• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ادیب ، شاعر،دانشور،نقاد ،محقق اور انشائیہ نگار،ڈاکٹر وزیر آغا( دوم،آخری حصّہ)

عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ادیب ، شاعر،دانشور،نقاد ،محقق اور انشائیہ نگار،ڈاکٹر وزیر آغا( دوم،آخری حصّہ)

ڈاکٹر وزیر آغا نےآزادی اظہار کو انسانی آزادی سے تعبیر کرتے تمام عمر عجز و انکسار ،استغنا ،قناعت اور استقامت کا ارفع ترین معیار قائم رکھا۔ان کی تخلیقی فعالیت اس حقیقت کی مظہر ہے کہ دل کی آزادی ہی ان کے لیے شہنشاہی کا درجہ رکھتی تھی ۔وہ در قیصر و کسریٰ کو کھنڈر سمجھتے تھے اور انھوں نے کبھی کسی فرعون ،نمرود ،ہلاکو خان یا آسو بلا خان کے جعلی جاہ و جلال اور کروفر کو لائق اعتنا نہ سمجھا۔ان کی شاعری میں صبر و استقامت کی درخشاں مثالیں ہر دور میں دلوں کو ایک ولولہ تازہ عطا کرتی رہیں گی۔ زندگی اور اس کے اسرارو رموز کی گرہ کشائی کرنا کس کے بس میں ہے ۔خالق کائنات نے انسان کو اس وسیع و عریض دنیا میں بھیج کر سعی پیہم کے لیے ایک میدان عمل کا تعین کر دیا ہے ۔فرصت زندگی اگرچہ بہت کم ہے مگر جو دم بھی میسر ہے وہی مغتنم خیال کرنا چاہیے ۔ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے
کہنے کو چند گام تھا یہ عرصہ حیات
لیکن تمام عمر ہی چلنا پڑا مجھے

قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہوس زر نے انسانیت کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چار کر دیا ہے ۔بے حسی کا عفریت چاروں جانب منڈلا رہا ہے ۔ڈاکٹر وزیرآغا کی شاعری میں خلوص اور دردمندی،قوی مشاہدہ ،آفاقی اور کائناتی انداز فکر ،متنوع تجربات اور دلدوز مشاہدات کے جو کرشمے موجود ہیں وہی ہمیں میرا جی ،مجید امجد اور فیض احمد فیض کے ہاں بھی ملتے ہیں۔ انھوں نے ان شعرا کے کالم کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ان سے یقیناً اثرات قبول کیے ہیں ۔ڈاکٹر وزیر آغا کی شاعری میں دروں بینی کی جو کیفیت ہے وہ تخلیق کے لا شعوری محرکات کی غماز ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صریر خامہ نے نوائے سروش کی صورت اختیار کر لی ہے اور یہ کلام دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے کا مﺅثر وسیلہ بن جاتا ہے۔
جبین سنگ پہ لکھا مرا فسانہ گیا
میں رہگزر تھا مجھے روند کے زمانہ گیا
اب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میری
رات کا آخری تارا بھی ہے جانے والا

ڈاکٹر وزیرآغا کی نظم نگاری سے اردو نظم کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ان کی بات دل سے نکلتی اور سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی کے معجز نما اثر سے وہ اپنی شاعری کو کمال خلوص اور دردمندی سے پیش کرتے ہیں ۔ان کا اسلوب ان کی ذات ہے ۔یہ اسلوب اس قدر منفرد اور دلکش ہے کہ شاعری در اصل ساحری کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہے اور قاری اس کے ہمہ گیر اثرات کی بدولت مسحور ہو جاتا ہے۔تاثیر اور وجدان کی یہ کیفیت ان کی شاعری کا امتیازی وصف ہے
ٹین کی چھت پر اپنے اجلے پر پھیلا تھا
آنے والی سرخ رتوں کے بھاگوں میں جب کھو جائے گا
سب آوازیں تھم جائیں گی
پلکیں تھک کر سو جائیں گی
گئے دنوں کا نام منوں مٹی کے نیچے دب جائے گا
سب آوازیں تھم جائیں گی
پلکیں تھک کر سو جائیں گی
گئے دنوں کا نام منوں مٹی کے نیچے دب جائے گا
اگلا ساون کب آئے گا؟

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ ہماری آنکھیں یاد رفتگاں میں ساون کے بادلوں کی طرح برستی رہیں گی ، ہم قلزم خوں پار کر جائیں گے ،ہم زینہ ہستی سے اتر جائیں گے مگر جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ان کے ہمراہ اگلا ساون دیکھنا کبھی نصیب نہ ہو گا۔اجل کے ہاتھوں جو گھاﺅ لگتے ہیں وہ درد لا دوا دے جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے علامت کو ایک ایسے نفسیاتی کل کا روپ عطا کر دیا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے کر خواب غفلت سے جگانے کی صلاحیت سے متمتع ہے ۔چاند چہرے شب فرقت پہ وار کے آفتاب و ماہتاب لحد میںاتار کے دامن جھاڑ کے ہم بے بسی کے عالم میں اپنے سونے آنگن میں حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے ہوتے ہیں مگر اگلا ساون اب کبھی نہیں آئے گا۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو نظم کو نئے امکانات سے آشنا کیا۔ان کی نظمیں ان کے وسیع مطالعہ اور آفاقی انداز فکر کی آئینہ دار ہیں مثال کے طور پر ان کی نظم ” آدھی صدی کے بعد “سیل زماں کے تھپیڑوں کا حقیقی احوال بیان کرتی ہے جن کی زد مین آکر نظام کہنہ اور تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتے ہیں۔اسی طرح اپنی نظم ” ایک کتھا انوکھی “میں انھوں نے زندگی کی حقیقی معنویت کے بارے میں نہایت خلوص اور دردمندی سے مثبت شعور اور آگہی پروان چڑھانے کی مستحسن سعی کی ہے ۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے آزاد نظم اور نثری نظم میں بھی خوب طبع آزمائی کی اور زبان و بیان اور اسلوب پر اپنی خلاقانہ دسترس کا لوہا منوایا۔ان کی نظم ”دن ڈھل چکا تھا “غزل کی ہیئت میں لکھی گئی ہے یہ نظم اسلوب اور ڈسکورس کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے ۔
دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا
سارا بدن لہو کا رواں مشت پر میں تھا
جاتے کہاں کہ رات کی باہیں تھیں مشتعل
چھپتے کہاں کہ سارا جہاں اپنے گھر میں تھا
حد افق پہ شام تھی خیمے میں منتظر
آنسو کا اک پہاڑ سا حائل نظر میں تھا
لو وہ بھی خشک ریت کے ٹیلے میں ڈھل گیا
کل تک جو ایک کوہ گراں رہگزر میں تھا
پاگل سی اک صدا کسی اجڑے مکاں میں تھی
کھڑکی میں اک چراغ بھری دوپہر میں تھا
اس کا بدن تھا خون کی حدت میں شعلہ پوش
سورج کا اک گلاب سا طشت سحر میں تھا

اکادمی ادبیات پاکستان نے مشاہیر ادب پر کتابوں کی اشاعت کا جوسلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کے تحت ڈاکٹر وزیر آغا کی شخصیت ،اسلوب اور علمی و ادبی خدمات پر ایک جامع کتاب شائع ہو چکی ہے ۔اس کتاب میں مصنف نے اس یگانہءروزگار دانشور کو خراج تحسین پیش کر کے پاکستانی ادبیات کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے فروغ علم و ادب کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں 1995 میں اکادمی ادبیات پاکستان کا تا حیات رکن مقر کیا ۔پاکستان میں ادیبوں کی فلاح و بہبود کے متعدد منصوبے ڈاکٹر وزیر آغا نے تجویز کیے ۔اس وقت پاکستان کے تمام ادیبوں کی انشورنش کی جس سکیم پر عمل جاری ہے ڈاکٹر وزیر آغا کا شمار اس کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔

8ستمبر2010 کی شام جب ڈاکٹر وزیر آغا نے لاہور میں داعی اجل کو لبیک کہا تو ان کا جسد خاکی ان کے آبائی گاﺅں وزیر کوٹ لایا گیا،جہاں انھیں ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔اس کے ساتھ ہی پاکستان میں اردو ادب کا ایک درخشاں باب اختتام کو پہنچا۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

منتخب کلام
یہ بھی کیا اوج ثریا پہ گرجتے رہنا
زخمی چیتے کی طرح خود پہ بگڑتے رہنا
یا تو آنا ہی نہ دھرتی کی عیادت کے لۓ
اور اگر آنا تو اک برق سی بن کر آنا
کسی نادار کے حرمن کو جلانے کے لۓ
کسی مفلس کی ٹھٹھرتی ہوئی کٹیا کے قریب
اس کے معصوم سے بچے کو بھسم کر جانا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تارِ نظر ہوں
میں سیال سا رابطہ ہوں
مقدر میں لکھا ہے میرے کہ میں سانس بن کر
اک اک تن میں اُتروں،اک اک تن سے باہر کو آؤں
زمانوں کو تازہ لہو کی حرارت مہیا کروں
ہست کو نیست ہونے سے ہر دم بچاؤں
مگر اپنی خاطر کوئی جسم ہر گز نہ مانگوں
کسی ایک منزل پہ رکنے نہ پاؤں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بادل چھٹۓ تو رات کا ہر زخم وا ہوا
آنسو رکے تو آنکھ میں محشر بپا ہوا
سوکھی زمیں پہ بکھری ہوئی چند پتیاں
کچھ تو بتا نگار چمن تجھ کو کیا ہوا
ایسے بڑھے کہ منزلیں رستے میں بچھ گئیں
ایسے گۓ کہ پھر نہ کبھی لوٹنا ہوا
اے جستجو کہاں گۓ وہ حوصلے ترے
کس دشت میں خراب ترا قافلہ ہوا
پہنچے پس خیال تو دیکھا کہ ریت پر
خیمہ تھا ایک پھول کی صورت کھلا ہوا
آئی شب سیہ تو دیۓ جھلملا اٹھے
تھا روشنی میں شہر ہمارا بجھا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس کس سے نہ وہ لپٹ رہا تھا
پاگل تھا یوں ہی چمٹ رہا تھا
مری رات گزر رہی تھی ایسے
میں جیسے ورق الٹ رہا تھا
ساگر میں نہیں تھی موج اک بھی
ساحل تھا کہ پھر بھی کٹ رہا تھا
میں بھی جھپٹ رہا تھا خود پر
جب میرا اثاثہ بٹ رہا تھا
دیکھا تو نظر تھی اس کی جل تھل
مشکیزہء ابر پھٹ رہا تھا
قسمت ہی میں روشنی نہیں تھی
بادل تو کبھی کا چھٹ رہا تھا
نشہ تھا چڑھاؤ پر سحر دم
پیمانہء عمر گھٹ رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھیں خبر بھی نہ ملی اور ہم شکستہ حال
تمھارے قدموں کی آندھی میں ہو گۓ پامال
ترے بدن کی مہک نے سلا دیا تھا مگر
ہوا کا اندھا مسافر چلا انوکھی چال
وہ ایک نور کا سیلاب تھا کہ اسی کا سفر
وہ ایک نقطہء موہوم تھا کہ یہ بد حال
عجیب رنگ میں وارد ہوئی خزاں اب کے
دمکتے ہونٹ سلگتی نظر دہکتے گال
ترے کرم کی تو ہر سو مہکتی برکھا تھی
ہمیں تھے جن کو ہوا بھیگا پیرہن بھی وبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود سے ہوا جدا تو ملا مرتبہ تجھے
آزاد ہو کے مجھ سے مگر کیا ملا تجھے
اک لحظہ اپنی آنکھ میں تو جھانک لے اگر
آؤں نظر میں بکھرا ہوا جا بجا تجھے
تھا مجھ کو تیرا پھینکا ہوا پھول ہی بہت
لفظوں کا اہتمام بھی کرنا پڑا تجھے
یہ اور بات میں نے صدائیں ہزار دیں
آئی نہ دشت ہول سے اک بھی صدا تجھے
تو نے بھی خود کو مرکز عالم سمجھ لیا
لگ ہی گئی زمانے کی آخر ہوا تجھے
کیا قہر ہے کہ رنگوں کے اس اژدہام میں
جز رنگ زرد اور نہ کچھ بھی ملا تجھے
نظروں نے تار تار کیا آسماں تمام
آئی نہ راس تاروں بھری یہ ردا تجھے
دائم رہے سفر میں ترا ناقہء خیال
دیتا رہوں میں روز یہی بد دعا تجھے
کہنے کو چند گام تھا یہ عرصہء حیات
لیکن تمام عمر ہی چلنا پڑا تجھے!

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تحریر اقتدار جاوید صاحب کی فیس بک وال سے شکریہ کیساتھ نقل کی گئی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply