• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • یقین کریں: انسانوں کا کورونا سے پہلا واسطہ 25 ہزار سال قبل پڑا تھا، تحقیقاتی رپورٹ

یقین کریں: انسانوں کا کورونا سے پہلا واسطہ 25 ہزار سال قبل پڑا تھا، تحقیقاتی رپورٹ

کینبرا: یقین کریں! عالمی وبا قرار دیے جانے والے کورونا وائرس کا انسانوں سے پہلا رابطہ و واسطہ تقریباً 25 ہزار سال قبل پڑا تھا۔ اس بات کا انکشاف آسٹریلیا اور امریکہ کے سائنسدانوں پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم نے کیا ہے۔

ٹیم کی جانب سے کیے جانے والے دعوے کے تحت 25 ہزار سال قبل مشرقی ایشیا میں کورونا وائرس کی پھیلنے والی بیماری تقریباً 20 ہزار سال تک جاری رہی تھی۔

مؤقر جریدے کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے کے ثبوت و شواہد خطے کے موجودہ لوگوں کے جینوم میں باآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔

دلچسپ امر ہے کہ یہ تحقیقاتی رپورٹ ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آئی ہے کہ جب دنیا میں یہ بحث نہایت شدت سے کی جار ہی ہے کہ کیا کورونا وائرس نے قدرتی طور پر جنم لیا ہے؟ اور یا یہ کہ یہ کسی لیبارٹری میں مصنوعی طریقے سے پیدا ہوا اور پھر حادثاتی طور پر دنیا میں پھیل گیا؟

طبی ماہرین اور سائنسدانوں کے پاس اس حوالے سے مختلف وجوہات و جواز بھی موجود ہیں لیکن تاحال دنیا کسی ایک نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے مگر یہ بات طے ہے کہ اب تک کورونا وائرس دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کرچکا ہے جب کہ لاکھوں افراد اپنی جانوں سے بھی جا چکے ہیں۔

طبی ماہرین اور سائنسدانوں نے 2002 میں بھی چین میں پھیلنے والی کورونا وائرس کی ایک وبا کو سارس (سیویر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم) کا نام دیا تھا جس کے نتیجے میں 8 ہزار افراد متاثر جب کہ 800 ہلاک ہوئے تھے۔

اس واقعہ کے 4 سال بعد مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم نامی (ایم ای آر ایس) کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں 2400 افراد متاثر جب کہ 850 سے زائد ہلاک ہوئے تھے۔دنیا کو اس وقت کو وی-2 کی متعدد اقسام کا سامنا ہے جو کووڈ-19 نامی بیماری کی بنیادی وجہ بن رہی ہیں۔

کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق آسٹریلیا اور امریکی سائنسدانوں پر مشتمل ٹیم نے یہ دریافت کیا ہے کہ کم و بیش 25 ہزار سال قبل مشرقی ایشیا میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹی تھی جو 20 ہزار سال تک جاری رہی تھی۔

تحقیق کے شریک مصنف اور کوئنزلینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں حیاتیاتی ماہر کیریل الیگزینڈرو نے کہا کہ ہے کہ اس وائرس نے آبادی میں ایک بڑی تباہی پھیلائی تھی اور اہم جینیاتی داغ بھی چھوڑا تھا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کسی بھی درخت پر موجود دائروں کی طرح ہمارا جینیٹک کوڈ بھی ہمارے قدیم ماضی کی داستان سنا سکتا ہے۔

تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہمارے جینز میں ہونی والی میوٹیشنز کا مطلب ہے کچھ لوگ فطری طور پر وائرسز سے جلدی متاثر ہوسکتے ہیں اور یا پھر ان میں بیماری کی سنگین علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔

ڈاکٹر سولیمی اور ان کے ساتھیوں نے یہ معلوم کرنے کے لیے تحقیق کی کہ ماضی قدیم میں بھی انسان کورونا وائرسز کا شکار ہوئے تھے یا نہیں؟ اور یہ بات ہمارے جینوم کے ذریعے سامنے آسکتی ہے، لہذا انہوں نے دنیا بھر سے ہزاروں انسانوں کے جینومز کا سروے کیا اور اسے 1000 جینوم پروجیکٹ ڈیٹا بیس میں محفوظ کیا۔

رپورٹ کے مطابق ویتنام، چین اورجاپان سے تعلق رکھنے والے افراد میں کورونا وائرس سے تعلق رکھنے والی جینیاتی علامات پائی گئیں لیکن یہ علامات دنیا کے دیگر حصوں کے لوگوں کے جینز میں ظاہر نہیں ہوئیں۔

ڈاکٹر سولیمی کے مطابق علامات ظاہر ہونے کے بعد ہم نے یہ جاننے کے لیے مختلف ٹولز استعمال کیے کہ اس خطے کے لوگوں میں یہ جینیاتی تبدیلیاں کتنا عرصہ پرانی ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ تبدیلیاں لگ بھگ 25 ہزار سال قبل رونما ہونا شروع ہوئیں۔

رپورٹ میں محقیق نے بتایا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ اس وائرس نے 5 ہزار سال قبل جینومز پر ارتقائی دباؤ ڈالنا چھوڑدیا تھا جس کا مطلب ہے کہ یہ وبا 20 ہزار سال تک جاری رہی تھی۔

کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک وائرس یا وائرسز کی سیریز بھی ہوسکتا ہے جنہوں نے ایک ہی مالیکیولز مشینری استعمال کی کیونکہ ایک اور تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ سارس-کووی-2 کی وائرل فیملی تقریبا 23 ہزار سال پہلے سامنے آئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

شائع شدہ تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ اندازاً 20 ہزار سال کے دورانیے تک انسانوں کا واسطہ کورونا وائرسز سے پڑا تھا۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply