مگر ماں کے اصرار پر اسے آج یہاں آنا پڑ گیا تھا اور یہاں آکے جو رش کا عالم دیکھا تواس کا دل گھبرا گیا ۔ لیکن اب وہ یہاں آ ہی گئی تھی تو اسے کچھ نہ کچھ لے کر جانا تھا تاکہ ماں کی تسلی ہو جاتی۔ اس نے پارکنگ کی ٹکٹ لی ، گاڑی لاک کی اور بیگ اٹھا کر باہر نکل آئی،اس مارکیٹ میں برانڈ کی دکانوں کے ساتھ ساتھ عام کپڑوں کی دکانیں بھی تھیں۔ ویسے تو برانڈ کے زمانے میں عام کپڑے لوگوں کو کم ہی پسند آتے تھے مگر جن کی جیب اجازت نہ دیتی وہ انہی دکانوں سے خریداری کرتے تھے۔

وہ بے مقصد مختلف دکانوں میں گھوم رہی تھی کوئی کپڑا اسے پسند نہیں آرہا تھا۔ اصل میں وہ کپڑوں کو پسند کرنے کی نگاہ سے دیکھ ہی نہیں رہی تھی ۔ وہ بس لوگوں کو دیکھ رہی تھی ، سب لوگ یقیناً  صرف اپنی الماریاں بھرنے کے لیے خریداری کر رہے تھے ،ایسا نہیں تھا کہ وہ سب ضرورت کے کپڑے خرید رہے ہوں ،سب آنے والے سیزن کی تیاری میں لگے ہوئے تھے، تاکہ جب دوبارہ سردیاں شروع ہوں تو ان سب کے پاس پہلے سے خریدے ہوئے کپڑے ہوں ،تا کہ انہیں پوری قیمت پر مہنگے داموں کپڑے نہ خریدنے پڑیں۔

وہ سب آنے والے وقت کے لیے کپڑے خرید رہے تھے،جیسے ان سب کو مکمل یقین ہوکہ وہ سب لوگ اگلے سیزن میں زندہ ہوں گے اور یہ کپڑے پہننے کے قابل بھی ہوں گے۔۔۔وہ ایسی ہی بہت سی باتیں سوچتی، لوگوں کو دیکھتی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک دکان سے نکلی تو ان بڑی دکانوں کے بیچ میں ایک چھوٹا سا پھٹہ لگائے ایک باریش بزرگ آ دمی بیٹھا تھا اور اس کے سامنے ایک کارڈ رکھا تھا ، جس پر لکھا تھا ،

“کفن دستیاب ہے۔”

وہ ٹھٹک گئی، رک گئی ، ایسے جھلمل ،چمکدار، مہنگے ،برانڈڈ ، بارونق کپڑوں کے بیچ سادہ ، غمزدہ ، بے رونق ، بےمول کفن ۔۔۔۔

زندگی میں بےشمار کپڑے خریدے تھے ، مگر کفن کبھی نہیں خریدا تھا، جن برانڈزپر وہ جاتی تھی وہاں پر ایسا کچھ بھی کبھی بھی نہیں پڑھا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کفن کیسا ہوتا ہے ؟ کہاں سے ملتا ہے ، سلائی کیسے کیا جاتا ہے؟ اسے صرف رنگ معلوم تھا کہ سفید رنگ کا ہوتا ہے، نجانے اس کے دل میں کیا آئی کہ اس نے سوچا کیوں نہ میں ایک کفن بھی خرید لوں۔ اس کے ذہن میں والدہ کے کہے ہوئے جملے گونجے:

” اگلے سیزن کی تیاری پہلے سے کر لیں تو آسانی رہتی ہے۔”

” تمہیں تو کسی کا لیا کپڑا پسند نہیں آتا اس لیے اپنی پسند کا خرید لو۔”

اسے خیال آیا کہ کوئی بھی اپنی زندگی کے بارے میں نہیں جانتا کہ وہ کب ختم ہو جائے ،نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے ، تو کیوں نہ اس وقت کی تیاری بھی کر کے رکھیں۔اس نے کفن خریدنے کا ارادہ کیا ، آگے بڑھی، تو خیال آیا کہ ایسی چھوٹی دکانوں سے تو اس نے کبھی خریداری نہیں کی ۔
مما کہتی ہیں یہ لوگ سستا کپڑا بیچتے ہیں ، جو کہ انتہائی غیر معیاری ہوتا ہے، ساری عمر مہنگا برانڈڈ کپڑا پہننے والی کو آخری لباس بھی تو مہنگا برانڈڈ ہی خریدنا چاہیے اس نے دوبارہ سے برانڈز کی دکانیں چیک کرنا شروع کی ۔ مگر کسی بھی دوکان میں اسے اعلیٰ  مہنگا برانڈڈ کفن نہ مل سکا۔

ایک مشہور برانڈ جوخواتین کا پسندیدہ سمجھا جاتا تھا اور جن کی دوکان پر اس وقت سب سے زیادہ رش تھا وہاں اس نے سیلزمین سے پوچھنے کی کوشش بھی کی ،

کہ کیا آپ کے پاس کفن موجود ہیں ؟ سیلزمین نےعجیب ترحم بھری نظروں سے اسے دیکھا اور کہا :

” ہم کفن نہیں بیچتے، آپ باہر کسی دکان پر دیکھ لیں۔”

وہ باہر نکلی اور واپس اسی پھٹے کے پاس گئی۔

بزرگ نے اسے دیکھا اور پوچھا ، “بیٹا کیا چاہیے ؟”

‘ ایک کفن چاہیے ”

“کس کے لیے ”

“جی اپنے لئے”

“اپنے لیے۔۔۔۔ بزرگ نے حیرانی سے پوچھا۔

“اپنے لیےکفن کون خریدتا ہے بیٹا ؟”

” میں خریدنا چاہتی ہوں ”

” یہ لو”

بزرگ نے دو سفید چادریں اس کے سامنے رکھ دیں  ،اس نے ایک نظر ان چادروں کو دیکھا اور پوچھا

“کوئی اور اچھے والا کپڑا ”

” بیٹا کفن میں اچھا اور برا کیا ہوتا ہے ”

” دوسوتی چادریں چاہئیں  بس۔۔۔ انسان کی اصل کمائی ، زندگی بھر کی جمع پونجی ، بس یہ دو چادریں اور دو گز زمین کا ٹکڑا۔۔۔۔۔ باقی سب دنیا کا مال،دنیا کے ساتھ ختم!

اس نے ایک چادر پکڑی اسکے کھردرے پن کو محسوس کیا اور ایک سائیڈ سے زور سے کھینچا ، تو وہ ذرا سا پھٹ گیا ، اس نے اسی جگہ سے دوبارہ کھینچا تو وہ آسانی سے پھٹتا چلا گیا ،اس نے غصے اور ناراضگی سے بزرگ کے سامنے دونوں کپڑے پھینکے۔۔

“یہ بیکار کپڑے پہنا کر منوں مٹی کے نیچے ڈال دیتے ہیں نہ یہ پانی کو روک سکے, نہ گرم سرد کو”

جب تک جان ہے، تب تک موسم ہے ، مزاج ہے، گرم سرد ہے، جب جان نکل جائے گی تو پھر صرف مٹی رہ جائے گی ، پھر مٹی نے مٹی میں مل کر ،مٹی ہی ہو جانا ہے ، پھر کیا کمزور کپڑا اور کیا مضبوط کپڑا ؟
بزرگ نے تحمل سے جواب دیا۔

بیکار کہانیاں مت سناؤ،مٹی کے بنے ہیں ، مٹی ہو جائیں گے، مٹی میں تو کیڑے ہوتے ہیں ، اگر ہم مٹی کے بنے ہوتے تو ہم میں کیڑے نہ پڑ جاتے۔۔۔
اس نے نخوت سے جواب دیا۔

کیڑے تو پڑ جاتے ہیں بیٹا ! بلکہ کیڑے تو پڑ چکے ہیں انسانوں میں ۔۔۔ یہ غصہ ، یہ حسد ، یہ جلن ، پیسے کی طلب ، زر زمین کی چاہت۔۔۔ یہ سب کیا ہے ؟ کیڑےہی تو ہیں ، جو اس ٹھیکری مٹی میں پڑ گئے ہیں۔۔۔۔
بزرگ نے پھرتحمل سے جواب دیا تھا مگر وہ اب بیزاری سے ادھر ادھر دیکھنے لگی جیسے کوئی اور دکان ڈھونڈ رہی ہو۔

اس کپڑے پر اعتراض ہے بی بی تو جاکر لٹھا خرید لو ، لیکن قبر کے موسموں سے بچنے کے لئے اعلی کپڑے کی نہیں کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے ۔

بزرگ کے چہرے پر پراسرار مسکراہٹ ابھری۔

وہ پاؤں پٹختی آگے بڑھ گئی ۔ ایک معروف برانڈ کے بورڈ پر لکھا ہوا پڑھا

” اعلیٰ  لٹھا دستیاب ہے”

وہ اندر داخل ہو گئی اور اس نے اعلیٰ لٹھے کے تین کفن خریدے ۔۔۔جو اس برانڈ کی پیکنگ میں تھے۔

جب گھر پہنچی ،تو ماما پاپا جیسے اسی کے منتظر بیٹھے تھے، ماما نے اس کے ہاتھ میں معروف برانڈ کی پیکنگ دیکھی تو خوشی سے بولیں ۔

“کچھ بہت اچھا خرید کے لائی ہو گی میری بیٹی، اسکی تو پسند ہے ہی بہت اعلی!

کہاں گئی تھی میری بیٹی ! بابا نے پوچھا

ماما نے زبردستی بھیجا تھا کہ آنے والے موسم کی تیاری کر لو، تو میں نے کرلی۔

بہت اچھا کیا ! کیا لیا میرے بیٹے نے؟ پاپا نے پوچھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

برانڈڈ کفن!

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply