مندر بنسی رام دھر۔۔طلحہ شفیق

یہ مندر انارکلی بازار میں جالندھر سویٹ کے سامنے واقع ہے۔

اگر ہم انارکلی سے گزر رہے ہوں تو اس مندر کی عمارت ہمیں متوجہ کرلیتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ اس کا پُرکشش جھروکا ہے۔ مندر کی عمارت کافی وسیع ہے بلکہ یہ مندر شاید ایک حویلی کا حصہ ہے۔ مندر کی عمارت گو کہ بہت قدیم نہیں مگر ہے شاندار۔ اس مندر کا تذکرہ چونکہ سہہ مورخین لاہور کی کتب میں موجود نہیں۔ اس لیے محتاط اندازہ ہے کہ یہ مندر سن ١۹۰۰ء کے بعد ہی تعمیر ہوا۔ بعد میں لکھی جانے والی کتب میں بھی اس مندر کا کوئی خاص تذکرہ نہیں ملتا۔ البتہ ماسٹر امر ناتھ صاحب نے اپنی کتاب “لاہور کی سیر” میں اس مندر کا مختصر احوال یوں تحریر کیا ہے

“یہ ٹھاکر دوارہ انارکلی میں پنڈت جی کی وصیت کے مطابق ان کی بیوگان نے بنوایا۔ مندر میں ودیآتھی آشرم ہے۔ جس کا خرچ مندر کے فنڈ سے ملتا ہے۔ مسافروں کے ٹھہرنے کا انتظام بھی ہے”۔

اس مندر کا ایک اور تذکرہ بزم اردو کی مرتب کردہ “لاہور گائیڈ” میں بھی موجود ہے۔ جس میں مندر کا قدرے تفصیل سے درج ذیل الفاظ میں تعارف پیش کیا گیا ہے۔ “انارکلی میں گنپت روڈ کے سامنے, تیرہ چودہ سال ہوئے کہ بیوگان پنڈت بنسی لال رئیس لاہور نے ان کی وصیت کے مطابق اس شوالہ کو بنوانا شروع کیا تھا۔ اس قدر عرصہ گزر گیا۔ اور تخمیناً پونے دو لاکھ روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ لیکن ابھی تک اس کی عمارت مکمل نہیں ہوئی*۔ انارکلی بازار میں اس مندر کا طولانی رفیع الشانی گنبد نہایت خوشنما اور شاندار معلوم ہوتا ہے۔ تمام عمارت پختہ اور بعض جگہ پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ مغرب اور جنوب کی طرف بڑی بڑی دکانیں اور وسیع بیٹھکیں بنائی گئی ہیں۔ مشرق کی طرف ایک بڑا مسافر خانہ اس مندر کے متعلق ہے۔ یہ تمام عمارت پنڈت شودت مختار بیوگان مذکور اور پنڈت ایشر داس کی زیرِ  نگرانی تعمیر ہوئی ہے۔ مندر میں چودہ ودیارتی ہیں جن کے اخراجات مندر کے فنڈ سے ادا ہوتے ہیں۔ ۲٥ آدمیوں کو روزانہ لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ مسافروں کے ٹھہرنے کا انتظام بھی معقول ہے۔ اور ان سے کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ مندر کی متعلقہ عمارات سے تقریباً تین سو روپے ماہوار کرایہ وصول ہوتا ہے۔ لنگر خانہ, مسافر خانہ اور کرایہ کے مکانات کا انتظام آج کل پنڈت پر بدیال کے سپرد ہے۔”

درج بالا اقتباسات سے قابل قدر معلومات ملتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم سے قبل مندر کے ساتھ آشرم بھی تھا اور سرائے بھی۔ نیز اس سرائے میں بلا معاوضہ لوگوں کو ٹھہرایا جاتا تھا اور تواضع بھی کی جاتی ہے۔ اس اقتباس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ یہ سہولت فقط پنڈت یا دیگر مذہبی رہنماؤں وغیرہ کو ہی میسر تھی۔ اس مندر کی تعمیر میں شامل جن افراد کا ذکر بزم اردو کی گائیڈ میں کیا گیا ہے۔ ان سے ملتے جلتے نام لوہاری منڈی میں موجود ایک مندر کی تختی پر بھی درج ہیں۔ جس کی عبارت درج ذیل ہے۔
“اوم سواستی شری گنیش ہائے نما۔
(ॐ श्री गणेशाय नमः)

سمبت ١۹٤٤ ماگھ دن ١۲ لاہور, لوہاری منڈی۔ لالہ شبدت رائے چوپڑہ کے پُتر ایشر داس ڈپٹی کمشنر پولیس جالندھر سورگ واسی, کی اِستری (بیوی) وید کور نے ٹھاکر دوارہ بنوایا۔” کچھ عجب نہیں کہ یہ مندر بھی انہی نے بنوایا ہو۔ لیکن اس کے لیے ابھی ناموں کی مماثلت کے سوا کوئی پختہ ثبوت موجود نہیں۔

آج کل مندر بنسی لال کے باہر دکانیں ہیں اور مندر کے بڑے سے تحہ خانے میں کوئی حکومتی دفتر ہے۔ اوپر جانے کو ایک تنگ راستہ ہے۔ جھجکتے ہوے سڑیاں تو چڑھ لیں مگر آگے دیکھا کہ کوئی محترمہ تار پر کپڑے پھیلا رہیں ہیں۔ گھبرا کر نیچے اتر رہا ہی تھا کہ آخری سیڑھی پر ایک صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ جناب کہ ہاتھ میں ہاکی بھی تھی تو ہم کچھ پریشان ہوگئے, مگر انہوں نے نہایت پیار سے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے۔ عرض کیا جناب تاریخی عمارتیں دیکھنے کا خبط ہے اسی چکر میں اوپر چلے تو گئے, لیکن معلوم ہوا کہ یہ کسی کا گھر ہے تو اس باعث واپس اتر آئے۔ وہ بڑی محبت سے مجھے دوبارہ اوپر لے گئے۔ اسی دوران پتا چلا کہ ہاکی تو وہ بس بطور سہارا استعمال کرتے ہیں۔ ان صاحب کا نام عبدالغفار تھا۔ اب مندر کے گنبد کو میں حسرت سے دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے میری سوالیہ آنکھوں کو جلد جانچ لیا۔ اور بتانا شروع کیا کہ یہاں پر مختلف خاندان رہتے ہیں۔ نیز میری کھولی بالکل گنبد کے ساتھ   والی ہے ساتھ ہے۔ ان سے اجازت چاہی کہ اوپر جا کر اک مرتبہ گنبد دیکھ سکتا ہوں۔

 

ابھی اختتامی الفاظ میرے منہ میں ہی تھے کہ انہوں نے اپنی بٹیا کو آواز دی کہ یہ ذرا بھیا آرہے ہیں۔ ان کے لیے چھت کا دروازہ کھول دو۔ غروب آفتاب کا وقت تھا۔ ہلکی ہوا چل رہی تھی اور میرے سامنے ایک مندر کا عمدہ گنبد تھا۔ کچھ عجب سا احساس ہوا۔ نیچے اترا تو دیکھا کہ وہ صاحب نیچے ہی کھڑے تھے کہنے لگے بیٹا اب لوگ بہت ڈرتے ہیں میں اس لیے یہاں کھڑا ہوں کہ کوئی آپ کو تنگ نہ کرے۔ ان کا برتاو میری توقعات سے برعکس تھا۔ مندر سے متعلق معلوم ہوا کہ اب یہ کسی یہودی  کی ملکیت ہے۔ اس نے مختلف لوگوں کو یہاں کرائے پر جگہ دے رکھی ہے۔ اس مندر کی دلکش عمار ایبک کے مزار سے بھی نظر آتی ہے۔ مندر کی عمارت مجموعی طور پر برطانوی و روایتی طرز تعمیر کا امتزاج ہے۔ لاہور کا روایتی جھروکا بھی اس کی شان و شوکت میں اضافہ کرنے کے واسطے موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر رہائش کہ باعث اب اصل تعمیر میں تو کافی تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ مگر اب بھی مندر میں کیا گیا لکڑی کا کام خاصی بہتر حالت میں ہے۔ نیز عمارت کے اندر اب بھی بعض جگہ فریسکو کے آثار ہیں۔ گو کہ اس مندر کی قدامت کے اعتبار سے تو کچھ خاص تاریخی اہمیت نہیں۔ لیکن پھر بھی اس کو بحال کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ ایسی عمارات ہی لاہور شہر کی پہچان ہیں۔ اور اب تیزی سے ان کو مسمار کیا جارہا ہے۔ ایسے میں بچ جانے والی چند ایک عمارات کا تحفظ لازم ہے۔ بہرحال اگر کسی دوست کو قدیم عمارات سے شغف ہے تو یہ شاندار مندر آپ کا منتظر ہے۔
طلحہ شفیق
*تقریباً ١۹۰۹

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply