ایف اے ٹی ایف کا گل گھوٹو۔۔عارف انیس

ایف اے ٹی ایف کا فیصلہ آگیا اور وہ وہی تھا جس کی ماہرین توقع کر رہے تھے۔ گو پبلک کچھ زیادہ خوشگوار توقعات باندھے ہوئے تھی۔ پاکستان کے گلے میں جو گھنٹی باندھی گئی تھی اسے اتارنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس گھنٹی کو پورے ایک سال کے لئے( اگلے جون 2022 ) تک کس کر باندھ دیا گیا۔ شاید پچھلے ہفتے کے عمران خان کے “ہرگز نہیں المعروف ابسالیئوٹلی ناٹ” جواب کے بعد اس فیصلے پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ “دندان شکن” جواب تو یہی رہنا چاہیے تھا مگر شاید اس انٹرویو کو دو ہفتے آگے کرنے میں حرج نہیں تھا۔

ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) ایک بین الاقوامی حکومتی ایسوسی ایشن ہے جو کہ 1989 میں جی 7 پیرس سربراہی اجلاس کے بعد معرض وجود میں آیا۔ اسے دنیا بھر میں استعمال ہونے والے منی لانڈرنگ کے طریقوں کا جائزہ لینے اور اس کے مطابق بین الاقوامی سطح پر ایک فریم ورک تشکیل دینے کے لیے قائم کیا گیا تاکہ دنیا میں بڑھتی ہوئی منی لانڈرنگ پر قابو پایا جائے۔ 11/9 کے ہولناک واقعے کے بعد ایف اے ٹی ایف کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا اور ایف اے ٹی ایف کا مینڈیٹ منی لانڈرنگ سے بڑھا کر کائونٹر ٹیررازم فائننسنگ کی 9 نئی سفارشات کا بھی اضافہ کردیا گیا۔ ایک طرح سے یہ اضافہ امریکی پیٹریاٹ ایکٹ اور یو این سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 1373 کی ایک کڑی تھی جس میں دہشت گردوں کی “فالو دا منی ٹریل” کے اصول کے تحت مالی مدد کرنے والوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یوں تو دنیا میں بلیک اکانومی اور ٹیرر فنانسنبگ کے خلاف ایک محاذ ہے، تاہم بہت سی دوسری تنظیموں کی طرح یہ دنیا کے چودھریوں کا اکٹھ ہے جس کے  ذریعے کمی کمین ملکوں کا مکو ٹھپا جاسکتا ہے۔ مختصراً اسے جان آئی شکنجے اندر ٹائپ واردات کہا جاسکتا ہے جس میں ڈیتھ بائی اے تھاؤزینڈ کٹس، یعنی چرکے پہ چرکہ ڈال کر کسی ملک کو نڈھال کیا جاتا ہے۔ اندازہ لگانا ہو تو 2008 سے اب تک کے کبھی آف یا آن گل گھوٹو سے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 38 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ۔مخدوم شاہ محمود قریشی یہ رقم دس ارب ڈالرز بتاتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں اربوں ڈالرز کی واردات ہے۔ اس وقت ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں اور دونوں ممالک کی اقتصادیات کو بربادی کیا جا چکا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے شکنجے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ بھی یاروں نے کیا۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کےلیے ووٹ دیا تھا جبکہ پاکستان کے حلیف تصور کیے جانے والے ممالک ترکی، چین اور سعودی عرب نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔ یہ الگ بات کہ پس منظر میں انڈیا کی بھرپور لابی تھی جس نے یہ نٹ بولٹ کسنے کا کام سر انجام دیا۔ یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے صدر نے اس ضمن میں انڈیا کے ریویو ہر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور اس کے لیے بہانہ بنایا کہ کووڈ وائرس کی سنگین صورتحال کی وجہ سے انڈیا کو بعد میں دیکھا جائے گا۔ اس ضمن میں انڈیا میں یورینیم فروخت کرنے کے سنگین ترین واقعات کو بھی قالین کے نیچے گھسیڑ دیا گیا۔ اگر ایسا کوئی واقعہ پاکستان میں پیش آتا تو اسلامی بم اور ڈرٹی بم پر ابھی تک مسلسل براڈکاسٹ چل رہا ہوتا۔ معاملہ ہی کچھ ایسا ہے کہ ہندوستان کی تین ٹریلین ڈالرز کی اکانومی کو دیکھ کر سب کی رال ٹپکتی ہے جبکہ پاکستان کو جب ضرورت پڑے قینچی ڈال لی جاتی ہے۔

ایف اے ٹی ایف کا اصل نقصان یہ ہے کہ اقتصادی ترقی کی رفتار موٹر وے سے اتر کر کچے پر آجاتی ہے۔ پیسے کی ٹائم ویلیو اس کی سب سے بڑی قدر کہلاتی ہے جب کہ واچ لسٹ پر ڈالنے سے پاکستان سے ہونے والی ہر ٹرانزکشن کو زیادہ جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً جب کوئی پاکستانی بینک، دنیا میں کسی پاکستانی کے لئے کوئی رقم منتقل کرنا چاہتا ہے تو اس حوالے سے پہلے سے پوری تفصیلات بتا دینے پر بھی مزید سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بینک میں ایل سی یعنی لیٹر آف کریڈٹ کھلنا دگنا مشکل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے بزنس کے کئی مواقع ضائع ہوجاتے ہیں۔ ملک کی کریڈٹ ریٹنگ شدید متاثر ہوتی ہے اور قرض کے حصول کے لیے معاملات مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خان حکومت اور مقتدر اداروں نے گزشتہ کچھ برسوں سے ایف اے ٹی ایف کے معاملات کو سنجیدہ اور ترجیحی بنیادوں پر برتا ہے۔ ساری کارروائی کا اصل مقصد پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال کر اس کا ناطقہ بندی کرنا  تھا، جس کو ناکام بنا دیا گیا۔ ضابطے کی کارروائی کے دوران کچھ ایسی انہونیاں بھی ہوگئیں جو دوسری صورت میں ناممکن تھیں۔ دس برس پیشتر اور آج کے پاکستان میں اس حوالے سے زمین آسمان کا فرق ہے۔ تبھی حالیہ ریویو میں ایکشن پلان کے 27 میں 26 نکات پر عمل درآمد کا کریڈٹ دیا ہے مگر ساتھ ہی چھ نکاتی تعویذ بھی تھما دیا ہے۔ ریئیل اسٹیٹ، جیولرز اور پراپرٹی کے کام کو حاصل مراعات پر بھی آواز اٹھائی گئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل خواجہ عدنان ظہیر اس ضمن میں شاندار افسر ہیں۔ میں ان کے ساتھ دوران تربیت کام کر چکا ہوں اور ان کی ان کی قابلیت کا گواہ ہوں اور اس حوالے سے ایف اے ٹی ایف کی مہار بہترین ہاتھوں میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایف اے ٹی ایف نے گھانا کو تو گرے لسٹ سے نکال دیا، مگر پاکستان پر ابھی بھی نظر کرم نہیں کی گئی۔ اب لگتا یہ ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد پاکستان کو اگلے دو تین برسوں میں صراط مستقیم پر رکھنے کے لیے وقتا فوقتاً ہمارا بازو ایف اے ٹی ایف کے زریعے موڑا جاتا رہے گا۔ ہمیں چھٹی تبھی ملے گی، جب چوہدریوں کا کام نکل جائے گا، وگرنہ عشق کے امتحانات چلتے رہیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply